انسانی فضلے سے جیٹ فیول کی تیاری: ’یہ ایک ایسا گند ہے جسے بنانے سے معاشرہ نہیں رک سکتا‘
فضلے کو کیمیائی عمل سے گزار کر خالص مٹی کا تیل بنایا جاتا ہے
- مصنف, ڈیو ہاروی
- عہدہ, ماحولیات اور کاروباری نامہ نگار، بی بی سی ویسٹ
اس بات پر یقین نہیں آتا لیکن اب یہ ایک حقیقت ہے۔ ایک نئی ایوی ایشن کمپنی نے صرف انسانی فضلے سے ایک قسم کا جیٹ فیول تیار کر لیا ہے۔
گلوسٹر شائر کی ایک لیب کے کیمسٹس نے فضلے کو مٹی کے تیل میں تبدیل کر دیا ہے۔
فائر فلائی گرین فیولز کے سی ای او جیمز ہائگیٹ نے کہا کہ ’ہم واقعی ایک سستا فیڈ سٹاک تلاش کرنا چاہتے تھے جو بہت زیادہ ہو اور یقیناً پاخانہ وافر مقدار میں ہوتا ہے۔‘
بین الاقوامی ہوابازی کے ریگیولیٹر کی طرف سے کیے گئے ٹیسٹ میں یہ ثابت ہوا کہ یہ تیل تقریباً معیاری فوسل جیٹ فیول جیسا ہی ہے۔
فائر فلائی کی ٹیم نے ایندھن کے کاربن اخراج کا جائزہ لینے کے لیے کرین فیلڈ یونیورسٹی کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فائر فلائی کے ایندھن کا معیاری جیٹ فیول کے مقابلے میں 90 فیصد کم کاربن فوٹ پرنٹ ہے۔
جیمز ہائگیٹ گذشتہ 20 سالوں سے گلوسٹر شائر میں ایسا ایندھن بنا رہے ہیں جس میں کاربن اخراج کم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیا ایندھن کیمیائی طور پر فوسل سے بنے ہوئے مٹی کے تیل جیسا ہی ہے لیکن اس میں ’فوسل کاربن نہیں ہیں، یہ فوسل سے پاک فیول ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یقیناً توانائی کا استعمال (پیداوار میں) ہو گا، لیکن جب ایندھن کے لائف سائیکل پر نظر ڈالی جائے تو 90 فیصد (کاربن اخراج کی) بچت متاثر کن ہے، اس لیے ہاں ہمیں توانائی کا استعمال کرنا ہو گا لیکن یہ فوسل فیول کی پیداوار کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘
جیمز ہائگیٹ نے کہا کہ نیا ایندھن ’انتہائی دلچسپ‘ ہے
ہوائی سفر اور کاربن کا اخراج
عالمی سطح پر ہوائی سفر کاربن کے اخراج میں تقریباً دو فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور یہ کاربن اخراج موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مزید ابتر اثرات پیدا کرتا ہے۔
ہوا بازی سے کاربن کے اخراج کو کم کرنا سب سے مشکل چیلنجز میں سے ایک ہے۔ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے بجلی سے چلنے والے ہوائی جہاز بھی تیار ہو رہے ہیں۔
برطانیہ کی ایک کمپنی نے کہا ہے کہ وہ 2026 تک ایک ایسا جہاز تیار کر لیں گے جو بجلی اور ہائڈروجن سے چلیں گے اور اس پر ایک درجن افراد ایک ہی وقت میں سفر کر سکیں گے۔
لہٰذا ایسے فوسل کے بغیر ماحول دوست مٹی کا تیل بنانے کے طریقوں کو ڈھونڈنا ایک عالمی سطح پر خزانے کی تلاش کے مترادف ہے۔
’بائیو کروڈ‘ بالکل خام تیل کی طرح کام کرتا ہے، اور اسے مٹی کے تیل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
گلوسٹر شائر کے ایک چھوٹے سے فارم پر 20 سال قبل جیمز ہائگیٹ نے ریپسیڈ آئل کو گاڑیوں اور ٹرکوں کے لیے ‘بائیو ڈیزل’ میں تبدیل کرنا شروع کیا۔
ان کی کمپنی گرین فیولز اب پوری دنیا میں اپنا آلات بیچتی ہے جو کوکنگ آئل کو بائیو ڈیزل میں تبدیل کرتا ہے اور ان کے صارفین پوری دنیا میں ہیں۔
اس کے بعد انھوں نے ایسے ایندھن کو بنانے کے طریقے پر اپنی تحقیق شروع کر دی جس کا کاربن اخراج کم ہو۔ انھوں نے تیل کے فضلے، کھانے کے فضلے حتیٰ کہ زرعی سکریپس کو بھی آزمایا۔
پھر انھوں نے انسانی فضلے کا تجربہ کیا۔ انھوں نے امپیریل کالج لندن کے کیمسٹ ڈاکٹر سرجیو لیما کے ساتھ مل کر یہ تجربہ کیا۔
انھوں نے مل کر ایک ایسا عمل تیار کیا جو پاخانے کو توانائی میں بدل دیتا ہے۔
ان کے مطابق پہلے انھوں نے ’بائیو-کروڈ‘ تخلیق کیا۔ یہ تیل کی طرح نظر آتا ہے، یہ گاڑھا اور سیاہ ہوتا ہے اور کیمیائی طور پر خام تیل جیسی خصوصیات رکھتا ہے۔
ڈاکٹر سرجیو فائرفلائی گرین فیولز میں ڈائریکٹر بھی ہیں وہ کہتے ہیں ’ہم یہاں جو کچھ تیار کر رہے ہیں وہ ایک ایندھن ہے جس کا کاربن اخراج بہت کم ہے۔‘
جب ڈاکٹر لیما نے پہلی بار نتائج دیکھے تو وہ بہت خوش ہوئے۔
سرجیو لیما کہتے ہیں ’بائیو کروڈ‘ ایک ایندھن ہے جس میں ’صفر نیٹ امیشن‘ ہوتا ہے
’یہ بہت دلچسپ ہے کیونکہ یہ ایک پائیدار فیڈ سٹاک (فضلے) سے تیار کیا گیا تھا، جس میں ہم سب اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔‘
انھوں نے مجھے اپنی لیبارٹری کا دورہ کروایا وہاں تیل کی ریفائنریوں پر لگائے جانے والے بڑے فریکشنل ڈسٹیلیشن کالموں کا ایک چھوٹا ورژن بھی ہے۔
یہ کالم بھی وہی کام کرتا ہے۔ اس میں مائع کو گرم کیا جاتا ہے اور پھر خاص درجہ حرارت پر مختلف گیسوں کو الگ کیا جاتا ہے اور مختلف ایندھن کی درست مقدار حاصل کی جاتی ہے۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارا بایو فیول ہے۔ آخر میں ملنے والے ایندھن کو دیکھنا حیرت انگیز چیز ہے۔‘
سرجیو لیما آئل ریفائنریوں میں استعمال ہونے والے ڈسٹلیشن کالمز کا ایک چھوٹا ورژن استعمال کر رہے ہیں
اس بائیو-کیروسین (مٹی کا تیل) کو اب جرمن ایرو سپیس سینٹر کے ڈی ایل آر انسٹیٹیوٹ آف کمبسشن ٹیکنالوجی میں آزادانہ طور پر آزمایا جا رہا ہے، یہ انسٹیٹیوٹ واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ میں برطانیہ میں پائیدار ہوابازی کے ایندھن کی تخلیق میں مدد کرنے والا ادارہ مستقبل میں اس پر مزید جانچ کرے گا۔
ابتدائی نتائج میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ایندھن کی کیمیائی ساخت اے ون (A1) فوسل فیول کے قریب قریب ہے۔
برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ نے اس موضوع پر مزید تحقیق کے لیے اس ٹیم کو 20 لاکھ پاؤنڈ کی گرانٹ دی ہے۔
یہ کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے ’اہم‘ ہے
انھوں نے لیبارٹری میں ایک ٹیسٹ ٹیوب میں مٹی کا تیل بنا لیا ہے لیکن ابھی وہ وقت بہت دور ہے جب ان کا بنایا ہوا مٹی کا تیل اس وقت استعمال ہونے والے فیول کی جگہ لے سکے۔
جیمز ہائگیٹ نے حساب لگا لیا ہے۔ ان کے حساب کے مطابق ایک انسان ایک سال میں اتنا فضلہ بناتا ہے کہ اس سے چار سے پانچ لیٹر کا بائیو جیٹ فیول بن سکتا ہے۔
لندن سے نیویارک تک ایک مسافر طیارے کو لے کر جانے کے لیے 10 ہزار افراد کا سالانہ فضلہ درکار ہو گا اور پھر واپس آنے کے لیے مزید 10 ہزار افراد کا سالانہ فضلہ چاہیے ہو گا۔
برطانیہ میں ہوائی فیول کی اس وقت جتنی طلب ہے پورے ملک کا فضلہ اس کا صرف 5 فیصد پورا کر سکے گا۔
یہ سننے میں کافی کم لگتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت دلچسپ ہے۔‘
’قانونی مینڈیٹ کے مطابق پائیدار ہوابازی کے ایندھن کی ضرورت ہے۔ اس کا نصف ہم پاخانے کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں۔‘
ایسا ایندھن جسے بنانے کے لیے ایسے ذرائع کا استعمال کیا جائے جس میں فوسلز نہ ہوں اسے سسٹین ایبل ایوی ایشن فیولز یعنی ہوابازی کے لیے پائیدار ایندھن کہا جاتا ہے۔
ایک ورجن اٹلانٹک مسافر طیارے کو مکمل طور پر تیل اور مکئی سے بنے مٹی کے تیل سے ایندھن دیا گیا تھا
یہ جہاز سے عام معیاری ایندھن جتنا ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کرتی ہے لیکن کیونکہ جس پودے سے انھیں بنایا جاتا ہے اس نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا استعمال کیا ہوتا ہے ماہرین کہتے ہیں کہ فوسل فیول استعمال کرنے کے مقابلے میں اس سے کاربن اخراج میں 80 سے 90 فیصد کمی آتی ہے۔
ماحولیاتی کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ لوگوں کو ہوائی سفر کم کرنا چاہیے۔ لیکن وہ اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ فضلے سے ایندھن بنایا جائے۔
جیسا کہ ایوی ایشن انوائرمنٹ فیڈریشن کے پالیسی ڈائریکٹر کیٹ ہیوٹ نے کہا ہے کہ ’انسانی فضلہ شاید ایک ایسا گند ہے جسے بنانے سے معاشرہ نہیں رک سکتا۔‘
ادھر بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے کہا ہے کہ پائیدار ہوابازی کے ایندھن ’ہوا بازی کے کاربن کا اخراج ختم کرنے کے لیے اہم ہیں۔‘
اس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں مشہور برطانوی کاروباری شخصیت سر ریچرڈ بارسن نے لندن سے نیویارک ایک ایسی پرواز پر سفر کرتے ہوئے کیا جو مکمل طور پر ایسے ایندھن سے چل رہی تھی جسے تیل اور مکئی سے حاصل کیا گیا تھا۔
لیکن آج ہوابازی میں استعمال ہونے والا صرف 0.1 فیصد ایندھن ’پائیدار‘ ہے۔
اس کے مقابلے میں جیمز ہائگیٹ کا 5 فیصد کا ہدف بھی کافی بڑا لگتا ہے اور وہ اس کے لیے ایسا فیڈ سٹاک استعمال کر رہے ہیں جو کوئی بھی نہیں چاہتا لیکن ہر جگہ بنتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ برطانیہ میں تیار کیا گیا ہے لیکن اس کی طلب عالمی سطح پر ہو گی۔ اب یہ کمپنی فنڈز جمع کر رہی ہے تاکہ ایسی فیکٹری بنائے جس میں وہ اس کا مظاہرہ کر کے دکھائے۔
جیمز ہائگیٹ وضاحت کرتے ہیں کہ ’بہت زیادہ آبادی والے شہروں میں مواقع بہت زیادہ ہیں۔ ہم بہت زیادہ ایندھن کی مقدار پیدا کر سکتے ہیں۔‘
Comments are closed.