امریکی صدور شاہی تاجپوشی کی تقاریب میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟
- مصنف, چیلسی بیلے
- عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کہا کرتے تھے کہ امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ’خصوصی رشتہ‘ ہے جو اب ایک عرصے سے قائم ہے پھر بھی آج تک کسی بھی امریکی صدر نے شاہی تاج پوشی کی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ کیا یہ روایت دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی عکاسی کرتی ہے یا اس کی وجہ بہت معمولی ہے؟
بادشاہ چارلس کی تاج پوشی کی تقریب صدیوں سے چلی آنے والی روایات کا مظہر ہو گی۔ بادشاہ ہزاروں افراد کے سامنے ویسٹ منسٹر ایبے میں حلف اٹھائیں گے تاہم متعدد اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان ایک چہرہ نظر نہیں آئے گا اور وہ امریکی صدر جو بائیڈن کا ہو گا۔
وائٹ ہاؤس نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں مدعو کیا گیا تھا تاہم بادشاہ چارلس کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اس تقریب میں خاتونِ اول جل بائیڈن اور ایک خصوصی سفارتی نمائندے کو بھیجیں گے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے بائیڈن کی غیر موجودگی کے بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی لیکن یہ کہا کہ صدر نے ’مستقبل کی کسی تاریخ پر برطانیہ میں بادشاہ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔‘
تاج پوشی کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کنزرویٹو ممبر پارلیمان باب سیلی نے ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کی جانب سے تاجپوشی کی تقریب میں شرکت نہ کرنا ’لاپرواہی کا مظاہرہ‘ ہے اور یہ ایک ’زندگی میں ایک مرتبہ آنے والی تقریب ہے۔‘
ڈیلی میل کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر رسل میئرز نے سکائی نیوز کو بتایا کہ صدر کی غیر موجودگی ان کی ’آئرش جڑوں کے باعث ہو سکتی ہے جس پر وہ بہت فخر کرتے ہیں۔‘
میئرز کا کہنا تھا کہ ’مجھے کبھی بھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ اس تقریب میں شرکت کرنے کے لیے آئیں گے۔‘
تاہم تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ یہ امریکی صدور کی صدیوں سے چلی آنے والی روایت کی وجہ سے ہے جس کے تحت وہ تاجپوشی کی تقریب میں نہیں آتے۔
صدر آئزن آور کی تقریبِ تاج پوشی میں غیر موجودگی کے باعث ان کے برطانیہ اور شاہی خاندان سے تعلق میں کوئی کمی نہیں آئی
’یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں‘
امیریکن یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسرلارا بیئرز کہتی ہیں کہ ’میں اسے صدر بائیڈن کی طرف سے برطانیہ کو ’نظر انداز کرنے‘ کے طور پر نہیں دیکھتی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ اس آئیڈیا کے اعتبار سے تو بالکل غلط ہے کہ بائیڈن برطانیہ مخالف ہیں۔ وہ اس لیے نہیں جا رہے کیونکہ آج تک کوئی امریکی صدر تاجپوشی کی تقریب پر نہیں گیا۔ تو اب 21ویں صدی میں اس روایت کو کیوں شروع کیا جائے۔‘
بیئرز کے مطابق ملکہ وکٹوریہ کے دورِ اقتدار سے قبل امریکہ اور برطانیہ کے روابط میں تناؤ تھا، خاص طور پر 1812 کے امریکی انقلاب کے بعد۔ ملکہ وکٹوریہ جب شاہی خاندان کی سربراہ بنیں تو اس کے ساتھ ہی ’وکٹوریہ فیور‘ اور امریکیوں کی برطانوی شاہی خاندان سے محبت کا آغاز ہوا تاہم تب بھی صدر مارٹن وان بیورن نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔
بیئرز کا کہنا تھا کہ ’ایسے میں کسی امریکی صدر کا یہاں آنا پریکٹیکل نہیں تھا اور اس کے بعد سے بس یہ ایک روایت بن گئی۔‘
رائل ہسٹوریکل سوسائٹی کے ساتھ فیلو اور مؤرخ ٹرائے برکمین کا کہنا تھا کہ سنہ 1939 میں بین الاقوامی فضائی سفر کے آغاز سے قبل بیرونِ مک دوروں پر جانا محفوظ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ملکہ نے صدر آئزن آور اور ان کے خاندان کو نیم سرکاری دورے پر بالمورل میں اپنے شاہی گھر میں دعوت دی تھی
آئزن آور اور ایلزبتھ
مؤرخین کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کے روابط میں فیصلہ کن موڑ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر آیا۔ جنگ کے دوران بادشاہ جارج ششم اور ان کی بیٹی شہزادی وکٹوریہ نے ڈوائٹ ڈی آئزن آور کے ساتھ رشتہ استوار کیا۔
آئزن آور ان دنوں اتحادی فوجوں کے سپریم کمانڈر کے طور پر لندن میں تعینات تھے اور ’آپریشن اوورلوڈ‘ کی نگرانی کر رہے تھے۔
آئزن آور بعد میں 34ویں امریکی صدر منتخب ہوئے تو بادشاہ جارج ششم کی وفات کو چند ماہ گزر چکے تھے اور شہزادی الزبتھ اب ملکہ بن چکی تھیں تاہم ان کے برطانیہ کے ساتھ قریبی روابط کے باوجود آئزن آور نے تاج پوشی کی تقریب میں اپنا خصوصی نمائندہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
مؤرخ سیم ایڈورڈز کے مطابق اس وقت امریکہ کوریائی جنگ میں پھنسا ہوا تھا اور صدر آئزن آور کی واشنگٹن میں موجودگی ضروری ہو گی۔
صدر آئزن آور کی تقریبِ تاج پوشی میں غیر موجودگی کے باعث ان کے برطانیہ اور شاہی خاندان سے تعلق میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اکتوبر 1957 میں امریکہ نے ملکہ الزبتھ دوئم کو پہلے سرکاری دورے پر خوش آمدید کہا۔ دو سال بعد ملکہ نے صدر آئزن آور اور ان کے خاندان کو نیم سرکاری دورے پر بالمورل میں اپنے شاہی گھر میں دعوت دی تھی۔
ایک ملکہ اور 14 صدور
برطانیہ کی سب سے زیادہ مدت کے لیے شاہی خاندان کی سربراہ رہنے والی ملکہ الزبتھ دوئم کے دور میں 14 امریکی صدور بدلے اور اس دوران ان کی صرف ایک صدر سے دوران اقتدار ملاقات ہوئی۔ اس دوران تین امریکی صدور نے برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا جبکہ ملکہ برطانیہ نے چار مرتبہ امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔
صدر بائیڈن نے بظاہر اس روایت کو نہ توڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے تاج پوشی کی تقریب کے لیے خصوصی نمائندہ بھیجا ہے۔
صدر بائیڈن نے نے بادشاہ چارلس کی جانب سے سرکاری دورے کی دعوت پہلے ہی قبول کر رکھی ہے تاہم اس حوالے سے حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
اس سے بالاتر کہ کون تاج پوشی کی تقریب میں شریک ہوتا ہے، ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ بادشاہ چارلس دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک نئے عزم کی ترجمانی کریں گے۔
تاجپوشی کی تقریب میں شرکت ’بہرحال اس رشتے کو مکمل کرنے میں کلیدی حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔‘
Comments are closed.