انسانی سمگلنگ، امید اور محبت کی کہانی: ’سپین کی فراری‘ کہلائے جانے والے نیکو ولیمز فٹ بال سٹار کیسے بنے
- مصنف, گولیئم بالاگ
- عہدہ, بی بی سی سپورٹس کالم
- 2 گھنٹے قبل
’اٹلی کے خلاف دو فراری۔۔۔‘اٹلی کی ٹیم کو سپین نے یورو کپ میں شکست دی تو ملک میں کھیلوں کے سب سے بڑے اخبار میں یہ شہ سرخی لگی۔ اس خبر کے ساتھ دو کھلاڑیوں کی تصویر تھی۔ یہ نیکو ولیمز اور لمائن یمل ہیں اور یہ شہ سرخی ان کی فراری گاڑی جیسی برق رفتاری کا اعتراف تھا۔ولیمز اور لمائن یمل کی کہانی کچھ ایک جیسی ہے۔ ولیمز رواں سال 12 جولائی کو 22 سال کے ہو رہے ہیں جبکہ یامل اس کے ایک دن بعد اور یورو کپ فائنل سے ایک دن پہلے 17 سال کے ہو جائیں گے۔ان دونوں فٹ بال کھلاڑیوں، جو بطور ونگرز سپین کی ٹیم میں کھیلتے ہیں، کی جوڑی نے ایک بار پھر سب کو اس وقت متاثر کیا جب انھوں نے سپین کو جارجیا کے خلاف ایک گول کے مقابلے میں چار گول سے کامیابی دلائی جس کے بعد ان کا کوارٹر فائنل جرمنی کے خلاف طے پایا۔
ولیمز نے جارجیا کے خلاف ٹورنامنٹ کا اپنا پہلا گول سکور کیا اور وہ بھی اس وقت جب سپین ایک گول سے پیچھے تھا۔ یہ ان کی ایک شاندار انفرادی کوشش تھی جبکہ یامل ایک بار پھر دوسرے ونگ پر اپنے بہترین کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔سنہ 1980 کے بعد ولیمز یورو کپ میں ایسے کھلاڑی بن گئے ہیں جنھوں نے نہ صرف ایک گول سکور کیا بلکہ ایک اور گول سکور کرنے میں مدد کیا اور پورے کھیل کے دوران انھوں نے اپنے 100 فیصد پاسز مکمل کرنے کا ریکارڈ بنایا جبکہ یمل نے جارجیا کے خلاف گول کرنے کے چھ مواقع پیدا کیے جو کہ 21 سال سے کم عمر کے کسی کھلاڑی کی جانب سے ناک آوٹ مقابلوں میں بنائے گئے سب سے زیادہ چانسز تھے۔یہ دونوں کھلاڑی گہرے دوست بن چکے ہیں۔ ولیمز نوجوان یمل کی اسی طرح دیکھ بھال کر رہے ہیں جیسا کہ ان کے بڑے بھائی اِناکی کبھی ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے جو خود بھی فٹ بال کھیلتے ہیں۔سپین کے ایتھلیٹک کلب کے لیے کھیلنے والے ولیمز برادران جہاں ٹیم میں ساتھی ہیں وہیں وہ سپین میں امتیازی سلوک کے خلاف جنگ کا بھی چہرہ بن گئے ہیں کیونکہ ہسپانوی معاشرے کے بعض حصوں میں نسل پرستی اب بھی موجود ہے۔ابھی پچھلے ہی ہفتے نیکو نے مارسا اخبار کی ایک سرخی پر سامنے آنے والے نسل پرستانہ سوشل میڈیا ردعمل کے خلاف بات کی اور ہسپانوی فٹبال فیڈریشن نے ان کی حمایت کی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ہم جو کچھ کرتے ہیں اپنے والدین کے لیے کرتے ہیں‘
ولیمز برادران اس بات سے واقف ہیں کہ فٹبال کتنا بڑا پلیٹ فارم ہے۔ وہ نسل پرستی کی مذمت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ان کے الفاظ کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔نیکو اور اناکی کی سپین میں کس طرح پیدائش اور پرورش ہوئی؟ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو سنانے کے لائق ہے کیونکہ یہ انسانی سمگلنگ، امید، ترک وطن اور محبت کی کہانی ہے۔بچپن میں اناکی ولیمز کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر ان کے والد کو ان کے پیروں کے بارے میں پریشانی کیوں تھی۔جب وہ 18 سال کے ہوئے اور ایتھلیٹک کلب کی جانب سے کھیلنے لگے تو ان کی ماں ماریا نے انھیں بتایا کہ کس طرح وہ اور ان کے والد صحرائے صحارا کی جلتی ریت سے پیدل گزرے تھے۔ماریہ اس وقت حاملہ تھیں اور انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنا آبائی ملک گھانا چھوڑ دیا تھا۔انھوں نے افریقی ملک سے یورپ کا زیادہ تر سفر پیدل تمام کیا۔ وہ اصل میں برطانیہ کے لیے نکلے تھے لیکن پھر آدھے راستے میں ہی پھنس کر رہ گئے تھے کیونکہ ایک گینگ نے ان کی ساری جمع پونجی ان سے ہتھیا لی تھی۔انھیں شمالی افریقہ میں واقع ہسپانوی انکلیو میں گرفتار کر لیا گیا جہاں سپین میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے انھیں ایک وکیل نے مشورہ دیا کہ وہ گھانا کے بجائے اپنا وطن جنگ زدہ لائبیریا بتائیں۔اس وکیل نے انھیں ایک کیتھولک پادری اناکی مارڈونیس سے ملوایا جنھوں نے اس جوڑے کو بلباؤ میں سرکاری رہائش گاہ دلانے میں مدد کی اور انھیں ہسپتال پہنچایا جہاں اناکی کی پیدائش ہوئی۔پادری کی خدمات کے اعتراف میں اس جوڑے نے اپنے نوزائیدہ بچے کا نام ان کے ہی نام پر رکھا اور پادری اس بچے کے گاڈ فادر بھی بنے اور انھوں اس بچے کو جو پہلا تحفہ دیا وہ اس کی پہلی سرخ اور سفید دھاری والی ایتھلیٹک فٹبال کلب کی جرسی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ہمارے روشن مستقبل کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی‘
نیکو نے بعد میں کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ ہم سب یہاں اکٹھے ہیں اور واقعی اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے والدین اپنے بیٹوں کو پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں، جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، اپنے والدین کے لیے کرتے ہیں۔‘’انھوں نے اپنی جان خطرے میں ڈالی تاکہ ہم سب کا، میرے بھائی اور ہمارا مستقبل بہتر ہو۔ اور انھوں نے یہ کامیابی حاصل کی۔‘’میں ہمیشہ اس بات کا شکرگزار رہوں گا جو میرے والد اور میری والدہ نے ہمارے لیے کیا۔ وہ جنگجو ہیں، انھوں نے ہمیں عزت کرنے، ہر روز محنت کرنے کی تعلیم دی اور یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو ہر کوئی آپ کو نہیں دیتا۔‘’سچ یہ ہے کہ مجھے انھیں اپنے والدین کے طور پر پانے پر بہت فخر ہے، اور میں ہر ممکن کوشش کرتا ہوں تاکہ انھیں میرے جیسا بیٹا ہونے پر فخر ہو۔‘ولیمز خاندان کے لیے زندگی آسان نہیں تھی۔ وہ سپین میں 150 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب پامپلونا چلے گئے اور نکولس ولیمز آرتھر 12 جولائی سنہ 2002 کو اسی جگہ پر پیدا ہوئے۔جب نیکو کے والد کو ایسا کام نہیں ملا جس پر ان کا گزر بسر ہو سکے تو زیادہ آمدنی کے لیے لندن چلے گئے جہاں سے وہ اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجتے تھے۔انھوں نے چیلسی کے ایک شاپنگ سینٹر کے فوڈ ہال میں میزیں صاف کرنے کا کام کیا اور سکیورٹی گارڈ کے طور پر بھی کام کیا۔وہ 10 سال تک اپنے بچوں سے دور رہے لیکن اب وہ واپس آگئے ہیں۔ لیکن اس دوران نیکو کے لیے اناکی باپ کی طرح بن گیا کیونکہ ان کی والدہ اپنے خاندان کو سہولیات فراہم کرنے کی کوششوں میں بعض اوقات بیک وقت تین تین ملازمتیں کر رہی تھیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
برادرانہ شفقت کے ساتھ تربیت
اب جب وہ اپنی ماں کے ہاں دوپہر کے کھانے کے لیے جاتے ہیں تو ان کی ماں انھیں میز صاف کرنے، برتن دھونے کی یاد دلاتی ہیں اور اگر وہ حد سے تجاوز کرتے ہیں تو انھیں باہر کا راستہ دکھاتی ہیں یعنی ان کے والدین کی طرف سے انھیں مسلسل تعلیم دی جا رہی ہے۔اناکی نے اپنے والدین کے خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گھانا کی جانب سے کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے وہ نیکو کو سپین کے لیے کھیلتا ہوا دیکھیں گے۔نیکو نے کہا کہ ’میرے لیے وہ ایک مثال ہیں، وہ میرے لیے سب کچھ ہیں۔ انھوں نے والدین کی اور ہماری مدد کی ہے تاکہ ہم کھا سکیں، تاکہ میں سکول جا سکوں، تاکہ میں کپڑے پہن سکوں۔‘’وہ میری غلطیوں کو سدھارتے ہیں، مجھے نصیحت کرتے ہیں، انھوں ہمیشہ یہ سب کیا ہے لیکن ہم میں بہت ہم آہنگی ہے۔ وہ میرا بھائی ہے، لیکن وہ کبھی کبھی باپ کی طرح پیش آتا ہے۔‘28 اپریل سنہ 2021 کو یہ دونوں بھائی متبادل کے طور پر ایتھلیٹک کے لیے میدان میں اترے اور انھوں نے ریئل ویلاڈولڈ کے خلاف 2-2 سے میچ ڈرا کرنے میں کردار ادا کیا۔ اس طرح وہ 1986 کے بعد کلب کے لیے ایک ساتھ کھیلنے والے پہلے دو بھائی بنے۔اس کے بعد وہ فوری طور پر اپنی ماں سے ملنے گئے کیونکہ شائقین کو کووڈ وبا کی وجہ سے سٹیڈیم سے دور رکھا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’نیکو جو کرتے ہیں لمائن ہر اس چیز کی نقل کرتے ہیں‘
بہر حال نیکو کو قومی ٹیم میں ایک نیا ساتھی مل گیا ہے اور یمل کے روپ میں انھیں ایک 16 سالہ دوست ملا ہے جس کے ساتھ انھیں گہرا تعلق ہو گیا ہے۔اس جوڑی کی ساتھ ساتھ رقص کرنے کی آن لائن تصاویر وائرل بھی ہوئی جس میں غالبا وہ گول کا جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔اٹلی کے خلاف سپین کی جیت کے بعد نیکو نے مذاق میں کہا کہ ’میں نے اسے (یمل) پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اسے ‘اپنے باپ’ یعنی مجھ سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے!’ان کی دوستی اس وقت شروع ہوئی جب مارچ میں میڈرڈ کے لاس روزاس میں سپینش فیڈریشن میں ان کی ملاقات ہوئی۔ کولمبیا اور برازیل کے خلاف سپین کے دوستانہ ميچ سے قبل نیکو سے کہا گیا تھا کہ وہ نوجوان یمل پر گہری نظر رکھے۔فیڈریشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’وہ اس کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔ لمائن، نیکو کی ہر چیز کو کاپی کرتا ہے۔‘’نیکو بیدار ہوتا ہے، تیار ہوتا ہے اور لمائن کی تلاش میں جاتا ہے۔ وہ بارکا کے کھلاڑی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے: ‘چلو، ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘گذشتہ ستمبر میں جارجیا کے خلاف یورپی چیمپیئن شپ کے کوالیفائر میچ میں نیکو اور یمل کو لایا گیا تھا۔ اس کے بعد سپین کے منیجر لوئس ڈی لا فوینٹے نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’دنیا کے بڑے بڑے کلب انھیں بلا رہے ہیں‘
تیز رفتار اور بظاہر ناقابل تسخیر نیکو دائیں پاؤں سے کھیلنے والے ونگر ہیں جو دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے کھیل سکتے ہیں۔وہ سینٹرل پوزیشن سے بھی کھیل سکتے ہیں۔ایتھلیٹک کے سابق ہیڈ کوچ گیزکا گیریٹانو کا کہنا ہے کہ ’اسے کھیلتے ہوئے دیکھنا ناقابل یقین تھا۔ وہ بہت تیز رفتار، ناقابل یقین رفتار کے ساتھ کھیلتا ہے۔ اپنے بڑے بھائی سے بھی زیادہ ہنر مند ہے۔‘کروشیا کے خلاف سپین کے یورو 2024 کے افتتاحی میچ میں مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے ولیمز کو ڈراپ ہونے کا خدشہ ہونے لگا تھا۔ اور اسی وجہ سے انھوں نے اٹلی کے خلاف بہتر کھیل پیش کرنے کا عزم کیا اور یہ کر دکھایا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔انھوں نے میچ سے قبل ہی عملے سے کہ دیا تھا کہ ’میں اچھا نہیں کھیلا، لیکن میں اگلے میچ میں اپنا سب کچھ دینے جا رہا ہوں۔‘انھوں نے سپین کے لیے اب تک 17 میچز کھیلے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے کلبوں کی طرف سے انھیں بلاوے کا وقت قریب ہے۔دسمبر میں نیکو نے ایتھلیٹک کلب کے ساتھ معاہدے کی توسیع پر دستخط کیا ہے جس کے بعد اب وہ 30 جون سنہ 2027 تک وہاں رہ سکتے ہیں۔ان کی ریلیز کی شرط تقریباً 49 ملین پاؤنڈ ہے جس کی وجہ سے چیلسی نیکو میں اپنی دلچسپی کے باوجود انھیں لینے سے قاصر رہا جبکہ بارسلونا نے بھی ان پر بولی نہ لگانے کو بہتر سمجھا۔نیکو نے حال ہی میں خود ہی کہا ہے کہ وہ ’ایتھلیٹک میں خوش‘ ہیں۔ بہر حال اس وقت وہ سپین کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے یہ وہ ملک ہے جس کی جرسی وہ فخر کے ساتھ پہن رہے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.