- مصنف, وینیسیوس پیرینا
- عہدہ, بی بی سی نیوز برازیل
- 2 گھنٹے قبل
پانچ اکتوبر 1860 کو نیویارک ٹائمز نے ہونڈوراس میں ایک امریکی کو پھانسی دیے جانے کی خبر ان الفاظ میں شائع کی۔ ’وہ اپنی کال کوٹھری سے تختہ دار کی جانب پُراعتماد قدموں سے بڑھ رہے تھے، اُن کے چہرے پر کوئی ملال نہیں تھا۔۔۔ تین فوجیوں نے آگے بڑھ کر اپنی بندوقوں سے اُن پر گولیاں برسا دیں۔۔۔ اُن کے دماغ اور کھوپڑی کے پُرزے ہوا میں اُڑا دیے گئے۔‘یہ چونکا دینے والا اقتباس ایک کروڑ پتی ولیم واکر کی زندگی کے آخری ایام کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ولیم واکر نے اپنے اثر و رسوخ کی مدد سے کالونیاں قائم کیں اور اس سب کے لیے انھوں نے اپنی ہی نجی فوج کے ساتھ لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک پر حملہ کیا تھا۔اپنی زندگی کے دوران واکر نکاراگوا میں تقریباً دو سال تک اقتدار پر قابض رہے۔ جہاں انھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر قائم کیا، قومی پرچم کو تبدیل کیا اور ملک میں غلاموں کی آزادی کو منسوخ کر دیا۔
صدارت سے بے دخل کر دیے جانے کے بعد وہ ایک ہیرو کی حیثیت سے امریکہ واپس آئے۔ لیکن اپنے منصوبوں کو بحال کرنے کے لیے ہونڈوراس واپس جانے کا انتخاب کیا۔ وہاں انھیں حراست میں لے لیا گیا، نہ صرف یہ بلکہ ایک مقدمہ چلا اور اس میں انھیں سزائے موت سُنا دی گئی۔تاہم واکر اس براعظم کے لیے ایک وراثت چھوڑ گئے: بی بی سی نیوز برازیل کو دیے گئے انٹرویو میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے حملوں سے لاطینی امریکی شناخت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
ولیم واکر کون تھا؟
ولیم واکر کا سفر اُس مقام سے تقریباً 2000 کلومیٹر کے فاصلے پر شروع ہوا جہاں انھیں موت کی سزا دی گئی۔وہ سنہ 1824 میں امریکی ریاست ٹینیسی میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق مقامی سیاست پر مضبوط اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان سے تھا۔ واکر ایک ممتاز تاجر کے بیٹے تھے۔امریکی ایئر فورس اکیڈمی میں تاریخ کے پروفیسر جان ای نورویل جنھوں نے واکر کی زندگی پر ایک مضمون شائع کیا، بتاتے ہیں کہ واکر نے طب کی تعلیم حاصل کی وہ ایک صحافی اور وکیل بھی تھے، مگر انھوں نے ان تمام پیشوں کو چھوڑ دیا۔انھوں نے جلد ہی ایک ’فلی بسٹر‘ یعنی ایک لُٹیرے یا ڈاکو کے طور پر کریئر کا آغاز کیا، ایک ایسے فرد کے طور پر کہ جس نے ملک میں انقلاب کو ہوا دینے کے لیے وہاں موجود ملیشیا میں شمولیت اختیار کی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesپروفیسر جان ای نورویل نے اپنی ایک تحریر میں کہا کہ ’واکر نے جنگ میں جانے کے امکان اور لڑنے کو ایک عظیم مہم جوئی کے طور پر دیکھا۔ شاید وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ امریکہ کی ’واضح تقدیر‘ کا مقصد باقی براعظم کو ضم کرنا ہے۔‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یا شاید فلی بسٹر یعنی ایک لٹیرے کی طرح واکر نے وسطی امریکہ کے وسیع علاقوں کو فتح کرنے کا سوچا تھا۔ جہاں وہ نئی غلام ریاستوں کا قیام عمل میں لائیں گے۔‘سنہ 1853 میں واکر نے امریکہ میں بھرتیوں کا آغاز کیا جس کے بعد انھوں نے طاقت اور زیادہ دولت کی تلاش میں میکسیکو میں اپنی مہم شروع کی۔ نورویل کہتے ہیں کہ ’غلامی کے امریکی حامیوں کو بھرتی کرکے وہ میکسیکو میں ایک ایسی امریکی کالونی بنانا چاہتے تھے کہ جو امریکا کا حصہ بنے جیسا کہ ٹیکساس نے پہلے کیا تھا۔‘واکر کی کرائے کی فوج نے میکسیکو کے دو شہروں کو فتح کیا: لا پاز اور اینسیناڈا وہاں انھیں نئے ’جمہوریہ سونورا‘ کا صدر مقرر کیا گیا۔لیکن فتح کے چند دن بعد رسد کی کمی اور میکسیکو کے فوجیوں کی غیر متوقع مزاحمت نے واکر اور ان کی فوج کو امریکا سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
نکاراگوا میں فوجی امر
میکسیکو میں ناکامی واکر کے خوابوں اور جستجو کو نہیں روک سکی۔ 1854 میں نکاراگوا میں گریناڈا شہر میں واقع لیگیٹیمسٹ پارٹی کے حامیوں اور لیون میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کے مابین خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد فرانسسکو کاسٹیلون نے واکر سے فوجی حمایت طلب کی۔یونیورسٹی آف ساؤ پالو (یو ایس پی) میں سوشیالوجی کی ڈاکٹر اور انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ سٹڈیز کی محقق ایلین سانتوس کے مطابق ’واکر کے ان حامیوں کو، جنھوں نے ذاتی فائدے کے بدلے ان کی حمایت کی تھی، ایک مقامی بورژوا طبقے کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے جو غیر ملکی مفادات کے حصول کے لیے اپنے اتحادیوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔‘یہ امریکی کروڑ پتی کے لیے اقتدار میں آنے کا موقع تھا۔ واکر کے فوجوں کی آمد نے خانہ جنگی کے خدشہ اور خطرے کو ٹالنے میں مدد کی۔سینٹرل امریکن انٹیگریشن سسٹم (ایس آئی سی اے) کی جانب سے شائع ہونے والی کتاب ’نکاراگوا پر فلیبسٹر حملہ اور قومی جنگ‘ کے مصنف جے ریکارڈو ڈوئنس وان سیورن نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ریئلجو شہر میں پہنچنے والے شمالی امریکیوں اور مقامی فوجیوں کی مدد سے وہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں کامیاب رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesسرکاری فوجیوں کے خلاف گریناڈا میں جنگ جیت کر واکر آخر کار ملک پر قبضہ کرنے اور نظم و ضبط سنبھالنے میں کامیاب ہوئے اور ایک علامتی انتخابی عمل کے بعد صدر منتخب ہوئے۔مصنف جے ریکارڈو ڈوئنس وان سیورن لکھتے ہیں کہ ’12 جولائی 1856 کو دوپہر کے وقت ریئلیجو پہنچنے کے 13 ماہ کے بعد واکر نے گراناڈا کے پلازہ میئر میں نکاراگوا کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اگرچہ واکر کے سر پر سیاہ بادل منڈلا رہے تھے اور حالات بھی درست سمت میں نہیں جا رہے تھے، لیکن یہ ایک حملہ آور کے لیے سب سے بڑی فتح اور خوشی کا لمحہ تھا تاہم دوسری جانب نکاراگوا اور وسطی امریکہ کے لیے یہ ذلت اور رسوائی کا ایک بڑا لمحہ تھا۔‘واکر کے آتے ہی امریکہ سے نکاراگوا میں رسم و رواج اور نئی پالیسیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اپنے دورِ حکمرانی میں انھوں نے جو اہم اعلانات کیے اُن میں غلامی کے نظام کو دوبارہ قائم کرنے کا حکم، انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنا، امریکیوں کی آمد کی حوصلہ افزائی اور ملک کے آئین اور پرچم کو تبدیل کرنا شامل تھا۔وینڈربلٹ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر مارشل سی ایکن کے مطابق ’زیادہ وسیع پیمانے پر واکر چاہتے تھے کہ اس خطے کو کسی نہ کسی طرح امریکہ میں شامل کیا جائے۔ اپنے سب سے متنازع اقدام میں انھوں نے نکاراگوا میں غلامی کا نظام قائم کیا، جو ممکنہ طور پر امریکی جنوبی باشندوں کو اپنے مقصد کی طرف راغب کرنے کی ایک کوشش تھی۔‘سیورن نے کہا کہ ’واکر نے حکم نامے میں اعلان کیا کہ ’ریاست کے دشمنوں‘ کے تمام اثاثے جمہوریہ کے حق میں ضبط کر لیے جائیں گے اور یہ کہ ضبط شدہ اثاثوں کو اپنے ہم وطنوں میں زمین تقسیم کرنے کے موقع کے طور پر ضبط شدہ اثاثوں کی فروخت یا منتقلی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesان کی حکومت کو واشنگٹن نے فوری طور پر تسلیم کیا کیونکہ امریکا کے لیے نکاراگوا کے رستے بحرالکاہل تک رسائی کی اقتصادی اہمیت تھی۔پروفیسر جان ای نورویل کہتے ہیں کہ ’1849 سے کیلیفورنیا اور مغرب نے امریکا کے لیے ایک نئی اہمیت اختیار کرلی۔ بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو ملانے والے سمندری راستے کی عدم موجودگی میں نیو یارک شہر اور سان فرانسسکو کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ کھولا گیا جو نکاراگوا سے گزرتا ہے۔ بحری جہاز نیو یارک سے نکارا گوا کے لیے روانہ ہوتے جہاں لوگوں اور سامان کو زمینی اور بحری سفر کے ذریعے بحرالکاہل پہنچایا جاتا تھا تاکہ انھیں سان فرانسسکو بھیجا جا سکے۔
سزائے موت
واکر کی فوج کی فتح اور ان کی طاقت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ اقتدار سنبھالنے کے تقریباً دو سال بعد جلاوطن نکاراگوا کے فوجیوں کے ایک بڑے گروہ نے وسطی امریکی ممالک کے ساتھ ساتھ دوسرے امریکیوں کی مالی اعانت سے کرائے کے فوجیوں میں شامل ہونا شروع کیا اور تمام تر معاملات پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے بعد واکر کو اقتدار سے بے دخل کیا۔اپنی حکومت کی مخالفت کرنے والے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کو روکنے میں ناکامی پر واکر کو نکاراگوا سے بے دخل کر دیا گیا وہ ہیرو کی حیثیت سے امریکا واپس پہنچے۔ وہاں انھوں نے ’نکاراگوا کی جنگ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور نئے اتحادیوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ تاہم وہ شمالی علاقوں میں زیادہ دیر تک قیام نہ کر سکے۔ان کا منصوبہ اور بغاوت کا جذبہ ابھی زندہ تھا وہ تین سال بعد مہم جوئی کی ایک نئی سوچ لیے ہونڈوراس پہنچے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبرطانیہ کی طرف سے خطرہ سمجھے جانے والے واکر کو ایک انگریز کمانڈر نے گرفتار کیا جس کے جہاز نے خطے میں برطانوی مفادات کا تحفظ کیا اور ٹروجیلو میں واکر کو مقامی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔مصنف جے ریکارڈو ڈوئنس وان سیورن نے اپنی تصنیف میں لکھا کہ ’انگریز کپتان سالمن چالیس آدمیوں کے ساتھ دو چھوٹی کشتیوں میں ندی میں سفر کرتا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو واکر انھیں ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دیتا ہے اور انھیں خبردار کرتا ہے کہ وہ ہونڈوراس کے فوجیوں کے گھیرے میں ہیں۔‘واکر کو ہونڈوراس کے حکام نے فوری طور پر موت کی سزا سنائی اور ہونڈوراس حکومت کے وفادار فوجیوں نے واکر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
لاطینی امریکی علامت
ایکن کہتے ہیں کہ ’واکر کو اب بے رحم اور مہم جو امریکی سامراجی ایجنٹ کا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ وسطی امریکہ میں، یہ 19 ویں صدی کی امریکی سامراجی کوششوں کی علامت ہیں۔‘ایلین سانتوس کے مطابق واکر کی جانب سے کیے جانے والے حملوں نے خطے میں خودمختاری اور آزادی سے متعلق قوم پرستانہ جذبات کو تقویت دی۔ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں ان کی تاریخ اور ان کی دراندازی نے خاص طور پر وسطی امریکہ میں سامراج کے ’خطرات‘ اور بیرونی خطرات سے ہوشیار رہنے کی اہمیت کی بنیاد کو تقویت بخشی۔ایلین سانتوس کے مطابق ’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ولیم واکر نے وسطی امریکی ممالک پر کنٹرول حاصل کرنے کی اپنی کوششوں کی حمایت کے لیے کرائے کے فوجیوں کو بھرتی کیا، اسی طرح ایلون مسک نے اپنی ’ڈیجیٹل دُنیا کے لیے لوگ بھرتی کر رکھے ہیں جو ان کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں۔‘اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’جس طرح وسطی امریکی سیاست میں واکر کی مداخلت سے ہمسایہ ممالک سے رد عمل سامنے آیا اور مجموعی طور پر خطے پر اس کے اثرات مرتب ہوئے، اسی طرح برازیل جیسے ممالک کی قومی سیاست پر مسک کے اثر و رسوخ کو سیاسی استحکام اور جمہوری اداروں کی خودمختاری کے لیے تشویش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.