امریکی کانگریس میں اڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کا ذکر کیوں ہو رہا ہے؟

امریکہ

،تصویر کا ذریعہUS DEPARTMENT OF DEFENSE

  • مصنف, کائلا ایپسٹین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اگر یہ سچ ہے تو امریکی کانگریس جاننا چاہتی ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان نے اڑن طشتریوں، جنھیں ’یو اے پی‘ یا ’یو ایف او‘ کے مخفف سے بھی جانا جاتا ہے، پر بدھ کے دن ایک تاریخی اجلاس طلب کیا جو اعلی حکومتی سطح پر پراسرار مشاہدات کے جائزے کی ضرورت کا سنجیدہ اعتراف سمجھا جا رہا ہے۔

ریپبلکن کے ٹم برشیٹ نے اجلاس سے قبل کہا کہ ’امریکی اراکین چھوٹے سبز لوگ یا اڑن طشتریاں اجلاس میں نہیں لائیں گے، ہم صرف حقائق جاننا چاہتے ہیں۔‘ اس کے باوجود یہ اجلاس دلچسپی کا باعث تھا۔

دو گھنٹے طویل اجلاس کے دوران تین عینی شاہدین نے ایسی اشیا کو دیکھنے کا دعویٰ کیا جن کی حرکات طے شدہ سائنسی اصولوں سے متضاد تھیں۔

انھوں نے ایسے پائلٹس کا تذکرہ کیا جو بات نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس موضوع پر بات کرنے والوں کے خلاف مبینہ کارروائیوں اور نئے دریافت شدہ حیاتیاتی مواد پر بھی بات کی۔

ان سب نے اعتراف کیا کہ یہ پراسرار رجحان قومی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ ہو سکتا ہے۔

اس اجلاس میں کوئی دھماکے دار انکشاف نہیں ہوا اور نہ ہی خلائی مخلوق کی موجودگی کی تصدیق ہو سکی تاہم امریکی کانگریس کے سامنے عینی شاہدین کی موجودگی ہی ایک اہم چیز تھی۔

اس اجلاس میں موجود اراکین نے امریکی فوج سے اس معاملے پر مزید شفافیت کا مطالبہ بھی کیا۔

سابق امریکی نیوی اہلکار ڈیوڈ فریور نے ایک بار پھر ایک ایسی اڑن طشتری کے مشاہدے کے تجربے پر بات کی جو انھوں نے 2004 میں دیکھی تھی اور ان کے مطابق وہ عجیب و غریط طریقے سے حرکت کر رہی تھی جسے دیکھ کر ماہر پائلٹ بھی ششدر ہوئے۔

واضح رہے کہ اس واقعے کی فوٹیج 2017 میں جاری ہوئی تھی جس کے دو سال بعد امریکی بحریہ نے اس کی تصدیق بھی کی تھی۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈیوڈ فریور نے کہا کہ ’ہمارے سامنے جو ٹیکنالوجی تھی وہ ہم سے بہت زیادہ جدید تھی۔ وہ ہماری 10 سال تک آنے والی ٹیکنالوجی سے بھی زیادہ بہتر تھی۔‘

ایک سابق امریکی فضائیہ کے انٹیلیجنس افسر ڈیوڈ گرش نے عندیہ دیا کہ حکومتی اہلکار معلومات چھپا رہے ہیں اور بات کرنے والوں کو سزا دے رہے ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ وہ رازداری کے قوانین کی وجہ سے اس معاملے پر اس سے زیادہ بات نہیں کر سکتے۔

انسانی یا غیر انسانی؟

اسی اجلاس کے دوران جنوبی کیرولینا کی ریپبلکن نینسی میس نے ڈیوڈ گرش سے غیر انسانی مخلوق کی وضاحت کرنے کو کہا۔

انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا کسی جہاز سے حکومت نے حیاتیات برآمد کیں ہیں‘ تو ڈیوڈ نے اپنے پرانے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’چند واقعات میں حیاتیات برآمد کی گئیں۔‘

نینسی میس نے سوال کیا کہ ’آیا یہ انسانی حیاتیات تھیں یا غیر انسانی؟‘

ڈیوڈ نے جواب دیا کہ ’غیر انسانی اور یہ ان لوگوں کا تجزیہ تھا جو اس پروگرام سے منسلک تھے اور جن سے میری بات چیت ہوئی۔‘

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک اور موقع پر ڈیوڈ نے اعتراف کیا کہ انھوں نے ذاتی طور پر کبھی خلائی مخلوق نہیں دیکھی تاہم ان عینی شاہدین نے مطالبہ کیا کہ وضاحت طلب مشاہدات کو سرکاری طور پر درج کرنے کے لیے عسکری اہلکاروں اور عوام کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے۔

امیریکنز فار سیف ایئرو سپیس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ریان گریوز نے کہا کہ ’ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے جہاں پائلٹ نوکری سے ہاتھ دھونے کے خوف کے بغیر رپورٹ کر سکیں۔‘

اجلاس کے اختتام تک یہ واضح تھا کہ کانگریس اراکین اس درخواست کو منظور کرنا چاہتے ہیں۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ رابرٹ گارسیا نے کہا کہ ’یو اے پی یا یہ جو بھی ہیں، ہماری فوج اور سول طیاروں کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘

’ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے مشاہدات کی زیادہ رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی کریں ناکہ اس پر کم بات ہو۔ ہم جتنا زیادہ سمجھ سکیں گے، اتنا زیادہ محفوظ رہیں گے۔‘

اگرچہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ اراکین اس موضوع پر سنجیدگی سے بات کرتے نظر آئے، چند اراکین نے کسی خلائی مخلوق کی موجودگی پر شک کا اظہار بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیے

’خلائی مخلوق کی نااہلی‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ریپبلکن ایرک برلیسن نے پائلٹس کی جانب سے ایسے مشاہدات پر سوال اٹھایا۔

انھوں نے کہا کہ ان کو یہ بات سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے کہ ’ایسی مخلوق جو اربوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد زمین تک پہنچ سکتی ہیں، زمین پر کریش کرنے کی نااہلی دکھاتے ہیں۔‘

انھوں نے سوال کیا کہ آیا یہ مبینہ اڑن طشتریاں کسی خفیہ حکومتی پروگرام کا حصہ تو نہیں جنھیں کسی عسکری کنٹریکٹر کمپنی نے تیار کیا ہو۔

تاہم امریکہ میں یو ایف او پر حکومتی سطح پر اتنی ہی حیران کن رفتار سے فیصلے ہوتے ہیں جس طرح مبینہ طور پر یہ اڑن طشتریاں حرکت کرتی ہیں۔ کبھی اس بارے میں خفیہ اجلاس ہوتے ہیں جن میں گنے چنے لوگ شرکت کر سکتے ہیں تو کبھی ایک سنجیدہ قومی سلامتی کے معاملے کے طور پر ایک اجلاس بلا کر ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے جس میں سنجیدہ سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

2017 میں یہ معاملہ اس وقت ابھرا تھا جب امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک خفیہ امریکی منصوبے کا ذکر کیا تھا جو مبینہ طور پر ان فضائی اشیا کی تفتیش کر رہا تھا۔

اس منصوبے کے پیچھے سابق سینٹ سربراہ ہیری ریڈ تھے جو نیواڈا ریاست کی نمائندگی کرتے تھے۔

نیو یارک ٹائمز اور ایک تنظیم، جس کا نام ’ٹو دی سٹارز اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنس‘ ہے، کی جانب سے تین ویڈیوز بھی شائع کی گئیں جن میں ایسی ناقابل فہم فضائی چیزوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔

اس کے بعد امریکی فوج نے ان چیزوں کے بارے میں زیادہ وضاحت کیے بغیر ان واقعات کا اعتراف کیا۔

اڑن طشتریں یا یو ایف او کی تفتیش ایک اہم معاملہ بن چکا ہے جس پر دونوں اطراف کے اراکین نے فوج سے شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔

2022 میں بھی ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی نے پینٹاگون کے خفیہ پروگرام پر ایک اجلاس منعقد کیا تھا جبکہ ناسا نے اسی سال جون میں اسی معاملے پر ایک عوامی اجلاس منعقد کیا تھا۔

سابق صدر باراک اوبامہ اور ڈونلڈ ٹڑمپ بھی مختلف انٹرویوز میں اس موضوع پر بات کر چکے ہیں۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ ’ہم مانتے ہیں کہ بحریہ اور فضائیہ کے پائلٹ فضا میں ناقابل فہم تجربات کر چکے ہیں لیکن ہمارے پاس ان کے بارے میں کوئی جواب موجود نہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ