انسانی تہذیب کو جنم دینے والا عظیم دریا: ’یہاں کا پانی اگلے جہان جیسا ہے‘

دجلہ

،تصویر کا ذریعہWestend 61/Getty Images

  • مصنف, لیون مکیرون
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

یہ وہ عظیم دریا ہے جہاں انسان نے پہلی بار زراعت، تحریر اور پہیہ ایجاد کیا۔ لیکن قدیم دنیا کی زندگی کا ذریعہ سمجھا جانے والا یہ دریا اب خود خطرے کا شکار ہو چکا ہے۔

دجلہ دریا کے آغاز تک پہنچنا آسان کام نہیں ہے۔ جہاں کچی سڑک ختم ہو جاتی ہے، ایک چھوٹا سا راستہ پہاڑی کے ساتھ ساتھ اوپر جاتا ہے جس کی چوٹیاں انسان کی انگلیوں کے ناخن جیسی ہیں۔

تھوڑی دیر بعد یہ راستہ اور تنگ ہو جاتا ہے جو بکریوں کی گزرگاہ ہے اور ایک مقام پر چشموں کے قریب ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ایک چھوٹی سی ندی جنم لے کر ایک وسیع سرنگ میں غائب ہو جاتی ہے۔ ڈیڑھ کلومیٹر دور جب یہ ندی اپنا سر دوبارہ سرنگ سے باہر نکالتی ہے تو یہ دریا کا روپ دھار چکی ہوتی ہے۔

قدیم آشوری تہذیب میں مانا جاتا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جسمانی اور روحانی دنیائیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ تین ہزار سال قبل لشکر یہاں قربانی دیا کرتے تھے۔

ٹگلاتھ پلیسر، جو 1114 سے 1076 قبل از مسیح تک بادشاہ رہے، کی نشانی اب بھی یہاں موجود ہے۔ اگرچہ وقت نے اس مجسمے کی اصلی حالت پر گہرا نشان چھوڑا ہے لیکن یہ اب بھی شاہی انداز میں ان کی سلطنت کی جانب اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔

دجلہ دریا کے آغاز کا مقام ترکی میں واقع ہے جہاں سے یہ جنوب مشرق کی جانب بہتا ہے اور شمال مشرقی شام سے ہوتا ہوا موصل، تکرت اور سمارا کے بعد بغداد پہنچتا ہے۔ جنوبی عراق میں فرات سے مل کر یہ دونوں خلیج فارس میں گر جاتے ہیں۔

دجلہ

،تصویر کا ذریعہRuby/Alamy

تقریبا آٹھ ہزار سال قبل ہمارے آباؤاجداد جو شکار پر گزارا کرتے تھے ان دونوں دریاؤں کے درمیان آباد ہوئے اور انھوں نے زراعت کی بنیاد ڈالی جس کی وجہ سے اس علاقے کو تہذیب کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہیں پہلی بار انسانی آبادی نے شہروں کا روپ دھارا اور پھر پہیہ اور تحریر ایجاد ہوئے۔ قانونی نظام، بادبان، شراب کشی اور محبت سے بھرپور گیتوں سمیت بہت کچھ پہلی بار ہوا۔

لیکن جدید عراق کو اپنی لپیٹ میں لینے والے تنازعے کے بیچ اس حقیقت کو بھلایا جا چکا ہے کہ دجلہ نے انسانی وراثت کو کس طرح محفوظ رکھا۔

سنہ 2021 میں ایک چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ میں نے 10 ہفتوں تک دجلہ کے آغاز سے خلیج فارس تک 2000 کلومیٹر کا زمینی اور کشتی کے ذریعے سفر کیا۔ ایک مشیر نے مجھے بتایا کہ سلطنت عثمانیہ کے دور کے بعد یہ سفر کسی نے کرنے کی کوشش نہیں کی۔

میرا مقصد اس دریا کی تاریخی اہمیت کا کھوج لگا کر اس کے کنارے آباد لوگوں کی زبانی اس کی کہانی سنانا تھا۔ اس دوران اس دریا کے مستقبل کو لاحق خطرات کی تفتیش کرنا بھی میرا مقصد تھا۔

جغرافیائی اور سیاسی عدم استحکام، پانی کے مسائل اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ عظیم دریا اب مر رہا ہے۔ مجھے امید تھی کہ میرا سفر اس بات کی یاد دہانی کرا سکے گا کہ ہم نے اس خطے سے کیا پایا اور اگر یہ دریا خشک ہو گیا تو ہم کیا کھو دیں گے۔

ترکی میں دجلہ کے آغاز سے 80 کلومیٹر دور ایک قدیم قلعے کی فصیلوں کی باقیات ہیں جسے یونانی، آرمینی، باضنطینی، رومی اور عثمانی دور میں آباد رکھا گیا۔ کچھ ہی دور ایک اور قلعہ بھی موجود ہے جو کسی نہ کسی شکل میں زمانہ قدیم سے موجود ہے۔

یہ شہر اب ترکی کی کردش آبادی کے دارالحکومت کا غیر سرکاری درجہ رکھتا ہے۔ ہم نے اس شہر میں ایک درخت کے سائے کے نیچے پڑاؤ کیا۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہHuseyin Bostanci/Getty Images

قریب ہی ایک خاتون ایک بینچ پر بیٹھی تھیں۔ ان کا نام فلکناز اسلان ہے اور تین منٹ تک ان کی آواز نے ہمیں مسحور کیے رکھا۔ وہ کرد روایت ’دنگبیج‘ کی ماہر تھیں جس میں گیتوں کے ذریعے کہانی سنائی جاتی ہے۔ یہ کہانیاں ان کے آباؤاجداد سے نسل درنسل منتقل ہوتی رہی ہیں۔

اس وقت انھوں نے جو گیت گایا جو دجلہ کے کنارے ایک ایسی محبت کی کہانی کے بارے میں تھا جو ناکام ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ گیت کی اس روایت کے امین زیادہ تر مرد ہیں لیکن اسے ایجاد کرنے والی خواتین تھیں جن کا مقصد شناخت اور تہذیب کو محفوظ بنانا تھا۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ان کہانیوں میں دجلہ ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے جسے قدیم زمانے سے خطے کے کرد زندگی کا اہم جزو سمجھتے ہیں۔

اس شہر کے بعد دجلہ ایک پہاڑی سلسلے کے بیچوں بیچ گزرتا ہوا ترکی کے تر آبدین خطے میں پہنچتا ہے جو صدیوں سے قدیم شامی آرتھوڈوکس چرچ کا گڑھ رہا۔ یہ چرچ مسیحیت کے آغاز سے ہی اپنا وجود رکھتی ہے۔ ہم نے چوتھی صدی عیسوی میں بنی ایک خانقاہ دیکھی جو پہاڑ کی چوٹی سے یوں چپکی ہوئی تھی جیسے اسے صرف ایمان کا سہارا حاصل ہو۔

اس کے اندر شاید دنیا کے سب سے پہلے مسیحیوں نے پلستر کیا تھا جو اب بھی دیواروں سے چپکا ہوا ہے اور قدیم زبان میں دعائیہ الفاظ نظر آ رہے تھے۔ میں نے ایک موم بتی جلائی اور اپنا سر جھکا لیا۔ یہ بھی ایک نشانی تھی کہ دجلہ کے زرخیز پانیوں نے یہودی، مسیحی اور اسلام کو ماننے والوں کو کیسے پنپنے دیا اور کیسے ان آبادیوں نے بعد میں اپنے خیالات اور تصورات پوری دنیا کے کونے کونے تک پھیلا دیے۔

ہم نے زیادہ سفر ایک چھوٹی سی کشتی پر کیا اگرچہ کہ دجلہ پر سفر کرنا آسان نہیں۔ ترکی میں یہ اس لیے مشکل ہے کیوں کہ بہت سی جگہوں پر ڈیم کے منصوبے زیرتعمیر ہیں۔ شام میں دجلہ ایک بین الاقوامی سرحد کا روپ دھار لیتا ہے۔ اسی لیے موصل جا کر ہی ہم دجلہ میں آزادانپہ طریقے سے سفر کرنے میں کامیاب ہوئے۔

دجلہ

،تصویر کا ذریعہUniversal Images Group of North America LLC/DeAgostini/Alamy

جب موصل پر 2014 سے 2017 تک شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کا قبضہ ہوا تو اس نے مقامی لوگوں کو دجلہ استعمال کرنے سے روک دیا۔

لڑائی کے دوران موصل میں اس دریا پر موجود ہر پل تباہ ہو گیا تھا اور کئی شدت پسندوں نے آخری لڑائی کے دوران فرار ہونے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔ تاریخی اعتبار سے اگرچہ یہ دریا جوڑنے والی قوت رہا لیکن اب ہم اسے تنازعے سے جوڑتے ہیں۔

موصل کا عربی زبان میں نام ’المواصل‘ ہے جس کا مطلب ہے ’جوڑنے والا مقام‘۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تجارت کا مرکز تھا اور ساتویں صدی قابل از مسیح میں قائم ہونے والا یہ شہر دنیا کے سب سے قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔

12ویں صدی اس شہر کا عروج تھا جب صرف طاقت اور اثرورسوخ ہی نہیں بلکہ یہاں نسل اور مذہب کے اعتبار سے تنوع پایا جاتا تھا۔ تہذیبوں کے اس امتزاج نے اس شہر کو مالا مال کر دیا۔ اگرچہ موصل کا پرانا شہر اب بڑی حد تک تباہ ہو چکا ہے لیکن اس شہر کا مزاج اب بھی ویسا ہی ہے۔

سلمان خیراللہ نے دجلہ دریا کے لیے پروٹیکشن ایسوسی ایشن بنائی اور وہ ہمارے ہم سفر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں بچا لیکن دجلہ کے کناروں پر بہت کچھ ابھی باقی ہے۔ ہم عراقی کبھی تباہی قبول نہیں کرتے۔‘

موصل میں 12ویں صدی میں کی ’مسجد النوری‘ پر تعمیر نو کا کام جاری تھا جس کے لیے متحدہ عرب امارات اور یونسیکو نے بھاری فنڈز فراہم کیے ہیں۔ مسجد کے سامنے ’بیتنا‘ موجود ہے جس کا مطلب ہے کہ ’ہمارا گھر‘۔ یہاں نوجوان آرٹسٹ ایک پرانے عثمانیہ دور کے مکان کو میوزیم اور کیفے کی شکل دے رہے ہیں۔

اس منصوبے کی شریک بانی سارہ سلیم کا کہنا ہے کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ لوگ بھول جائیں کہ یہاں کیا ہوا تھا۔ لیکن ہم ملازمت کے مواقع اور ہنر دینے کے لیے ایک جگہ بھی چاہتے ہیں۔‘

عراق

،تصویر کا ذریعہimageBROKER.com/Alamy

دجلہ یہاں سے آشور کے مقام کی طرف لے جاتا ہے جو آشوری سلطنت کا پہلا دارالحکومت تھا۔ دور صحرا میں بعد میں آشوری سلطنت کا دارالحکومت بننے والا نمرود اور 2000 سال پرانا شہر ہترا ہے۔ ان سب کو دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے نقصان پہنچایا لیکن اب ماہر آثار قدیمہ کی ٹیمیں محدود وسائل کی مدد سے ان کو بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

یہ ایک ایسا خطہ ہے جو دور جدید میں جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی خبروں کی زینت بنا لیکن سفر کے دوران میرے لیے سب سے اہم احساس میزبانی کی روایت کا تھا۔ رمضان کے مہینے میں ہمارے میزبان خود روزہ رکھ کر ہمارے لیے چائے کا اہتمام کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کفریج کے گاوں میں میئر نے ہمیں بتایا کہ کیسے دو نوجوان چرواہوں نے دولت اسلامیہ کے دور میں ایک ٹریکٹر کی ٹیوب استعمال کرتے ہوئے دجلہ کو پار کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ تشدد کی حالیہ تاریخ بھی مقامی لوگوں کی اس روایت کو شکست نہیں دے پائی جس کے تحت وہ اجنبی افراد کی مدد کرتے ہیں اور سخاوت دکھاتے ہیں۔

دجلہ کے دریا میں ایسی کئی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں جو زندگی اور موت کی کشمکش کے ساتھ ساتھ نرمدلی کی مثالیں ہیں۔

ہم نے اتوار کا دن منڈیئنز کے ساتھ گزارا جو عراق میں شاید سب سے چھوٹا اور سب سے پرانا مذہبی گروہ ہے۔ وہ دجلہ کے پانی میں نہا کر گناہوں کو دھونے میں یقین رکھتے ہیں۔

میرے سامنے ایک راہب نے آٹھ خواتین کو دجلہ کے پانیوں میں غوطہ دیا اور پھر ایک قدیم زبان میں ان کے کانوں میں دعائیہ الفاظ کی سرگوشی کی۔ راہب کے معاون نے مجھے بتایا کہ ’یہاں کا پانی اگلے جہان جیسا ہے۔‘

دجلہ

،تصویر کا ذریعہdpa picture alliance/Alamy

جس دریا پر اس کمیونٹی کا انحصار ہے، وہ اب خطرے میں ہے۔ لیکن آشور کے ماہرین آثار قدیمہ سے لیکر موصل کے آرٹسٹ تک، سب ہی اس تہذیب کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ میں نے جانا کہ دجلہ کے محافظ ابھی ہمت ہارنے پر آمادہ نہیں اور تعمیر نو کے لیے کوشاں ہیں۔

میں نے خیر اللہ سے اس دریا کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے بس اتنا کہا کہ ’عراق کے لوگوں کو امید رکھنی ہے۔ ہم سے پہلے لوگوں نے جو بھی کیا، ہم اسے بدل سکتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ