انجینیئرنگ کا شاہکار 185 کلومیٹر طویل سڑک جو ’کردستان کی جنت‘ تک لے جاتی ہے

  • مصنف, سائمن اُروِن
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

ہیملٹن روڈ

،تصویر کا ذریعہSimon Urwin

،تصویر کا کیپشن

مزدور ہیملٹن کو وہ کھوپڑیاں اور لاشیں دکھاتے تھے جو انھیں چٹانوں کے درمیان ملتی تھیں

شمالی عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان کے دارالحکومت اربیل میں قائم ’مچکو‘ چائے خانے میں چائے منگواتے ہوئے میرے گائیڈ عمر حسین نے کہا کہ ’ہر سفر کا آغاز ایک کپ چائے سے ہونا چاہیے۔‘

اس کے بعد عمر نے چینی کی ایک ڈلی کو اپنے دانتوں کے بیچ رکھتے ہوئے چائے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ’اس پھیکے مشروب کو کرد طریقے سے پینا ہو گا۔ اضافی توانائی آگے پیش آنے والے لمبے سفر کے لیے مفید ثابت ہو گی۔‘

اس مشروب کو پی کر ہم عمر کی گاڑی میں سوار ہو کرہیملٹن روڈ پر روانہ ہو گئے۔ اربیل سے عراقی کردستان اور ایران سرحد پر واقع حاجی عمران قصبے تک 185 کلومیٹر طویل یہ نہ صرف مغربی ایشیا کی سب سے شاندار سڑک ہے بلکہ انجینیئرنگ کے جرات مندانہ کارناموں میں سے ایک ہے۔

مچکو ٹی ہاؤس

،تصویر کا ذریعہSimon Urwin

،تصویر کا کیپشن

مچکو ٹی ہاؤس کو ہیملٹن روڈ کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے

سنہ 1928 اور 1932 کے درمیان تعمیر ہونے والی اس سڑک کا نام نیوزی لینڈ کے انجینیئر ’اے ایم ہیملٹن‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عراق پر قابض انگریزوں کے لیے کام کرتے تھے۔

یہ سڑک خلیج فارس کو بحیرۂ کیسپین سے ملانے کے لیے برطانوی کنٹرول والے تجارتی راستے کی تشکیل کے ایک عظیم منصوبے کا حصہ تھی اور اسے شدید موسم، وسیع پیمانے پر وبائی امراض اور قبائلی تنازعات کا سامنا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر غیر نقشہ شدہ علاقوں میں تعمیر کیا گیا تھا۔

اربیل کے قدیم قلعے کی دیوار آہستہ آہستہ عقبی آئینے میں غائب ہوتے ہی عمر حسین نے کہا کہ ’بہت سے کرد اب بھی ہیملٹن اور ان کے کارکنوں کو اپنے لیے ہیرو سمجھتے ہیں۔ جو کام خچر پر بہت زیادہ وقت لیتا تھا، وہ اب آرام سے دو دن میں ہموار سڑک پر ہو سکتا ہے۔ ہیملٹن روڈ آپ کو کردستان کے سب سے خوبصورت حصوں میں لی جاتی ہے۔

ہم شہر کے مضافات، نئے میگا مالز اور مساجد کے قریب سے گزرتے ہوئے 27 کلومیٹر دور بنمن گاؤں کے قریب ایک اور کئی منزلہ عمارت ’خانزاد قلعہ‘ کے پاس پہنچے۔ یہ 16ویں صدی میں اس خطے کے کچھ حصوں پر حکومت کرنے والی ’کرد جنگجو ملکہ‘ خانزاد کی سابق رہائش گاہ تھی۔

ہیملٹن نے اپنی سوانح حیات ’روڈ تھرو کردستان‘ میں خانزاد قلعے کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق قلعے کے قریب ’ایک لامتناہی آڑی ترچھی اور تیز چٹانوں میں بنے نامکمل‘ کچے ٹریک کو اپ گریڈ کرنے کی ذمہ داری انھیں دی گئی تھی۔

مسجد جلیل خیاط

،تصویر کا ذریعہSimon Urwin

،تصویر کا کیپشن

ہیملٹن روڈ سلطنت عثمانیہ کی طرز پر بنی ہوئی اربیل کی سب سے بڑی جلیل خیاط مسجد کے پاس سے گزرتی ہے

عمر حسین نے کہا، ’یہ ہیملٹن کے لیے نسبتاً آسان کام تھا۔ اس سے کہیں زیادہ مشکل اور خطرناک علاقہ آگے تھا: ایسی جگہیں جہاں کوئی پٹری نہیں تھی، ایسی جگہیں جہاں بہت کم لوگوں نے کبھی قدم رکھا تھا۔‘

ہم شمال مشرق میں 40 کلومیٹر دور شقلاوا پہنچے، یہ وہ مقام ہے جہاں ہیملٹن نے سڑک تعمیر کرنے کے لیے سب سے پہلا کیمپ لگایا تھا۔ اس وقت شقلاوا صرف ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ آج یہ ہیملٹن روڈ پر سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور اس کی آبادی 25 ہے۔ یہ اپنے شہد کے لیے مشہور ہے۔

ہم نے سڑکوں کو سیاحوں اور مقامی لوگوں سے بھرا ہوا پایا، کرد خواتین چمکدار رنگ کے لمبے لباس پہنے ہوئے تھیں، مرد روایتی جمدانی یا پگڑی سر پر باندھے اور بیگی (ڈھیلی) پتلون پہنے ہوئے تھے۔ ہم شہد کی مکھیاں پالنے والے صباح ناصر کے ایک ہیلتھ فوڈ سٹور میں داخل ہوئے تاکہ کچھ جنگلی پھولوں کے شہد کا نمونہ لے سکیں۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ ان کا شہد اس لیے مختلف ہے کہ وہ ہیملٹن روڈ کے ساتھ اپنی شہد کی مکھیوں کے چھتوں کو موسم کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتے ہیں۔ اس سڑک نے انھیں زیادہ گاہکوں کے علاوہ دوسرے فائدے بھی پہنچائے ہیں۔ 

ناصر نے بتایا کہ ’کرد تارکین وطن آسٹریلیا اور امریکہ جیسے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں۔ وہ مجھ سے کئی کلو شہد خریدتے ہیں۔ مغربی شہری زگروس پہاڑ دیکھنے اور کوہ ہلگرڈ پر چڑھنے کے لیے یہاں سے گزرتے ہیں۔ ہیملٹن کی سڑک نے تجارت کو بڑھانے اور جدید سیاحت لانے میں مدد کی ہے۔ انھوں نے ہمیں دنیا سے متعارف کر وایا ہے۔‘

صباح ناصر

،تصویر کا ذریعہSimon Urwin

،تصویر کا کیپشن

صباح ناصر کہتے ہیں کہ وہ خاص پھولوں سے شہد حاصل کرتے ہیں

ہیملٹن نے شقلاوا سے 32 کلومیٹر شمال میں اپنی پہلی بڑی انجینیئرنگ رکاوٹ کا سامنا کیا۔ یہ صحرائی میدانوں سے سپلک گاؤں تک 198 میٹر اونچی پہاڑی چوٹی ہے، جسے انھوں نے ’ڈکیتی اور قتل کے لیے مشہور ایک ویران جگہ‘ قرار دیا۔ قدِ آدم سے زیادہ اونچے پتھروں میں راستے بنانے کے لیے انھوں نے ایک ٹیم تشکیل دی جس میں عربی اور فارسی کارکنوں شامل تھے۔

جبکہ منصوبے کا نگران ایک آشوری عیسائی، سروے کرنے والا ایک بنگالی ہندو اور دھماکہ خیز مواد کا ماہر ایک آرمینیائی یہودی تھا۔ بہت سارے مذہبی عقائد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہیملٹن نے تجویز پیش کی کہ کسی کو بھی آرام کا مقدس دن نہیں ملنا چاہیے، لہذا 40 سینٹی گریڈ درجہ حرارت، زہریلے سانپوں کی کثرت اور ملیریا کے خوف میں سارے لوگ ہفتے میں سات دن محنت کرتے تھے۔

عمر حسین نے بتایا کہ ’ان کے چاروں طرف قبائل کی جانی دشمنیاں بھی چل رہی تھیں۔ مزدور ہیملٹن کو وہ کھوپڑیاں اور لاشیں دکھاتے تھے جو انھیں چٹانوں کے درمیان ملتی تھیں۔ یہ ایک غیر معمولی کامیابی تھی کہ وہ اپنے مشن کو مکمل کر سکیں۔‘

ہم سپلک کے مقام پر پہاڑی سلسلے میں پہنچے، جہاں سڑک چار لین سے تنگ ہو کر دو لین کی ہو گئی تھی۔ ہیملٹن نے آگے کے راستے کو ’گھاٹیوں اور وادیوں کی 50 میل کی بھول بھلیوں‘ کی طرح بیان کیا۔ انھوں نے اس خاص چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے گلی علی باغ کی آبشاروں کے قریب کیمپ قائم کیا جہاں وہ دو سال تک رہے۔

آئی بیکس اور بکریوں کے راستوں پر چل کر انھوں نے ممکنہ حد تک مختصر سڑک کا نقشہ تیار کیا تھا۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے انگلستان سے خصوصی آلات منگوائے تھے، جن میں جیک ہیمر، ایئر کمپریسر، سٹیم رولر اور فولادی پل کے پرزے شامل تھے جو کشتیوں، ٹرینوں اور ٹرکوں سے ہزاروں میل دور واقع شقلاوا بھیجے گئے تھے، جس کے بعد انھیں اونٹوں پر لاد کر پہاڑی پر واقع پہلے بیس پر پہنچایا گیا تھا۔

کھائی

،تصویر کا ذریعہSimon Urwin

،تصویر کا کیپشن

ہیملٹن کو سڑک کی تعمیر کے لیے ایسی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑا تھا

ہیملٹن اور ان کے ایک ہزار کارکنوں نے اس سڑک کی تعمیر میں دن رات ایک کر دیے۔ وہ رات میں لالٹینوں کی روشنی میں کام کرتے تھے جب گھپ اندھیرا ہوتا تھا اور پہاڑوں سے برفانی چیتوں کے دھاڑنے کی آوازیں آتی تھیں۔ یہ کام کئی ماہ تک جاری رہا۔ اس عرصے میں وہ مختلف بیماریوں کا بھی شکار ہوئے اور ٹڈی دل کے لشکروں کا بھی مقابلے کرتے رہے۔ ٹڈیوں کے یہ لشکر اتنے بڑے ہوتے تھے کہ دن میں رات کا سماں ہو جاتا تھا۔ آخر کار وہ راستے کو ہموار کرنے اور پانچ پل بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

ہم ’گلی علی باغ‘ آبشار کے قریب رکے تاکہ اس اصل سڑک کے اس ٹکڑے کو سراہیں جو اب استعمال میں نہیں رہا۔ یہ ایک آگے کو نکلی ہوئی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ عمر حسین نے بتایا کہ ’میرے دادا، دادی 1970 کی دہائی میں اسی جگہ سے گزرتے تھے۔ پھر اس خوف سے کہ کہیں یہ گر نہ پڑے سڑک کا رخ موڑ دیا گیا۔ ایک چوتھائی میل تک یہ اتنا تنگ تھا کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی گاڑی گزر سکتی تھی۔ وہ انتباہ کے طور پر اپنے ہارن بجاتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ سامنے سے کوئی گاڑی نہ آ رہی ہو۔

ہم عمر حسین کے آبائی شہر چومان میں کوہ ہلگرد کے دامن میں رات کے لیے رکے، جہاں ہم نے بہت پسند کی جانے والی عراقی قومی ڈش مسگوف کھائی۔ عمر حسین کے دوست صادق ڈیلزی کھانے میں شریک ہوئے۔ وہ ماہر سماجیات ہیں۔

صادق نے بتایا کہ کردوں کے لیے انھوں نے ہیملٹن روڈ کے دو بڑے ضمنی فائدوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ پہلا یہ کہ ایک ایسے علاقے میں سکول تعمیر ہوئے جہاں خواندگی کی شرح بہت کم تھی، اور ان درس گاہوں کے نتیجے میں یہاں کے مرد اور خواتین ڈاکٹر، وکیل اور انجینیئر بن گئے۔ پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے پہاڑوں میں منتشر قبائل کو آپس میں جوڑ دیا، انھیں مشترکہ شناخت دی اور ان میں اپنی روایا اور عقائد کو محفوظ بنانے کا جذبہ بیدار ہوا۔

عراق کا قومی پکوان

،تصویر کا ذریعہSimon Urwin

،تصویر کا کیپشن

عراقی قومی ڈش مسگوف جسے انگاروں پر بھون کر خستہ بنایا جاتا ہے

کھانے کے بعد عمر حسین کی بیوی نسرین نے ایک عقیدے کا ذکر کیا جو مقامی آبادی میں راسخ ہے۔ کئی سال پہلے ان کے دادا سُسر کوہ ہلگرد میں برفانی توُدہ گرنے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے اور انھیں مردہ تصور کر لیا گیا تھا: ’گھر والے کہیں سے ایک جوان اور کالے رنگ کا مرغا ڈھونڈ کر لائے اور اسے پہاڑی ڈھلوان پر چھوڑ دیا۔ وہ بہت دیر تک برف پر چلتا رہا، اور پھر ایک جگہ رک کر صرف ایک اذان دی۔ جب وہاں سے برف ہٹائی گئی تو نیچے ان کی لاش موجود تھی۔ ہمیں ہیلی کاپٹر یا پہاڑوں میں امدادی ٹیم کی ضرورت پیش نہیں آتی، ہمارے پاس جوان کالا مرغا جو ہے۔‘

اگلی صبح روٹی، بھیڑ کے دودھ کی دہی اور شہد کا روایتی ناشتہ کرنے کے بعد روانہ ہوئے۔ راستے میں ہم نے ایک عمر رسیدہ شخص احمد علی کو بیٹھایا جو چومان کے بازار سے خریداری کرنے کے بعد حاجی اومیران کے قصبے جا رہے تھے۔

جیسے جیسے سڑک اوپر چڑھتی گئی، مناظر وسیع ہوتے گئے۔ ہیملٹن نے لکھا ہے کہ اس آخری حصے کی تعمیر آسان ثابت ہوئی۔ مگر ہماری اپنی پیش رفت سست تھی کیونکہ سڑک پر جا بجا سست رو ڈیزل ٹرک چل رہے تھے اور جو کسر باقی تھی وہ تازہ چراگاہوں کو جانے والے چکی والے دنبوں نے پوری کر دی تھی۔

حسین نے بتایا کہ ’اگرچہ اس سڑک نے گلہ بانوں کے لیے دنبے کے گوشت کی نئی منڈیاں اور چکی سے حاصل شدہ چربی (پہاڑی کردوں میں کھانا پکانے کے تیل کے طور پر مقبول) کی وافر مقدار فراہم کی ہے، لیکن ان کی زندگی اتنی ہی مشکل ہے جتنی صدیوں پہلے تھی۔ بھورے ریچھ اور بھیڑیے بھیڑوں کو مار دیتے ہیں، اور عقاب چھوٹی بھیڑوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔‘

ماؤنٹ ہلگرد

،تصویر کا ذریعہSimon Urwin

،تصویر کا کیپشن

حاجی امیران کے قصبے کے عقب میں کوہ ہلگرد کی چوٹی جھانک رہی ہے

دو گھنٹے بعد آخر کار ہم حاجی امیران میں داخل ہوئے، یہ ایک خستہ حال سرحد ی قصبہ تھا۔ علی نے وضاحت کی کہ شہر کے 500 یا اس سے زیادہ خاندانوں میں سے بہت سے جزوقتی رہائشی تھے، جو سخت سردی سے بچنے کے لیے نسبتاً آرام دہ اربیل کا رخ کرتے ہیں۔

کار کی ڈگی سے اپنی چیزیں نکلاتے ہوئے انھوں نے کہا: ’ہم میں سے صرف چند ہی لوگ منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت اور 10 فٹ برف کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس سے احساس ہوتا ہے کہ ہیملٹن اور ان کے کارکنوں نے اتنے سال کیسے گزارے ہوں گے۔ لیکن صرف موسم سرما کو برداشت کر کے ہی آپ موسم بہار، موسم گرما اور خزاں کی خوبصورتی کو صحیح معنوں میں سراہ سکتے ہیں۔ وہ دن بھی آنے والے ہیں۔ پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ ہیملٹن نے کردوں کی جنت تک سڑک کیسے بنائی۔‘

کام مکمل ہوتے ہوتے ہیملٹن کردستان کی محبت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ اپنی ٹیم کو الوداع کرتے وقت وہ انتہائی جذباتی ہو گئے تھے۔ انھوں نے لکھا ’برف سے ڈھکی چوٹیاں جو چاند کے پہاڑوں کی طرح بنجر ہیں، ان سب کی تصویر میری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ