یورپی پارلیمنٹ میں سب کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چئیرپرسن ماریا ارینا ایم ای پی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر کے تنازعات والے علاقوں میں انسانی حقوق کے خلاف کام کرنے والوں کے استثنیٰ کے خلاف لڑائی لڑنے اور انہیں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج یورپی پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کے مستقبل میں ‘استثنیٰ کے خلاف لڑائی’ کے موضوع پر منعقدہ پریس کانفرنس کے بعد جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس پریس کانفرنس میں انہوں نے انسانی حقوق کی سب کمیٹی کےسابق سربراہ و سابق ممبر یورپی پارلیمنٹ اور فائٹ امپیونٹی آرگنائزیشن کے صدر پیرانٹونیو پنزاری اور پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس کے ڈائریکٹر ایتین باسوت کے ہمراہ ‘دنیا میں استثنیٰ کی صورتحال 2021’ نامی رپورٹ بھی پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کے خلاف جرائم کرنے والوں کا ریاستی استثنیٰ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ہر ریاست ان جرائم کے خلاف دہرا معیار اپنائے ہوئے ہے۔ تجارت ان جرائم کو دبانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو رہی ہے اور یہی مسئلہ صحافیوں کو درپیش ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے خلاف آواز بلند کرنا صرف یورپی یونین کا کام نہیں۔ یہ سب کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں اچھی اقدار کا فروغ سب کا مسئلہ ہونا چاہیے۔
انہو ں نے کہا کہ یورپی یونین اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ اگر وہ نہیں کرے گی تو اور لوگ کریں گے لیکن وہ اپنے طریقے سے کریں گے۔
بعد ازاں جنگ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہ اس رپورٹ میں بہت سے ممالک کا ذکر ہے لیکن بھارت کا نہیں؟ اور کیا آپ اقوام متحدہ جیسے بڑے اداروں کے کردار سے مطمئن ہیں؟
اس پر یورپی پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کی سب کمیٹی کی چئیرپرسن نے کہا کہ ہمیں دنیا بھر میں کشمیر جیسے تنازعات جہاں بھی جاری ہیں وہاں جرائم کے خلاف استثنیٰ دینے والوں سے لڑنے اور مجرموں کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ہمیں ایسی تنظیموں کی بھی ضرورت ہے جو اس طرح کی لڑائی میں ہمارا ساتھ دے سکیں۔
Comments are closed.