ٹیکسٹائل مصنوعات کے شعبے میں پاکستانی برآمدات میں اضافہ: امریکی منڈی تک رسائی کی دوڑ میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سے آگے کیسے نکلا؟
- تنویر ملک
- صحافی، کراچی
’میری فیکٹری میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی امریکہ کو برآمد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اس مالی سال کے پہلے چھ ماہ کی برآمدات کو دیکھا جائے تو یہ اضافہ 50 فیصد کے لگ بھگ ہے۔‘
کراچی میں ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات کے برآمد کنندہ جاوید بلوانی کا مزید کہنا ہے کہ برآمدات میں اضافے کا یہ رجحان گذشتہ کئی ماہ سے برقرار ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اُن کی کمپنی کے علاوہ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کے شعبے میں امریکہ کو مال برآمد کرنے والی دوسری پاکستانی کمپنیوں کی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایک ٹیکسٹائل مل کے مالک یاسین صدیق نے بتایا کہ اُن کے کارخانے میں تیار ہونے والا یارن امریکہ برآمد کیا جاتا ہے اور اگر اس مالی سال کے پہلے چھ مہینوں کو لیا جائے تو ان کی مل سے امریکہ برآمد کیے جانے والے یارن کی ایکسپورٹ میں تقریباً 25 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
جاوید بلوانی اور یاسین صدیق کی امریکہ کو بھیجی جانے والی برآمدات میں اضافے کا مجموعی اثر پاکستان کی امریکہ کی جانب برآمدات میں بھی دیکھنے میں آیا جو پاکستان کی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹڈاپ) کے مطابق نمایاں اضافے کے ساتھ بلند سطح کی جانب گامزن ہیں۔
پاکستان میں وزیرِ اعظم کے مشیر تجارت رزاق داؤد کے مطابق امریکہ پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے جو صرف دسمبر کے مہینے میں 60 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔
یہ جاننے سے قبل کہ پاکستان کی برآمدات میں کتنا اضافہ ہوا اور انڈیا کی برآمدات اس دورانیے میں کس حد تک متاثر ہوئیں، پہلے یہ پڑھیے کہ پاکستان امریکہ کو کون سی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔
امریکہ کو کیا برآمد کیا جاتا ہے؟
پاکستان سے امریکہ کو مخلتف مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں تاہم ان برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کا ہے۔ جاوید بلوانی کا کہنا ہے کہ پاکستان سے امریکہ جانے والی مصنوعات میں سب سے زیادہ ہوم ٹیکسٹائل کی مصنوعات شامل ہیں۔
ہوم ٹیکسٹائل کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے ملبوسات اور یارن بھی بڑی مقدار میں امریکہ برآمد کیا جاتا ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) ساؤتھ زون کے چیئرمین آصف انعام نے بتایا کہ امریکہ کو برآمد کی جانے والی ٹیکسٹائل کی تقریباً ساری مصنوعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کو پاکستان سے برآمد کی جانے والی مصنوعات میں اضافے کے ساتھ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینے میں 15 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی گئی ہیں۔
کیا انڈیا اور بنگلہ دیش کے ایکسپورٹ آرڈرز پاکستان کو ملے؟
امریکی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کی برآمد کا رجحان گذشتہ مالی سال سے دیکھنے میں آ رہا ہے اور یہ تسلسل سے اب تک برقرار ہے۔
ٹیکسٹائل برآمد کنندہ اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے انڈیا اور بنگلہ دیش مکمل طور پر بند ہو گئے تھے تو پاکستان میں انڈسٹری کام کر رہی تھی۔
امریکی مارکیٹ کو اس وقت سپلائی چاہیے تھی جو انڈیا اور بنگلہ دیش کے بند ہونے کی وجہ سے پوری نہیں ہو پائی تو بین الاقوامی خریداروں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ ایک بار امریکی خریدار نے پاکستان کی مارکیٹ کا رُخ کیا تو اس کے بعد وہ ابھی تک پاکستان کو آرڈرز دے رہے ہیں۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ مالی سال کی شروعات میں ملک کی برآمدات میں یا تو منفی گروتھ تھی یا بہت ہی کم اضافہ دیکھا گیا۔
اپیرل یعنی ملبوسات اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں تجارت سے متعلق ویب سائٹ ’اپیرل ریسورسز‘ کی گذشتہ سال کے اوائل میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اپیرل کی امریکہ برآمدات میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
انڈیا کی ’ٹیکسٹائل ایکسیلینس‘ ویب سائٹ کے مطابق 21-2020 میں انڈین ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میںں نو فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی ٹیکسٹائل برآمدات کی سب سے بڑی مارکیٹ امریکہ تھی تاہم زیر جائزہ سال میں انڈیا سے امریکہ کو ٹیکسٹائل کی برآمدات میں مجموعی طور پر تین فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جن میں اپیرل کے شعبے میں امریکہ کو کی جانے والی برآمدات میں 29 فیصد اور خواتین کے ملبوسات کی برآمدات میں 26 فیصد اور اسی طرح نٹ وئیر میں بھی کمی دیکھی گئی۔
پاکستان میں ستمبر 2020 کے مہینے میں برآمدات میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا جب اس مہینے میں برآمدات سات فیصد کے حساب سے بڑھنی شروع ہوئیں۔
یہ وہی وقت تھا جب ہندوستان اور بنگلہ دیش میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتیں بند تھیں اور ایکسپورٹ آرڈرز پاکستان کی طرف آنے شروع ہوئے۔
دسمبر 2020 میں اس میں مزید اضافہ ہوا اور یہ اضافہ 20 فیصد تک چلا گیا اور آنے والے مہینوں میں بھی اضافے کی شرح مزید بلند ہوئی۔
گذشتہ مالی سال میں مجموعی برآمدات میں اضافہ 18 فیصد تھا اور اس میں صرف امریکہ کو برآمدات میں 17 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔
یہ اضافہ موجودہ مالی سال میں بھی جاری ہے اور اس سال کے پہلے چھ ماہ میں امریکہ جانے والی برآمدات میں اضافہ 40 فیصد سے زائد ہے۔
موتی والا نے بتایا کہ عالمی منڈی میں ایک خریدار بڑی مشکل سے اپنا سپلائر تبدیل کرتا ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں جب کورونا وائرس کی وجہ سے صنعت مکمل بند ہو گئی تھی تو اس وقت پاکستان کی طرف رجوع کرنے والے خریدار ابھی تک پاکستان کو ہی اپنے آرڈرز دے رہے ہیں اور فی الحال وہ دوبارہ انڈیا اور بنگلہ دیش کی طرف نہیں گئے کیونکہ پاکستان امریکہ میں برآمدات کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے۔
جاوید بلوانی نے اس سلسلے میں کہا کہ پاکستان کی برآمدات بڑھنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ امریکی مارکیٹ میں جب مصنوعات کی ڈیمانڈ بڑھی تو اس وقت پاکستان کا برآمدی شعبہ کام کر رہا تھا اور اس نے اس طلب کو پورا کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ جب امریکہ میں لاک ڈاؤن لگا اور امریکی گھروں میں بند ہو کر رہ گئے تو امریکہ نے اپنے شہریوں کو بڑی امداد دی۔
جاوید نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے اپنے شہریوں کو دیا جانے والا پیکچ اربوں ڈالر پر مشتمل تھا جس کی وجہ سے ان کی قوتِ خرید بڑھی اور گھروں میں رہنے کی وجہ سے ہوم ٹیکسٹائل اور مرد و خواتین کے کپڑوں کی طلب بھی بڑھی اور اس طلب کو پاکستان کے برآمدی شعبے نے پورا کیا۔
انھوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد بھی طلب برقرار رہی اور دنیا بھر سے امریکہ پہنچنے والا مال اتنی بڑی تعداد میں پہنچا کہ اس نے امریکی بندرگاہوں کو جام کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے
بلوانی نے کہا کہ امریکی مارکیٹ یورپ کے مقابلے میں اگرچہ کم قیمت کی مارکیٹ ہے تاہم وہاں پاکستان سے برآمد کی جانے والی مصنوعات کی کھپت زیادہ ہے۔
برآمد کنندہ یاسین صدیق نے کہا کہ ’بلاشبہ یہ کریڈٹ وزیرِ اعظم عمران خان کو جاتا ہے جنھوں نے دباؤ کے باوجود ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں لگایا اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا کی وبا سے نمٹنے کا اعلان کیا۔‘
چین، امریکہ تنازع نے پاکستان کے برآمدی شعبے کو کیسے سہارا دیا؟
پاکستان سے امریکہ جانے والی مصنوعات اور اس میں اضافے کو پاکستان کا برآمدی شعبہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تنازع اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر امریکہ کے تحفظات سے بھی جوڑتا ہے۔
آصف انعام کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تنازع کی وجہ سے جب امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر تجارتی ڈیوٹی بڑھائی گئی تو اس کا فائدہ بھی کچھ حد تک پاکستان کو ہوا۔
پاکستان کے ٹیکسٹائل کے شعبے نے اس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جب امریکہ کی مارکیٹ میں ان اشیا کی طلب کو پاکستانی ٹیکسٹائل شعبے نے پورا کیا۔
یاسین صدیق کہتے ہیں کہ سنکیانگ صوبے میں چین کی ٹیکسٹائل صنعت کا ایک بڑا حصہ کام کر رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ چین کے کپاس پیدا کرنے والے بڑے خطوں میں شامل ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ بچوں سے مزدوری کروانے پر بھی تحفظات ہیں اور وہ اس خطے سے تعلق رکھنے والی چینی مصنوعات کو کم کرنا چاہتا ہے۔
ان مصنوعات میں بڑا حصہ ٹیکسٹائل کا ہے اور ان پر امریکہ کی جانب سے مختلف پابندیوں نے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو بہت فائدہ دیا ہے جس کے باعث پاکستان کی امریکہ جانے والی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
’امریکہ سنکیانگ میں پیدا ہونے والی کپاس اور اس سے تیار مصنوعات پر انحصار ختم کرنا چاہتا ہے‘
داخلی پالیسیوں کس حد تک اثرانداز ہوا؟
پاکستان کا برآمدی شعبہ جہاں ایک جانب علاقائی اور عالمی حالات کی وجہ سے امریکہ میں زیادہ برآمدات کرنے میں کامیاب ہوا تو دوسری جانب داخلی پالیسیوں نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔
برآمدی شعبے کے افراد کے مطابق حکومت کی جانب سے اس شعبے کو کافی مدد ملی جیسا کہ توانائی کے نرخوں میں برآمدی شعبے کو ریلیف دیا گیا تو اسی طرح کم شرح سود پر برآمدی شعبے کو توسیع اور جدت سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی مرکزی بینک کی جانب سے قرضے فراہم کیے گئے۔
زیبر موتی والا نے بتایا کہ دیگر عوامل کے علاوہ پاکستانی مصنوعات کا معیار بھی بہت بہتر رہا ہے جس کہ وجہ اس شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگر گذشتہ ڈیڑھ دو سال کو لیا جائے تو برآمدی شعبے میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جس سے اس شعبے میں ناصرف توسیع ہوئی بلکہ جدید مشینری کی وجہ سے اس کی کوالٹی بھی بہتر ہوئی۔
آصف انعام نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ابھی تک تو ایکسپورٹ بڑھ رہی ہیں تاہم پاکستان میں گیس کی کمی کے مسائل برآمدی شعبے کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور اس کے باعث خدشہ ہے کہ امریکہ کو جانے والی برآمدات میں اضافے کا تسلسل کہیں رک نہ جائے۔
Comments are closed.