جرمن پارلیمنٹ کی رکن نے کہا ہے کہ امریکی فوجیوں کے گھر جانے کا وقت آگیا ہے۔
رکن پارلیمنٹ سیوم ڈاگڈلین نے کہا کہ 78 برس بعد اب وقت آگیا ہے کہ امریکی فوجی گھر جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام دوسرے اتحادی بہت عرصہ پہلے ہی جرمنی چھوڑ چکے ہیں۔
31 مارچ کو جرمن پارلیمنٹ میں ’مارشل پلان‘ کی 75 ویں سالگرہ منائی گئی تھی۔
اس موقع پر خاتون رکن نے کہا کہ امریکا کے جوہری ہتھیار بھی یہاں نہیں ہونے چاہئیں۔
واضح رہے کہ 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کی درجنوں بیسز اور دیگر عسکری تنصیبات میں ساڑھے 38 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔
رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی پر جرمنی کی تابعدارانہ روش ختم ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی جنگ، عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور حکومتوں کے دھڑن تختے سے عبارت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت یہ تاثر دیتی ہے کہ انہیں اتحادی نہیں صرف وفادار خادم چاہئیں، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس خواہش کو دنیا کے بہت کم ممالک قبول کرتے ہیں۔
رکن پارلیمنٹ سیوم نے کہا کہ امریکی فوجی اڈے علاقہ غیر کی طرح ہے جہاں جرمن آئین کا نفاذ نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جرمنی کی سرزمین پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکا کو اس کی جنگوں، جان لیوا ڈرون حملوں میں معاونت دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا ہماری رام اشٹائن ایئربیس پر کانفرنس کی میزبانی ایسے کرتا ہے جیسے اب بھی ہم زیر قبضہ ہوں۔
رکن پارلیمنٹ نے یاد دلایا کہ ایک وقت تھا جب پارلیمنٹ میں آج سے زیادہ ہمت تھی، 2010 میں پارلیمان نے امریکی جوہری ہتھیاروں کو جرمنی سے نکالنے کیلئے قرارداد منظور کی لیکن اسے نافذ نہیں کیا جاسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ برلن اپنی جمہوری خودمختاری کا دفاع کرے، 20 سال بعد بھی آج تک وفاقی حکومت عراق پر امریکی جارحیت کی مذمت نہیں کرسکی۔
انہوں نے وزیر خارجہ اینالینا بیربوک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اب تک وکی پیڈیا کے بانی جولین اسانج کی رہائی کیلئے لابنگ کیوں نہیں کر رہیں؟ آپ منحرف ایڈورڈ اسنوڈن کو جرمنی میں پناہ کی پیشکش کیوں نہیں کرتیں۔
Comments are closed.