- مصنف, جوانا جارجیوسکی
- عہدہ, بی بی سی سربیئن
- 2 گھنٹے قبل
’ہتھیار، خوراک، ادویات، تیل کی پائپ لائن، بجلی کی تاریں، ٹیلی فون کیبل اور لوگ‘۔49 سالہ ایدیس کولار کی فہرست صرف یہیں ختم نہیں ہوتی اور وہ اس میں اضافہ کرتے ہیں۔’فوجی، عام شہری، زخمی اور یہاں تک کہ مرنے والوں کی لاشیں بھی۔۔۔ اس کے ذریعے تقریباً ہر وہ چیز گزری جو سرنگ سے گزر سکتی تھی۔ یہ محصور سرائیوو کا واحد دروازہ تھا۔‘وہ سرائیوو سرنگ کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جسے عام طور پر ’امید کی سرنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 1993 میں ان کے دادا، دادی کے گھر کے نیچے تعمیر کی گئی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب بوسنیا کی جنگ زوروں پر تھی۔ 1990 کی دہائی میں بلقان میں ہونے والی اس لڑائی میں ایک لاکھ سے زیادہ جانیں گئیں اور 22 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔1990 کی دہائی کے اوائل میں یوگوسلاویہ کے سقوط کے دوران، بوسنیا اور ہرزیگووینا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا کیونکہ یہ نسلی اعتبار سے ملک کا سب سے متنوع حصہ تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- 25 سال پہلے 8000 بوسنیائی مسلمانوں کو کیسے قتل کیا گیا؟11 جولائی 2020
- سربرنیتسا قتل عام: ’میں اپنے شوہر کی صرف کھوپڑی ہی دفنا سکی‘11 جولائی 2024
،تصویر کا ذریعہGetty Images
موزوں ترین مقام
ایدیس کولار کی عمر اس وقت 18 سال تھی جب ان کے گھر کے نیچے سرنگ بنائی گئی۔وہ بتاتے ہیں ’جنگ کے آغاز میں اس علاقے میں ہمارا گھر سب سے پہلے نشانہ بنا کیونکہ یہ رہائشی علاقے کے بالکل آخر میں تھا۔‘’یہ ہوائی اڈے کا قریب ترین مکان بھی تھا اور اس طرح سرنگ کی تعمیر کے لیے سب سے موزوں مقام تھا جو شہر کو (بوسنیائی مسلمانوں کے زیر کنٹرول) نام نہاد آزاد علاقے سے جوڑتا۔‘
’وہ سرنگ جس کا وجود نہیں‘
سیاحوں کو عجائب گھر کی سیر کروانے والے گائیڈ مدحت کریک کا کہنا ہے کہ امید کی سرنگ کا تعارف اکثر ’وہ سرنگ جو موجود نہیں‘ کہہ کر کروایا جاتا ہے۔سرنگ سے گزرتے ہوئے مدحت جنگ کے دوران اپنی ذاتی آزمائش کے بارے میں بات کرتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ان کا گھر نام نہاد ’آزاد‘ علاقے میں تھا اور ان کی کینسر کی مریضہ والدہ کو محاصرے کے دوران سرائیوو کے ہسپتال منتقل کرنا پڑا تھا۔’شہر سے باہر ہمارے پاس صرف بیرونی مریضوں کے لیے ہسپتال تھے جہاں صرف زخمیوں کی دیکھ بھال ممکن تھی لیکن اگر معاملہ زیادہ سنگین یا بڑا ہو تو علاج شہر میں ہی ممکن تھا۔‘’لہٰذا، میں اپنی ماں کو سرنگ کے ذریعے سرائیوو لے گیا۔ چند ماہ بعد اس کی موت ہو گئی اور ہم اسی سرنگ سے ان کی لاش گھر واپس لائے تاکہ تدفین ہو سکے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.