انسٹاگرام پوسٹ پر گرفتار روسی طالبہ جنھیں پوتن کی مخالفت پر دہشتگردوں کی فہرست میں ڈالا گیا
- مصنف, سٹیو روزنبرگ
- عہدہ, روس کے مدیر، آرخانگلسک
اولیسیا پر کسی بگ برادر کی نہیں بلکہ اپنے ہی ساتھی طلبہ کی نظر تھی
یونیورسٹی کی طالبہ اولیسیا کرٹسووا کئی لیکچرز سے غیر حاضر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیس سال کی اولیسیا کو گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان کی ٹانگ پر الیکٹرانک ٹیگ ہے جس سے پولیس ان کی حرکت کی نگرانی کرتی ہے۔
انھیں سوشل میڈیا پر جنگ مخالف پوسٹ لکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ایک پوسٹ اکتوبر میں روس کو کریمیا سے ملانے والے پُل پر دھماکے سے متعلق تھی۔
اولیسیا بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’میں نے پُل کے بارے میں انسٹاگرام پر سٹوری لگائی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ واقعے پر یوکرینی عوام خوش ہیں۔‘
انھوں نے جنگ سے متعلق ایک دوست کی پوسٹ بھی شیئر کی تھی۔ اس کے بعد ان کی زندگی نے خوفناک موڑ لیا۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں فون پر اپنی ماں سے بات کر رہی تھی جب گھر کا دروازہ کھلتے ہوئے سنائی دیا۔ بہت سے پولیس اہلکار آئے اور میرا فون چھین لیا۔ وہ مجھ پر چیخے کے زمین پر لیٹ جاؤ۔‘
اولیسیا پر دہشتگردی کا دفاع کرنے اور روسی مسلح افواج پر تنقید کرنے کا الزام ہے اور اس پر انھیں دس سال تک قید ہوسکتی ہے۔
اولیسیا کو صرف گھر سے نکل کر عدالت جانے کی اجازت ہے
اولیسیا کہتی ہیں کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کسی کو انٹرنیٹ پر کچھ لکھنے پر اتنی لمبی قید ہوسکتی ہے۔ میں نے روس میں احمقانہ فیصلوں کی اطلاعات دیکھی ہیں مگر ان پر کبھی دھیان نہیں دیا تھا اور اپنی بات جاری رکھی ہوئی تھی۔‘
وہ روسی شہر آرخانگلسک میں ناردرن فیڈرل یونیورسٹی کی طالبہ ہیں مگر اب انھیں ملک میں دہشتگردوں اور انتہا پرستوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے احساس ہوا کہ مجھے اسی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے جس میں سکولوں میں فائرنگ کرنے والے اور دولت اسلامیہ کے لوگ شامل ہیں۔ مجھے یہ احمقانہ لگا۔‘
نظر بندی کے قوانین کے تحت انھیں فون پر بات کرنے یا آن لائن جانے کی اجازت نہیں۔
اولیسیا کے دائیں ٹانگ پر ایک ٹیٹو ہے جس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کو مکڑی کے روپ میں دکھایا گیا ہے اور انگریزی مصنف جارج اورویل کی یہ بات درج ہے: ’بگ برادر آپ کو دیکھ رہے ہیں۔‘
مگر اولیسیا کے کیس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں بگ برادر نہیں بلکہ ساتھی طلبہ دیکھ رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
اولیسیا کی ٹانگ پر پوتن مخالف ٹیٹو
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک دوست نے چیٹ میں میرے سے متعلق پوسٹ دکھائی کہ کیسے میں خصوصی فوجی آپریشن کے خلاف ہوں۔ اس چیٹ میں بہت سے لوگ ہسٹری کے طلبہ تھے۔ وہ بحث کر رہے تھے کہ آیا میرے بارے میں حکام کو بتانا چاہیے یا نہیں۔‘
بی بی سی نے اس گروپ چیٹ میں کہی گئیں باتیں دیکھی ہیں۔
ایک کمنٹ میں اولیسیا پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کا کردار انتہا پسند ہے۔ اس میں کہا جاتا ہے کہ ’جنگ کے وقت یہ کہنا نامناسب ہے۔ اس سے نمٹنا ہوگا۔‘
اس میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’چلو انھیں پہلے جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ اگر اس سے کچھ نہ ہوا تو سکیورٹی سروسز کو اس سے نمٹنے دیں گے۔‘
ایک اور شخص لکھتا ہے کہ ’ہر محب وطن پر مذمت فرض ہے۔‘
جب عدالت میں گواہوں کی فہرست بتائی گئی تو اولیسیا کئی ناموں کو پہچان سکتی تھیں جو کہ ان کے ساتھی طلبہ تھے۔
یوکرین میں کریملن کا ’خصوصی فوجی آپریشن‘ ایک سال سے جاری ہے۔ روس اپنی مداخلت کا ان الفاظ کے ذریعے جواز پیش کرتا ہے۔ جنگ کے دوران پوتن بارہا کہہ چکے ہیں کہ ’اصل محب وطن لوگوں کو غداروں سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
تب سے روس میں جنگ کے ناقدین نے کئی بار اس مداخلت کی مذمت کی ہے۔ اس میں طلبہ، اساتذہ اور ملازمین شامل ہیں مگر عوامی سطح پر جنگ کی مذمت کرنے خطرناک ہوسکتا ہے اور اس میں کسی دوسرے کے مذمتی بیان کی حمایت پر بھی معاف نہیں کیا جاتا۔
روسی حکام کو یوکرین میں مداخلت کے بعد سب کی حمایت کی توقع تھی۔ اگر آپ اس کی حمایت نہیں کرتے تو خاموش رہیں۔ اگر آپ خاموش نہیں رہتے تو آپ کے خلاف قوانین استعمال کر کے کارروائی کی جاسکتی ہے۔
ان قوانین میں ’جعلی معلومات‘ پھیلانے سے لے کر فوج پر تنقید جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
آرخانگلسک میں اس روسی فوجی کے ہلاک ہونے کی تصاویر لگائی گئی ہیں جو یوکرین میں مارا گیا تھا۔ اس پر درج ہے کہ ’جنگجو ہونے کا مطلب ہے ہمیشہ زندہ رہنا۔‘
حب الوطنی کے ایسے کئی پیغامات جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ سڑکوں پر جنگ مخالف بیانات کے خلاف روسی کریک ڈاؤن کو بھی حمایت حاصل ہے۔
ایک شخص ہمیں بتاتے ہیں کہ ’فوج پر تنقید کرنے والے اور جھوٹ پھیلانے والے ذہنی طور پر ٹھیک نہیں۔ انھیں پہلی صف میں کھڑا کرنا چاہیے۔‘
روس میں ہر طرف جنگ کی حمایت میں پیغامات درج ہیں
ایک دوسرے شخص نے ہمیں بتایا کہ ’خصوصی آپریشن کے مخالفین سے ہم منفی رویہ رکھتے ہیں۔‘
ہم نے پوچھا کہ کیا آن لائن پوسٹ پر لمبی قید ناانصافی نہیں؟ اس پر جواب آیا کہ ’لوگوں کو اپنا دماغ استعمال کرنا چاہیے۔ اگر وہ اس ملک میں رہتے ہیں اور تمام مراعات حاصل کرتے ہیں، اگر وہ محب وطن ہیں تو انھیں قانون کا احترام کرنا چاہیے۔‘
اسی روز اولیسیا کو گھر سے باہر آنے کی اجازت ملی جس میں انھیں صرف عدالت تک جانے دیا گیا۔ ان کے دفاع میں وکلا نے جج سے درخواست کی کہ اولیسیا کی نقل و حرکت پر پابندی ہٹائی جائے۔
اولیسیا نے پولیس وین میں ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر ’سکول بس‘ لکھا تھا۔ انھوں نے اس بات پر تبصرہ کرنے کی کوشش کی کہ روسی حکام کب تک تنقید پر نوجوانوں کا استحصال کرتے رہیں گے۔
جج نے ان کی نظر بندی برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔
اولیسیا کہتی ہیں کہ ’ریاست کے لیے بحث، جمہوریت یا آزادی قابل برداشت نہیں۔ مگر وہ سب کو قید میں بند نہیں کرسکتے۔ ایک موقع پر ان کے پاس قید خانے ختم ہوجائیں گے۔‘
Comments are closed.