’اندھی محبت مجھے شام لے گئی‘: دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ جانے والی خواتین جو اپنا ماضی بھلانا چاہتی ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ڈینیئل وٹنبرگ، ایلینورا کولن بیکووا
  • عہدہ, بی بی سی
  • ایک گھنٹہ قبل

روایتی کرغزستانی ٹوپی پہنے شکور شیرماتوف 20 خواتین کی ایک کلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھیں ’کرغزستان میں واپس خوش آمدید‘ کہتے ہیں۔شکور روایتی ٹوپی پہنے بیٹھے تو ضرور ہیں لیکن اس سکول کے بارے میں کچھ بھی روایتی نہیں۔ اس سکول کے گرد فوجی سکیورٹی کے دو حصار قائم ہیں اور یہاں کی طالبات وہ خواتین ہیں جو شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ عرصہ دراز تک رہنے کے بعد شام کے کیمپوں میں پہنچائی گئی تھیں اور اب انھیں برسوں کے بعد ان کے آبائی ملک واپس لایا گیا ہے۔یہ بحالی مرکز شمالی کرغزستان کے پہاڑوں میں بنا ہوا ہے۔ یہیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے مشتبہ جنگجوؤں کی بیویاں اور بچے وطن واپسی پر پہلے چھ ہفتے گزارتے ہیں۔بی بی سی کی ٹیم یہاں آنے والے ذرائع ابلاغ کی ابتدائی ٹیموں میں سے ہے۔ بی بی سی کی ٹیم یہاں جو کچھ کہہ اور کر رہی تھی اُس پر ریاستی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکار کڑی نظر رکھ رہے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ یہاں کے رہائشیوں پر رکھتے ہیں۔

اس سکول میں موجود خواتین شکور کو بغور سن رہی تھیں جب وہ انھیں اُن کا پہلا سبق پڑھا رہے تھے۔ اس کورس میں شہریت، مذہبی اخلاقیات اور غصے پر قابو پانے جیسے موضوعات شامل ہیں۔ کلاس کی دیواروں پر لگے پوسٹرز اپنے جذبات پر قابو پانے کے طریقے بتاتے ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ، یہاں ان خاندانوں کو طبی علاج، نفسیاتی مدد، اورکئی سالوں میں پہلی بار مناسب خوراک، پانی، اور رہائش دی جا ریی ہے۔ کچھ ممالک ان جیسی خواتین کو وطن واپس بلانے سے انکاری ہیں۔ ان میں سے اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہروں، والدین اور بھائیوں کی پیروی کرتے ہوئے نادانستہ طور پر میدانِ جنگ میں چلی گئیں تھیں۔ وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا، انھوں نے وہاں کیا کیا یہ سب نام نہاد خلافت کے ملبے میں دب کے رہ گیا ہے۔ اس بارے میں کہ آیا وہ خود شکار ہیں یا مجرم ہیں، اس کا فیصلہ اب ہزاروں میل دور بیٹھے حکام کو کرنا ہے۔کم از کم فی الحال، کرغستان کی حکومت نے ان خواتین کے ساتھ متاثرین جیسا سلوک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ یہاں موجود ہر 10 میں سے نو خواتین کے خلاف پولیس کی تفتیش جاری ہے۔سبق کے بعد، ہم چار سنگل بستروں والے ایک سادہ سے ہاسٹل کے کمرے میں گئے جہاں ہماری ملاقات ایک خاتون سے ہوئی۔ جامنی رنگ کے حجاب میں لپٹی یہ فاطمہ ہیں۔ یہ ان کا اصلی نام نہیں، حفاظتی نقطہ نظر سے ان کی شناخت چھپائی جا رہی ہے۔

،تصویر کا کیپشنشکور شیرماتوف نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے مشتبہ جنگجووں کے ساتھ رہنے کے لیے شام جانے والی خواتین کو تعلیم دیتے ہیں
چھوٹی سی کھڑکی سے باہر دکھتا برف پوش جھیل کا منظر اس شامی کیمپ سے یکسر مختلف ہے جسے وہ پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔’یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ جگہ بہت پرسکون ہے۔ ہر کوئی اس کے لیے بہت مشکور ہے۔ بچے اسے پسند کرتے ہیں۔‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ آس پاس کی خاموشی کو ’سکون‘ سے تشبیح دیتی ہیں۔یہ سنہ 2013 کی بات ہے جب فاطمہ اپنے شوہر کی پیروی کرتے ہوئے ترکی چلی گئیں۔ فاطمہ کو ان کے شوہر نے بتایا تھا وہ وہاں کام کرنا چاہتے ہیں۔پھر پورا خاندان وہاں چلا گیا، بشمول فاطمہ کے دو بالغ بیٹوں، اُن کی بیٹی اور ایک پوتے کے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے جیٹ طیاروں کی گرجدار آوازیں سنیں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو دیکھا تو تب انھیں احساس ہوا کہ وہ شام میں ہیں۔ہم نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ واقعی میں نہیں جانتی تھیں کہ وہ کہاں جا رہی ہیں؟ باقی بہت سی خواتین کی طرح فاطمہ بھی بضد تھیں کہ وہ واقعی لاعلم تھیں۔ کرغزستان کے معاشرے میں عورت کا بنا کوئی سوال کیے اپنے شوہر کی پیروی کرنا معمول کی بات ہے۔شام پہنچنے کے چند ہی دنوں میں فاطمہ نے اپنے شوہر اور ایک بیٹے کو کھو دیا۔ ان کا شوہر اس وقت جل کر ہلاک ہو گئے جب اس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں وہ سوار تھے۔ جب کہ ان کا ایک بیٹا ایک سنائپر کی گولی کا نشانہ بنا۔ ان کے مطابق کچھ عرصے بعد ان کا دوسرا بیٹا بھی بیماری سے ہلاک ہو گیا۔گھر کے تینوں مردوں کی وفات کے بعد وہ وہاں پھنس کے رہ گئیں اور اگلے چھ سال انھوں نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ظالمانہ حکمرانی کے تحت گزارے، جہاں فاطمہ کی بیٹی کے مزید بچے ہوئے۔بالآخرجب نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کو نکال باہر کیا گیا تو فاطمہ، اُن کی بیٹی اور چار پوتے پوتیاں شام میں قائم حراستی کیمپ الہول پہنچا دیے گئے۔ یہ کیمپ مشتبہ جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کے لیے سب سے بڑا حراستی کیمپ ہے۔ انھوں نے چار سال گھر واپس جانے کے انتظار میں گزار دیے۔
،تصویر کا کیپشنفاطمہ 2023 میں شام سے واپس لائی جانے والی 110 خواتین میں سے ایک ہیں
وہ بتاتی ہیں کہ ’وہاں خواتین بیمار تھیں اور بچے ہر وقت روتے رہتے تھے۔ ہم ان سے گزارش کرتے تھے کہ ہمیں جانے دیں۔‘فاطمہ کہتی ہیں کہ وہ بمشکل وہاں سے زندہ نکل پائے۔ ’جب کرغزستان سے لوگ پہلے گروپ کو واپس لے جانے کے لیے آئے تو سب حیران رہ گئے۔‘اکتوبر میں، ان کی بیٹی اور پوتے پوتیوں کو بتایا گیا کہ انھیں وطن واپس لے جایا جا رہا ہے، لیکن فاطمہ کا نام واپس جانے والوں کی فہرست میں نہیں تھا۔فاطمہ کہتی ہیں کہ وہ رو پڑیں جب انھیں بتایا گیا کہ وہ واپس جانے والوں کی فہرست میں نہیں۔ ’میں فہرست میں کیسے نہیں تھی؟ میں تو ان کی ماں ہوں!‘’لیکن اب جب میں یہاں ہوں اور جلد ہی اپنے خاندان سے مل سکوں گی تو میں بہت خوش ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے پوتے پوتیاں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ سائنس کا مطالعہ کریں، دنیا کو بہتر طور پر سمجھیں۔‘57 سالہ فاطمہ بحالی مرکز میں سب سے معمر خاتون ہیں۔ یہ ان 110 ماؤں اور 229 بچوں میں سے ایک ہیں جن کو کرغزستان حکومت کی جانب سے سنہ 2023 میں وطن واپسی کے نئے آپریشن کے تحت شام سے واپس لایا گیا ہے۔ صرف عراق نے پچھلے سال کرغزستان سے زیادہ اپنے شہریوں کو شام سے واپس بلایا ہے۔شام میں پھنسے لوگوں کے رشتہ داروں کی برسوں کی مہم کے بعد کرغزستان کم از کم مزید 260 خواتین اور بچوں کو واپس لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا مقصد ان لوگوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ کرغستان کی حکومت متاثرین کو دوسرا موقع دینے کے حق میں ہے۔اس کے باوجود، واپس آنے والوں سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور دوبارہ انضمام کا کورس ختم کرنے کے بعد بھی ان کی باقاعدہ نگرانی جاری رہتی ہے۔کرغستان کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ نے ہمیں بتایا کہ ہر 10 میں سے نو خواتین کو تحقیقات کا سامنا ہے۔ ممکنہ الزامات میں دہشت گردی میں مدد فراہم کرنا یا بچوں کو جنگی علاقے میں لے جانا شامل ہو سکتا ہے۔ تاہم حکام نے ابھی تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔مسلسل نگرانی اور مجرمانہ کارروائی کے امکانات کے پیشِ نظر اکثر خواتین شام میں گزرے اپنے وقت کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ایلمیرا بحالی کے مرکز سے کورس مکمل کرنے کے بعد اب دارالحکومت بشکیک سے باہر ایک قصبے میں اپنی زندگی کو دوبارہ آغاز کر رہی ہیں۔ ان سے بات کرنے کے بعد ہمیں اس بات کی جھلک ملتی ہے کہ اس نگرانی کا کیا مطلب ہے۔ان سے ملنے کا بندوبست ہونے کے فوراً بعد ہمیں ان کی سماجی کارکن کا فون آیا۔ ہمیں مطلع کیا گیا کہ وہ بھی انٹرویو کے دوران موجود رہیں گی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو انسداد دہشت گردی کے دو پولیس افسران بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ایلمیرا کے خاندان والے ان افسران کو بخوبی پہچانتے تھے۔ کچھ بحث کے بعد وہ باہر انتظار کرنے پر راضی ہو گئے۔ایلمیرا کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص سے آن لائن ملی تھیں جو انھیں دھوکے سے شام لے گیا۔ ان کے مطابق، اس شخص نے انھیں ترکی میں ملنے کے لیے بلایا۔ ایلمیرا کہتی ہیں کہ وہ سوچ کر راضی ہو گئیں کہ وہ ایک ساتھ خوش رہیں گے۔ اپنی 18ویں سالگرہ کے چار دن بعد وہ اس سے ملنے کے لیے روانہ ہو گئیں۔لیکن جب وہ ترکی پہنچیں تو ان کا استقبال ایک دوسرے شخص نے کیا جس کا کہنا تھا کہ وہ اس شخص کا دوست ہے اور17 گھنٹے کی طویل ڈرائیو کر کے اسے شام کی سرحد کے پارپر لے گیا۔ ایلمیرا کہتی ہیں کہ جب تک انھیں احساس ہوا کہ کیا ہو رہا ہے، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ایلمیرا کی دو بار شادی ہوئی۔ ان کا پہلا شوہرشادی کے چند ماہ بعد ہی فوت ہو گیا۔ اس کے بعد انھوں نے داغستان کے ایک شخص سے شادی کر لی۔ اس شادی سے ان کے ہاں ایک بیٹی بھی ہے۔ وہ اس بارے میں مزید کچھ نہیں بتاتیں کہ ان کا شوہر شام میں کیا کرتا تھا۔ ان کا کہنا ہے اس کے راکٹ حملے میں مرنے سے پہلے وہ شام سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
،تصویر کا کیپشنکرغزستان کا برفانی منظر اُن شامی کیمپوں سے بہت مختلف ہے جہاں بہت سی خواتین رہ رہی تھیں
ایلمیرا کے مطابق ان کی زندگی کا سب سے مشکل لمحہ وہ تھا جب انھیں لگا کہ ان کی بیٹی قتل ہو گئی ہے۔ انھیں ایسا اس وقت محسوس ہوا جب راکٹ اُن کے گھر کے قریبی علاقے میں گرے اور وہ بدحواسی میں اپنی چھوٹی بچی کو گھر پر ہی چھوڑ کر باہر چلی گئیں۔بعدازاں اپنی بچی کے لیے پریشان ایلمیرا روتے ہوئے اپنے گھر کی طرف دوڑیں۔ مگر اُس وقت تک کوئی اس بچی کو ملبے سے زندہ نکال کر لے آیا تھا۔ بچی ٹھیک ٹھاک تھی بس ذرا سہمی ہوئی تھی۔ پڑوس کا گھر راکٹ حملے میں تباہ ہو گیا اور اس گھر میں موجود بچے اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔بعدازاں فاطمہ، ایلیمرا اور ان کی بچی الہول کیمپ میں پہنچا دیے گئے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہمیں ابھی بھی اس پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ کبھی کبھار میں رات کو جاگتی ہوں اور مجھے نہیں معلوم ہوتا کہ میں کہیں خواب دیکھ رہی ہوں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’میں ان تمام لوگوں کی مشکور ہوں جنھوں نے ہمیں اس جگہ سے نکالا اور ہمیں تنہا چھوڑ نہیں دیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہر ملک اس طرح نہیں کرتا۔‘ ایلمیرا، جو اب کپڑنے سینے کا ہنر سیکھ رہی ہیں، نے ہم سے درخواست کی کہ اُن کا اصلی نام ظاہر نہ کیا جائے۔ اپنے ملک میں اس طرح واپس لائے گئے لوگوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر مؤقف دیکھنے کے بعد انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب ہر کسی کو اپنے ماضی کے بارے میں نہیں بتائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنی روداد سنانے کا تجربہ خوشگوار نہیں رہا ہے۔ ان کے مطابق ’ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ یہ لوگ ہم سے خوفزدہ کیوں ہیں۔ ہم ان سے اب خوفزدہ ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں مشین گین اور خودکش جیکٹ کے ساتھ واپس آئے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہم بالکل ان لوگوں کی ہی طرح کے ہیں۔ ہمارے بھی خاندان ہیں۔ ہمارے بھی بچے ہیں۔ اور ہم بھی پرامن اور خوشحال زندگی جینا چاہتے ہیں۔‘ایلیمرا کا کہنا ہے کہ میں لوگوں کو وہ سب کیوں بتاؤں جسے میں خود بھولنا چاہتی ہوں۔ ان کے مطابق میں اس وقت میں 18 برس کی تھی اور اب 27 برس کی ہوں۔ اب میں نے یہ سیکھ لیا کہ زیادہ سادگی نہیں دکھانی۔ ایلمیرا کی ماں حمیدہ یوسوپوف گذشتہ ایک دہائی سے کرغز حکام سے اپنی بیٹی اور نواسی کی وطن واپسی کے لیے اپیلیں کر رہی تھیں۔ وہ اس مہم کا بھی حصہ بن گئیں جو شام جانے والی لڑکیوں کی واپسی کے لیے کوشاں تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ معلوم تھا کہ شام جانے کے مطلب واپسی کے رستے بند ہیں۔ آپ تصور کریں جب آپ کو لگے کے آپ کی اولاد اب کھبی گھر واپس نہیں آ سکے گی۔ ’میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ وہ اب گھر واپس پہنچ گئی ہیں اور بالآخر میں اپنی نواسی سے بھی مل سکی ہوں۔ مگر ایلمیرا نے اپنی جوانی کے نو برس گنوا دیے ہیں جو کہ بہت بڑا عرصہ بنتا ہے۔‘حب حمیدہ انھیں بحالی مرکز سے لینے کے لیے آئیں تو ان کی ایک دوسرے دوبارہ ملاقات میں وہ کچھ کہنے کے بجائے زیادہ وقت رو رہی تھیں۔ایلمیرا اب ماں بن چکی ہیں۔ انھیں اب اس بات کا خوب ادراک ہے کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے بچے کی 18 برس تک پرورش کریں اور پھر وہ آپ کو ایک دن یہ بتائے کہ وہ کام پر جا رہے ہیں۔۔ دروازہ بند کر دیں اور پھر شام میں کہیں جا کر کھو جائیں۔ حمیدہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی اور ماں کو اس کرب میں مبتلا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ ایلمیرا بس یہی کہہ سکیں کہ ماں مجھے معاف کر دیں، معاف کر دیں۔ بس اور کچھ بھی نہیں چاہیے۔ اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ ان کی عمر کتنی ہو گئی ہے۔ ایلمیرا اور حمیدہ کو یہ بات بخوبی پتا ہے کہ ان کے معاشرے میں ہر کوئی اس طرح معافی دینے والا نہیں ہے۔ کرغزستان جو ایک 90 فیصد مسلمان آبادی والا ملک ہے، جہاں اپنے عروج کے دنوں میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے بہت سے لوگوں کو اپنے چنگل میں پھنسایا۔ حمیدہ کا یہ خیال ہے کہ ان کی بیٹی کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ہم نے ایلمیرا کی عمر کی اور بھی کرغزی خواتین سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام سے واپس آنے والی خواتین سے متعلق ہمیں یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ دوسروں کو بھی شدت پسند بنا سکتی ہیں۔ وہ اس حوالے سے افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار چھینے کی مثال دیتی ہیں۔ حمیدہ کا کہنا ہے کہ ’بطور ماں مجھے بہت ساری بے عزتی اور نازیبا جملے سننے کو ملے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کے میرے بچے یہ سب سنیں۔ میں نہیں چاہتی کہ لوگ میرے بچوں پر انگلیاں اٹھائیں اور انھیں دہشتگرد کا خطاب دیں۔‘ کرغزستان کے نائب وزیراعظم عدیل بیسلاؤف اس حوالے سے سنجیدہ ہیں کہ لوگوں کو یہ دکھایا جا سکے کہ ہم اپنے لوگوں کو واپس اپنے ملک لانے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے اپنے دل میں کتنی جگہ رکھتے ہیں۔

،تصویر کا کیپشننام نہاد دولتِ اسلامیہ کے غیر ملکی جنگجوؤں کے بے گھر ہونے والے بہت سے خاندانوں کو شام کے الہول کیمپ میں رکھا گیا ہے
ان کے مطابق ہماری اس حکومتی پالیسی سے ان شہریوں کو اپنے اوپر گزری قیامت بھلانے کا موقع مل جاتا ہے اور ان کے خاندان اور رشتہ داروں میں پھر کوئی بھی اس صورتحال کو یاد نہیں رکھنا چاہتا۔ یوں ہر کوئی کرغزستان کا اچھا شہری بن جاتا ہے۔ نائب وزیراعظم یہ جانتے ہیں کہ یہ ایک متنازع معاملہ ہے خاص طور پر کچھ مغربی ممالک میں۔ برطانیہ میں ایک سابق سفیر نے اس وقت شمیمہ بیگم کی برطانوی شہریت معطل کر دی تھی جب وہ لندن کے ایک سکول کی تین لڑکیوں کے ساتھ آئی ایس میں شمولیت اختیار کرنے برطانیہ سے باہر چلی گئیں تھیں۔ نائب وزیراعظم ایک سیاسی پیغام بھی بھیجنا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے سنہ 2020 میں متنازع انتخابات اور نئے قوانین متعارف ہونے کے بعد وسطی ایشیا میں جمہوریت کے جزیرے کے طور پر کرغزستان کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں۔ان کے مطابق کرغزستان کے لیے یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ یقیناً، ہماری قسم کا اسلام بنیاد پرست نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی روادار اسلام ہے، دوسرے مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ ہم ایک چھوٹی قوم ہیں جنھیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں بھی معاف کرنے کی ضرورت ہے جن سے غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔‘ اس سکیم کو اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کی حمایت حاصل ہے اور سیلوی ہل کی بھی جو کرغزستان میں ان کی وطن واپسی کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہیں۔ وہ اس سکیم کو ’قابل ستائش‘ قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یونیسیف ’تمام حکومتوں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ تنازعات سے متاثرہ اپنے بچوں کی واپسی، بحالی اور دوبارہ انضمام میں سہولت فراہم کریں۔‘جن خواتین سے ہم نے بات کی وہ کہتی ہیں کہ وہ اس دوسرے موقع کی پیشکش پر شکر گزار ہیں، اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا بھر سے تقریباً 50,000 دیگر لوگ اب بھی شمالی شام کے کیمپوں میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کے سامنے اب واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}