- مصنف, ملیکا ریڈنکوک جیریمک
- عہدہ, بی بی سی نیوز سربیا
- ایک گھنٹہ قبل
اٹھارویں صدی کے ابتدائی اوائل میں سربیا میں درجنوں افراد پراسرار طور پر مرنے لگے۔ ان لوگوں کو مبینہ طور پر اپنے پہلے سے مردہ پڑوسیوں کی جانب سے ڈرایا گیا تھا اور مرنے سے پہلے انھیں دم گھٹنے یا سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔سربیا کے جنوب میں واقع گاؤں میڈویڈجا اور شمال مشرق میں کسلجیوو میں خاص طور پر ان اموات کے بارے میں افواہیں تھیں۔ یہ دونوں گاؤں ایک دوسرے سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر تھے لیکن ایک دہائی کے عرصے میں یہاں ایک ہی طرح کے عجیب و غریب واقعات کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔آسٹریا کے ڈاکٹروں کو ان اموات کی وجوہات جاننے کے لیے وہاں بھیجا گیا اور انھوں نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں جامع رپورٹس تیار کیے۔
ان تحقیقات نے جلد ہی آسٹریا کے پریس میں شہ سرخیاں بنائیں۔کتاب ’ویمپائر: یورپی افسانے کی ابتدا‘ (Vampires: The Origin of the European Myth) کے مصنف اور جرمن تاریخ دان تھامس ایم بوہن کہتے ہیں کہ لفظ ’ویمپائر‘ پہلی مرتبہ سنہ 1725 میں آسٹریا کے ایک اخبار ’ویناریشز ڈایارائم‘ میں سامنے آیا۔ویمپائیر ایک افسانوی مخلوق ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کا خون پی کر زندہ رہتے ہیں۔دنیا بھر کی ثقافتوں میں ویمپائر کے سامنے آنے کے کئی واقعات ریکارڈ کیے گئے لیکن ’ویمپائر‘ کی اصطلاح 18ویں صدی کے دوران مغربی یورپ میں ایسی رپورٹس کے بعد مقبول ہوئی۔
’شیطان کا کاروبار‘
،تصویر کا ذریعہUniversal Picturesسنہ 1725 میں دو دن کے دوران کسلجیوو میں نو افراد کی موت ہوئی۔ ان سب لوگوں نے مرنے سے پہلے مبینہ طور پر اپنے ایک پڑوسی کے بارے میں بات کی تھی۔ان افراد کے مطابق ایک شخص پیٹر بلاگوجیویک جو پہلے ہی مر چکا تھا، ان کے خواب میں آیا اور ان کا گلا دبانے لگا۔مقامی لوگوں نے ان اموات کے بعد پیٹر کی قبر کو کھولا تو انھیں اس کی اچھی طرح سے محفوظ شدہ لاش ملی جسے ’شیطان کے کاروبار کا ثبوت‘ سمجھا گیا۔قبر کشائی کے وقت موجود آسٹریا کے ایک اہلکار نے لکھا کہ ’چہرہ، ہاتھ اور پاؤں، درحقیقت پورا جسم ایسی تازہ حالت میں موجود تھے کہ اگر وہ زندہ بھی ہوتا تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔‘’اس کے منھ میں مجھے تازہ خون ملا۔ مقامی عقیدے کے مطابق اس نے ان لوگوں کا خون پیا تھا، جسے اس نے مارا ڈالا تھا۔‘ڈبلن میں ٹرنٹی کالج کے پروفیسر کلیمینز روتھنر کا ماننا ہے کہ لفظ ’ویمپائیر‘ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب آسٹریا کے ڈاکٹر مختلف قبروں کو کھول رہے تھے اور مقامی افراد کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا ہوا۔پروفیسر کلیمینز کہتے ہیں کہ ’مقامی مترجم نے اپنی زبان میں کچھ بڑبڑایا جس کا مطلب ’شیطان‘ تھا اور اس غلط فہمی میں لفظ ’ویمپائر‘ کی تخلیق ہوئی۔‘کلیمینز کے مطابق آسٹریا کے اہلکار خود کو ’روشن خیال‘ جبکہ مقامی افراد کو ’دقیانوسی‘ خیالات کا مالک سمجھتے تھے اور ان دونوں کے تصادم سے ایک نئی مخلوق وجود میں آئی۔گاؤں والوں نے پیٹر کو روکنے کے لیے مبینہ طور پر اس کے دل میں نوکیلی سلاخ ٹھونک دی اور پھر اس کے جسم کو بھی جلا ڈالا، جس کے بعد گاؤں میں ’ویمپائر‘ کی خبریں ختم ہو گئیں۔پروفیسر بوہن کہتے ہیں کہ ’اگرچہ ان واقعات کو کافی توجہ ملی لیکن لوگوں میں ’ویمپائرازم‘ کی اصطلاح بڑے پیمانے پر مقبول نہیں ہوئی۔اس دور میں آگاہی کا تقاضہ یہ تھا کہ کسی بھی ایسی چیز کو تسلیم نہ کیا جائے جسے ماننے سے انسانی عقل انکاری ہو۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ویمپائر یا قربانی کا بکرا؟
سات برس بعد جنوری 1732 میں میڈویڈجا گاؤں میں اس وقت خوف کی لہر دوڑ گئی، جب تین ماہ کے دوران 17 ایسے لوگوں کی موت ہوئی جو جوان اور صحت مند تھے۔کسلجیوو میں ہونے والے واقعات کی طرح یہاں بھی کچھ افراد نے اپنی موت سے پہلے دم گھٹنے اور سینے میں شدید درد کی شکایت کی تھی۔قبر کشائی کے بعد ڈاکٹر جوہانس فلکنگر نے ایک رپورٹ لکھی جس میں انھوں نے ایک ملیشیا فرد کا ذکر کیا۔ اس کی لاش بھی مبینہ طور پر ابھی گلی سڑی نہیں تھی جبکہ اس کی آنکھوں، ناک، منھ اور کانوں سے تازہ خون بہہ رہا تھا۔میڈویڈجا کے لوگوں نے اس کو ایک ثبوت کے طور پر دیکھا کہ وہ واقعی ویمپائر تھا اور اسی وجہ سے انھوں نے اس کے دل میں نوکیلی سلاخ ٹھونک کر اسے جلا ڈالا تھا۔تھامس بوہن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’اس آدمی کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں تاہم اس شخص کی موت گرنے سے ہوئی تھی اور گاؤں والوں نے اسے قربانی کا بکرا بنا دیا۔‘تھامس بوہن کا ماننا ہے کہ اس شخص کا نام ارنوٹ پالے تھا، جو مشرقی یورپ کے ملک کوسووہ سے آیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’کسلجیوو میں پیٹر بلاگوجیویک اور میڈویڈجا میں ارنوٹ پالے ویمپائر کی نسل کے پہلے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سائنسی وضاحت
گاؤں کے لوگ ان لاشوں سے ڈرنے لگے تھے جو گلتی نہیں تھیں تاہم پیتھالوجسٹ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قبر کشائی کے بعد جس حالت میں لاشیں ملتی تھیں، وہ کوئی غیر معمولی چیز نہیں۔پروفیسر روتھنر کہتے ہیں کہ ’پیتھالوجسٹ کرسٹن ریٹر کا ماننا ہے کہ ان تمام واقعات کے پیچھے ’اینتھراکس‘ کی وبا تھی اور اس دور میں جنگوں کے دوران اور بعد میں یہ معمول کی بات تھی۔‘اینتھراکس بیکٹیریا سے ہونے والی بیماری ہے جس سے جنگلی اور گھریلو جانور متاثر ہوتے ہیں۔ پھر متاثرہ جانوروں سے یہ انفیکشن انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتا ہے۔روتھنر کا یہ بھی ماننا ہے کہ مرنے سے پہلے دم گھٹنے کا تعلق نمونیا سے بھی ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ رپورٹس کو احتیاط سے پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ کسی نے بھی اپنی آنکھوں سے کبھی ویمپائر کو نہیں دیکھا تھا۔‘تھامس بوہن کا یہ بھی خیال ہے کہ خون چوسنا ایک افسانوی بات تھی، جسے مغربی عوام نے بنایا تھا۔میڈویڈجا کے ایک مقامی تاریخ دان ایون نیسک کے مطابق ویمپائر کے وجود کے بارے میں یقین اور خوف جاری رہا۔وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیٹر بلاگوجیویک اور ارنوٹ پالے کے مرنے کے کئی برس بعد تک بھی مقامی لوگ اپنے گھروں کو ویمپائر سے محفوظ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’سربیا کے ویمپائر کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ خون سے بھرے بلبلے سے مشابہت رکھتا تھا اور اگر اسے پنکچر کیا جائے تو وہ غبارے کی طرح پھٹ جائے گا۔ تو لوگ اس سے حفاظت کے لیے اپنے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں پر خاردار پودے لگا کر رکھتے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ترک خطرے‘ کا متبادل
میڈویڈجا اور کسلجیوو دونوں سرحدی علاقوں میں واقع تھے جو صدیوں کی عثمانی حکومت کے بعد 1700 کی دہائی میں ہیبسبرگ سلطنت کے زیرانتظام آ گئے۔پروفیسر روتھنر کا ماننا ہے کہ ویمپائر کی ان افواہوں نے اس لیے بھی توجہ حاصل کی کیونکہ یہ واقعات ان متنازعہ علاقوں میں رپورٹ ہوئے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ان واقعات کے پس منظر میں سلطنت عثمانیہ اور مغرب کے درمیان پایا جانے والا تنازعہ بھی موجود ہے۔‘پروفیسر بوہن اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ سنہ 1683 میں ویانا کے دوسرے ناکام محاصرے کے بعد ویمپائر عسائیت کے لیے ’ترک خطرے‘ کے متبادل کی نمائندگی کرتے تھے۔18ویں صدی کے وسط میں ہیبسبرگ سلطنت میں ’ویمپائر‘ سامنے آنے کے نئے واقعات بھی رپورٹ ہوئے لیکن اس وقت توہم پرستانہ عقائد کو روکنے کے لیے کسی بھی تصوراتی مخلوق کے خلاف جنگ کی اجازت نہ تھی۔لیکن پھر جلد ہی ویمپائر ایک مختلف شکل میں دوبارہ سامنے آئے۔پروفسیر روتھنر کہتے ہیں کہ ’رومانوی دور میں ویمپائر پھولے ہوئے سرخ چہروں والے نہیں بلکہ خوبصورت اور ہلکی رنگت والے اشرافیہ تھے۔‘دور جدید کا کرشماتی اور انتہائی نفیس ویمپائر سنہ 1819 میں انگریز مصنف جان پولیڈوری کی کتاب ’دی ویمپائر‘ کی اشاعت کے ساتھ پیدا ہوا۔سنہ 1897 میں برام سٹوکر کے ناول ’ڈریکولا‘ کو اب بھی ویمپائر کے بارے میں ایک بہترین ناول کے طور پر جانا جاتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.