انتخابی ریلی میں حملے کے بعد ٹرمپ ہسپتال سے گھر پہنچ گئے، ہم حملہ آور کے بارے میں اب تک کیا جانتے ہیں؟
- مصنف, گیری و ڈونوہ اور برنڈ ڈیبسمان
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
امریکہ کے سابق صدر اور رپبلکن پارٹی کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ ایک ریلی کے دوران ہونے والے والی فائرنگ میں زخمی ہو گئے ہیں۔ پینسلوینیا میں ایک ریلی کے دوران سیکریٹ سروس کے ایجنٹس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت اسٹیج سے اپنے ساتھ حفاظتی حصار میں لے گئے جب وہاں گولیوں کی آواز سنائی دی۔ریلی میں بنائی جانے والی ایک فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولیوں کی آواز آنے کے بعد سابق امریکی صدر نے اپنے دائیں کان کو ہاتھ لگایا اور انتہائی پھرتی سے نیچے بیٹھ گئے۔سیکرٹ سروس کے ایجنٹس انھیں فوراً ہی سٹیج سے اپنے ساتھ ایک گاڑی کی طرف لے گئے جو ان کی منتظر تھی۔ جب انھیں گاڑی میں بٹھایا جا رہا تھا تو انھوں نے ہوا میں اپنا مکّا لہرایا۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ نیٹ ورک پر ایک پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ ایک گولی ان کان کے ’اوپری حصے‘ کو چھو کر گزر گئی۔اس سے قبل ان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’ٹھیک‘ ہیں اور ایک مقامی میڈیکل سینٹر میں انھیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔سابق امریکی صدر نے اپنی ’ٹرتھ سوشل‘ پوسٹ میں لکھا کہ ’مجھے فوراً ہی پتا چل گیا تھا کہ کچھ غلط ہوا ہے، میں نے سیٹی کی سی آواز سنی، گولیاں چلیں اور مجھے فوراً ہی محسوس ہوا کہ ایک گولی میری جِلد کو چیرتی ہوئی نکل گئی ہے۔‘’کافی خون بہہ گیا تو مجھے پتا چلا کہ یہاں ہوا کیا ہے۔‘ڈونلڈ ٹرمپ کے کان پر خون واضح طور دیکھا جا سکتا تھا جب انھیں سیکرٹ سروس کے ایجنٹ اپنے ہمراہ لے کر جا رہے تھے۔
- امریکی صدارتی مباحثہ: بائیڈن کے بےربط جملے اور ٹرمپ کا جارحانہ انداز28 جون 2024
- ’صرف خدا ہی مجھے صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے لیے راضی کر سکتا ہے‘، بڑھتے دباؤ کے باوجود بائیڈن پرعزم6 جولائی 2024
- ٹرمپ کو ’طاقت اور اثرورسوخ حاصل کرنے کی تربیت‘ دینے والے بدنامِ زمانہ وکیل جو اُنھیں آج بھی یاد آتے ہیں2 جون 2024
سیکریٹ سروس کے ترجمان انتھونی گگلیلمی کے مطابق ان کے ایجنٹس نے گولی چلانی والے مشتبہ شخص کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ کے واقع میں ایک راہگیر ہلاک اور دو زخمی بھی ہوئے۔قانون نافذ کرنے والے ذرائع نے بی بی سی کے امریکی پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مرد حملہ آور رائفل سے لیس تھا اور اس نے ریلی کے مقام سے سینکڑوں میٹر دور سے کسی اونچے مقام سے گولیاں چلائیں۔ذرائع نے مزید کہا کہ اس حملے کی تحقیقات ایک قاتلانہ حملے کی کوشش کے طور کی جا رہی ہیں۔انتھونی گگلیلمی نے تصدیق کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ان کے مطابق فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات ایف بی آئی کی نگرانی میں کی جا رہی ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
امریکی اور غیرملکی رہنماؤں کی جانب سے حملے کی مذمت
ڈیلاویئر میں موجود امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکہ میں اس قسم کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘انھوں نے ریلی پر ہونے والی فائرنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہر کسی کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔‘وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک افسر کے مطابق ریلی میں فائرنگ کے واقعے کے بعد صدر جو بائیڈن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو ہوئی ہے۔تاہم افسر نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی۔رپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے سیاستدانوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے کہا کہ ’جمہوریت میں سیاسی تشدد کی کوئی گنجائش نہیں‘ اور وہ یہ سُن کر ’پُرسکون ہیں کہ صدر ٹرمپ زیادہ زخمی نہیں ہوئے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ٹرمپ پر حملے کے صدراتی مہم پر کیا اثرات پڑیں گے؟
سارہ سمتھ، ایڈیٹر برائے شمالی امریکہ تجزیہحملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مکّا لہرانے اور چہرے پر بہتے خون کی غیر معمولی تصاویر شاید امریکہ میں صدارتی الیکشن کی مہم پر اثر انداز ہوں۔ایسی ہی ایک تصویر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر شیئر کی اور اپنے والد کے بارے میں لکھا: ’امریکہ کو جس فائٹر کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں۔‘دوسری جانب صدر بائیڈن کی انتخابی انتظامیہ نے تمام بیانات روک دیے ہیں اور وہ جلد از جلد ٹی وی پر نشر کیے جانے والے اشتہارات کو روکنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرنا غیرمناسب ہوگا اور انھیں اپنی توجہ واقعے کی مذمت کرنے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔وہ تمام سیاستدان جو ڈونلڈ ٹرمپ سے اتفاق نہیں کرتے وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔سابق امریکی صدور براک اوبامہ، جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن اور جمی کارٹر کی جانب سے بھی اس واقعے کی فوری مذمت کی گئی ہے۔اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی اور حامی اس پُرتشدد واقعے کا ذمہ دار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹھہرا رہے ہیں۔رپبلکن سینیٹر جے ڈی وانس نے کہا کہ اس واقعے کا سبب جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی بیان بازی ہے۔دیگر رپبلکن رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسے ہی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ یقینی طور پر ان کے مخالف سیاستدان ایسے خطرناک وقت پر ایسے بیانات کی مذمت کریں گے۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک پریشان کن واقعے کے بعد دونوں جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں اور اس کے سبب امریکہ میں جاری صدارتی مہم کی شکل تبدیل ہو جائے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.