بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

امریکی فوج کی واپسی: افغانستان میں ’خانہ جنگی‘ کا خوف کیوں؟

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات: امریکی فوج کی واپسی سے افغانستان میں ’خانہ جنگی‘ کا خوف کیوں؟

  • ہارون رحمانی اور طارق عطا
  • بی بی سی

امریکہ، افغانستان، طالبان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکہ نے 11 ستمبر تک اپنی افواج افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کیا ہے

امریکہ نے 11 ستمبر سے اپنی افواج افغانستان سے نکال لینے کا اعلان کیا ہے۔

امریکہ اور نیٹو کی افواج کے 11 ستمبر تک افغانستان سے انخلا کے اعلان نے تشویش، پریشانی اور خوف کی فضا پیدا کردی ہے۔ یہ ایسی فضا ہے جس کا سنہ 1989 میں بھی سابق سوویت فوجوں کے انخلا کے موقع پر افغانستان کو سامنا کرنا پڑا تھا۔

تاہم افغان صدر اشرف غنی نے اس بارے میں پیدا ہونے والی تشویش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ ملک کی دفاعی افواج مکمل طور پر ‘اپنے عوام کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔’

اسی طرح افغانستان کی ملی مصالحتی کونسل کے چیئرمین اور اشرف غنی کے حریف عبداللہ عبداللہ کہتے ہیں کہ طالبان کی یہ ‘سنگین غلطی ہوگی اور حالات کا غلط اندازہ ہوگا’ اگر انھوں نے انخلا کے بعد اقتدار پر جنگ کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان سے انخلا کا اعلان افغان امن کے عمل اور شورش پر قابو پانے کی حکومتی حکمت عملی کو متاثر کرسکتا ہے۔

امن مذاکرات کی بے یقینی

امریکی صدر کا 14 اپریل کے اس اعلان نے افغان امن عمل کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے 11 ستمبر تک نکل جائیں گی۔

اس سے قبل دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پایا تھا کہ یہ تاریخ یکم مئی ہوگی۔

امریکہ، افغانستان، طالبان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ کو زبردستی انخلا پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔

ایک جانب تو اس اعلان نے اُس امن کے عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے جس کا ڈونلڈ ٹرمپ نے آغاز کیا تھا کیونکہ امریکہ یکم مئی کی حتمی تاریخ کے وعدے کو پورا نہیں کر پایا۔

جبکہ دوسری جانب اس کی وجہ سے طالبان قیادت اور اتحادی افواج کی جانب سے جنگ بندی کی مشترکہ حمایت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی کے چیف آف سٹاف عبدالکریم خرم نے کہا کہ ‘عمومی طور پر جاری امن قائم کرنے کا عمل اور خاص طور پر استنبول میں جاری امن مذاکرات کے لیے یہ اعلان ایک دھچکا ہے۔ چاہے امن کا مکمل عمل خطرے میں نہ پڑا ہو، اب کم از کم اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں پیدا ہوں گی اور اس میں تاخیر بھی ہو گی۔’

توقع تھی کہ اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی طالبان اور افغان حکومت کے نمائندے 24 اپریل سے لے کر 4 مئی تک استنبول میں امن مذاکرات کے لیے جمع ہوں گے۔ لیکن غیر ملکی افواج کی واپسی میں تاخیر پر طالبان کے ردعمل نے اس کانفرنس سے وابستہ تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

افغان طالبان کے سیاسی امور کے ترجمان محمد نعیم نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ‘جب تک تمام غیر ملکی فوجیں ہمارے وطنِ عزیز سے واپس نہیں چلی جاتیں، اسلامی امارات (طالبان کی قیادت) کسی ایسی کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گی جو افغانستان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے۔’

خانہ جنگی اور تشدد پھیلنے کا خوف

افغان افواج پُر تشدد عناصر کے خلاف کارروائیوں کے دوران بہت حد تک فضائی مدد پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ ایسے میں امریکی فوج کا انخلا طالبان کے لیے ایک بڑی خوشخبری ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی پچھلی حکومت کہا کرتی تھی کہ ان کی افواج کا انخلا مشروط ہوگا، تاہم اس مرتبہ جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ ‘مثالی حالات کی امید میں افغانستان میں فوجوں کی توسیع اور مزید دستوں کی تعیناتی کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتا۔’

اگرچہ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ انخلا کی ایک تاریخ کا تعین کرنے سے امن قائم کرنے کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں، تاہم کچھ دیگر مبصرین کا خوف ہے کہ اس سے خانہ جنگی پھوٹ سکتی ہے۔

اُن کے مطابق طالبان کسی بھی شراکتِ اقتدار کے فارمولے کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور وہ اقتدار پر طاقت اور تشدد کے ذریعے قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

امریکہ، افغانستان، طالبان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کابل کے کچھ علاقے سنہ نوے کی دہائی کی خانہ جنگی میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے

افغان امن کونسل کے سابق نائب سربراہ قاضی امین واحد کہتے ہیں کہ ‘طالبان اقتدار پر مکمل قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اقتدار میں کسی کی شراکت نہیں چاہتے۔’

چند سابق جنگجو جنھوں نے سابق سوویت فوجوں کے خلاف اور طالبان کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا، انھوں نے یہاں تک انتباہ دیا ہے کہ اگر حکومت طالبان کے خلاف مزاحمت نہ کر پائی تو وہ خود ہتھیار اٹھا لیں گے۔

ہرات کے سابق جنگجو اسماعیل خان کہتے ہیں کہ ‘اگر امن مذاکرات سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی، اور خدا نخواستہ چند بڑے شہر طالبان کے قبضے میں چلے جاتے ہیں، تو پھر ہم اپنے ملک کا اُسی طرح دفاع کریں گے جس طرح ہم نے 40 برس کیا تھا۔’

یہ اعلان عین اُس وقت ہوا ہے جب موسمِ بہار کے آغاز پہر طالبان اپنی سال بھر کی فوجی حکمتِ عملی کا اعلان کرتے ہیں۔

افغان امن عمل پر مذاکرات جاری رہنے کی وجہ سے طالبان نے گذشتہ برس اپنی سالانہ فوجی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا تھا اور نہ ہی انھوں نے اس برس ایسا کوئی اعلان جاری کیا۔ تاہم طالبان نے بائیڈن کے اعلان کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جس کی وجہ سے یہ خوف پیدا ہو رہا ہے کہ لڑائی میں تیزی آئے گی اور طالبان شاید یکم مئی کی حتمی تاریخ کے بعد افغان اتحادی افواج پر براہ راست حملوں کا آغاز کر دیں۔

طالبان کے ایک اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ‘اگر غیر ملکی افواج مخصوص تاریخ تک ملک سے انخلا کرنے میں ناکام ہوتی ہیں تو یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا اور جو اس معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں وہی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔’

افغان پارلیمان کے سپیکر میر رحمان رحمانی نے کہا ہے کہ ‘افغانستان عالمی دہشت گردی کی آماجگاہ بن جائے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ غیرملکی افواج کا انخلا مشروط ہونا چاہیے۔’

طالبان کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی جنگ کی وجہ صرف امریکی افواج کا افغانستان پر ‘قبضہ’ ہے۔ البتہ جب طالبان نے سنہ 2020 میں واشنگٹن میں امن معاہدے پر دستخط کیے تھے تو انھوں نے اُس وقت ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اُن کی افغان حکومت کے خلاف جنگ ‘جائز’ ہے اور افغان حکومت ایک ‘کٹھ پُتلی حکومت‘ ہے۔

اگر طالبان اس موقف پر قائم رہتے ہیں کہ جب تک وہ ملک میں ایک ‘خالص’ حکومت، یعنی ایک اسلامی حکومت، بنا نہیں لیتے ہیں، اور اگر امریکہ فریقین کو پابند بنانے والے امن معاہدے کے بغیر افغانستان سے نکل جاتا ہے تو ملک میں تصادم جاری رہے گا اور زیادہ امکان ہے کہ حالات اور بھی زیادہ خراب ہوں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.