انتخابی ریلی میں ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی کوشش، گولی سابق امریکی صدر کے کان کے’اُوپری حصے‘ کو چُھو کر گزر گئی،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’ٹھیک‘ ہیں

  • مصنف, گیری و ڈونوہ اور برنڈ ڈیبسمان
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

امریکہ کے سابق صدر اور رپبلکن پارٹی کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ ایک ریلی کے دوران ہونے والے والی فائرنگ میں زخمی ہو گئے ہیں۔ پینسلوینیا میں ایک ریلی کے دوران سیکریٹ سروس کے ایجنٹس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت اسٹیج سے اپنے ساتھ حفاظتی حصار میں لے گئے جب وہاں گولیوں کی آواز سنائی دی۔ریلی میں بنائی جانے والی ایک فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولیوں کی آواز آنے کے بعد سابق امریکی صدر نے اپنے دائیں کان کو ہاتھ لگایا اور انتہائی پھرتی سے نیچے بیٹھ گئے۔سیکرٹ سروس کے ایجنٹس انھیں فوراً ہی سٹیج سے اپنے ساتھ ایک گاڑی کی طرف لے گئے جو ان کی منتظر تھی۔ جب انھیں گاڑی میں بٹھایا جا رہا تھا تو انھوں نے ہوا میں اپنا مکّا لہرایا۔

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ نیٹ ورک پر ایک پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ ایک گولی ان کان کے ’اوپری حصے‘ کو چھو کر گزر گئی۔اس سے قبل ان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’ٹھیک‘ ہیں اور ایک مقامی میڈیکل سینٹر میں انھیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔سابق امریکی صدر نے اپنی ’ٹرتھ سوشل‘ پوسٹ میں لکھا کہ ’مجھے فوراً ہی پتا چل گیا تھا کہ کچھ غلط ہوا ہے، میں نے سیٹی کی سی آواز سنی، گولیاں چلیں اور مجھے فوراً ہی محسوس ہوا کہ ایک گولی میری جِلد کو چیرتی ہوئی نکل گئی ہے۔‘’کافی خون بہہ گیا تو مجھے پتا چلا کہ یہاں ہوا کیا ہے۔‘ڈونلڈ ٹرمپ کے کان پر خون واضح طور دیکھا جا سکتا تھا جب انھیں سیکرٹ سروس کے ایجنٹ اپنے ہمراہ لے کر جا رہے تھے۔

سیکریٹ سروس کے ترجمان انتھونی گگلیلمی کے مطابق ان کے ایجنٹس نے گولی چلانی والے مشتبہ شخص کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ کے واقع میں ایک راہگیر ہلاک اور دو زخمی بھی ہوئے۔قانون نافذ کرنے والے ذرائع نے بی بی سی کے امریکی پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مرد حملہ آور رائفل سے لیس تھا اور اس نے ریلی کے مقام سے سینکڑوں میٹر دور سے کسی اونچے مقام سے گولیاں چلائیں۔ذرائع نے مزید کہا کہ اس حملے کی تحقیقات ایک قاتلانہ حملے کی کوشش کے طور کی جا رہی ہیں۔انتھونی گگلیلمی نے تصدیق کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ان کے مطابق فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات ایف بی آئی کی نگرانی میں کی جا رہی ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنسیکرٹ سروس کے ایجنٹس انھیں فوراً ہی سٹیج سے اپنے ساتھ ایک گاڑی کی طرف لے گئے
امریکی ریاست پینسلوینیا کے شہر بٹلر میں رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں فائرنگ اس وقت ہوئی جب انھوں نے تقریر شروع ہی کی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حریف امیداوار امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے حوالے سے بات ہی کر رہے تھے کہ وہاں متعدد گولیاں چلنے کی آواز آئی۔فائرنگ کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچھے ان کے حامی بھی زمین پر فوراً بیٹھ گئے۔ ریلی میں موجود افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ گولیاں سٹیج کے دائیں جانب واقع ایک منزلہ عمارت سے چلائی گئیں۔گریگ نامی ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سٹیج پر آنے سے پانچ منٹ پہلے انھوں نے ایک مشتبہ شخص کو عمارت کی چھت پر ’رینگتے ہوئے‘ دیکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پولیس کو اس شخص کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔گریگ نے مزید کہا: ’اس کے پاس رائفل تھی، ہم نے اسے واضح طور پر رائفل کے ساتھ دیکھا۔ ہم نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا، پولیس یہاں وہاں بھاگ رہی تھی۔‘’ہم نے کہا وہاں ایک آدمی کے پاس رائفل ہے لیکن پولیس کو آئیڈیا ہی نہیں کیا تھا کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔‘جیسن نامی ایک اور عینی شاہد کے مطابق انھوں نے وہاں پانچ گولیوں کی آواز سُنی۔انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حفاظت کے لیے سیکریٹ سروس کے ایجنٹس کو ان پر چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا، وہاں موجود لوگ بھی فوراً نیچے بیٹھ گئے۔‘’ڈونلڈ ٹرمپ اس کے فوری بعد کھڑے ہوگئے، اپنا مکّا لہرایا اور کچھ باتیں کیں۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنجیسن نامی ایک عینی شاہد کے مطابق انھوں نے وہاں پانچ گولیوں کی آواز سُنی
ٹِم نامی عینی شاہد کہتے ہیں کہ انھوں نے گولیوں کی ’بوچھاڑ‘ سُنی۔’ہم نے صدر ٹرمپ کو زمین پر بیٹھتے ہوئے دیکھا اور پھر ہر کوئی زمین کی طرف جھک گیا کیونکہ وہاں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔‘وارن اور ڈیبی بھی ان افراد میں شامل تھے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں موجود تھے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سیکریٹ سروس کے ایجنٹس نے فوری طور پر وہاں موجود لوگوں کو نیچے جھکنے کا کہا۔وارن کہتے ہیں کہ ’ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہو رہا ہے۔‘ڈیبی کہتی ہیں کہ انھوں نے وہاں ایک چھوٹی بچی کو روتے ہوئے دیکھا جو مرنا نہیں چاہتی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ’یہ ہمارے ساتھ کیوں ہو رہا ہے۔‘

امریکی اور غیرملکی رہنماؤں کی جانب سے حملے کی مذمت

ڈیلاویئر میں موجود امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکہ میں اس قسم کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘انھوں نے ریلی پر ہونے والی فائرنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہر کسی کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔‘وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک افسر کے مطابق ریلی میں فائرنگ کے واقعے کے بعد صدر جو بائیڈن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو ہوئی ہے۔تاہم افسر نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی۔رپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے سیاستدانوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے کہا کہ ’جمہوریت میں سیاسی تشدد کی کوئی گنجائش نہیں‘ اور وہ یہ سُن کر ’پُرسکون ہیں کہ صدر ٹرمپ زیادہ زخمی نہیں ہوئے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفائرنگ کے واقعے کے بعد صدر جو بائیڈن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو ہوئی ہے
امریکہ کے سابق نائب صدر مائیک پینس نے بھی ایک بیان میں کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے دعاگو ہیں اور وہ امریکی شہریوں سے بھی دعاؤں کی اپیل کرتے ہیں۔برطانوی وزیراعظم سر کیئر سٹامر نے اپنے ایک بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والے حملے کی مذمت کی اور کہا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں سیاسی تشدد کی کسی بھی شکل میں کوئی گنجائش نہیں اور میری دعائیں اس حملے کے متاثرین کے ساتھ ہیں۔‘جاپانی وزیراعظم نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں سے گزارش کی ہے کہ ’جمہوریت کو چیلنج‘ کرنے والے تشدد کی مخالفت کریں۔دوسری جانب کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ وہ ’سابق صدر ٹرمپ پر ہونے والے فائرنگ کے واقعے پر پریشانی کا شکار ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ امریکی پیر کو ملواکی میں صدارتی انتخابات کے لیے رپبلکن پارٹی کا ٹکٹ قبول کرنے جا رہے تھے۔ یہ بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ آج بٹلر میں منعقد ریلی میں اپنے نائب صدر کے امیدوار کے نام کا اعلان کرنے والے تھے۔خیال رہے رواں برس نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن میں امریکی صدر جو بائیڈن کا سامنا کریں گے اور کہا جارہا کہ دونوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔کچھ رپبلکن رہنماؤں نے ریلی پر ہونے والی فائرنگ کے فوراً بعد اس حملے کا ذمہ دار صدر جو بائیڈن کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی سے متعلق خدشات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔رپبلکن سینیٹر جے ڈی وانس نے کہا کہ اس واقعے کا سبب جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی بیان بازی ہے۔دوسری جانب ایوانِ زیریں کی اوور سائٹ کمیٹی کے سربراہ جیمز کومر نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے یر سیکرٹ سروس کے ڈائریکٹر کو کمیٹی کے سامنے طلب کریں گے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے کی تحقیقات ایک قاتلانہ حملے کی کوشش کے طور کی جا رہی ہیں

ٹرمپ پر حملے کے صدراتی مہم پر کیا اثرات پڑیں گے؟

سارہ سمتھ، ایڈیٹر برائے شمالی امریکہ تجزیہحملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مکّا لہرانے اور چہرے پر بہتے خون کی غیر معمولی تصاویر شاید امریکہ میں صدارتی الیکشن کی مہم پر اثر انداز ہوں۔ایسی ہی ایک تصویر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر شیئر کی اور اپنے والد کے بارے میں لکھا: ’امریکہ کو جس فائٹر کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں۔‘دوسری جانب صدر بائیڈن کی انتخابی انتظامیہ نے تمام بیانات روک دیے ہیں اور وہ جلد از جلد ٹی وی پر نشر کیے جانے والے اشتہارات کو روکنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرنا غیرمناسب ہوگا اور انھیں اپنی توجہ واقعے کی مذمت کرنے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔وہ تمام سیاستدان جو ڈونلڈ ٹرمپ سے اتفاق نہیں کرتے وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔سابق امریکی صدور براک اوبامہ، جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن اور جمی کارٹر کی جانب سے بھی اس واقعے کی فوری مذمت کی گئی ہے۔اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی اور حامی اس پُرتشدد واقعے کا ذمہ دار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹھہرا رہے ہیں۔رپبلکن سینیٹر جے ڈی وانس نے کہا کہ اس واقعے کا سبب جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی بیان بازی ہے۔دیگر رپبلکن رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسے ہی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ یقینی طور پر ان کے مخالف سیاستدان ایسے خطرناک وقت پر ایسے بیانات کی مذمت کریں گے۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک پریشان کن واقعے کے بعد دونوں جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں اور اس کے سبب امریکہ میں جاری صدارتی مہم کی شکل تبدیل ہو جائے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}