امریکی سپریم کورٹ کا ٹرمپ کی میکسیکو سرحد پالیسی برقرار رکھنے کا حکم: ’میرا دل ٹوٹ گیا ہے، گھر والوں سے مزید دور رہنا پڑے گا‘
امریکی سپریم کورٹ کا ٹرمپ کی میکسیکو سرحد پالیسی برقرار رکھنے کا حکم: ’میرا دل ٹوٹ گیا ہے، گھر والوں سے مزید دور رہنا پڑے گا‘
- مصنف, برنڈ ڈیبسمین جونئیر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکہ کی سپریم کورٹ نے امریکہ میکسیکو سرحد سے متعلق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کی ایک متنازع پالیسی کو فی الحال برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت کے نو ججز میں سے پانچ نے اس فیصلے کے حق می جبکہ چار نے اختلاف میں ووٹ دیا ہے۔
’ٹائٹل 42‘ نامی ٹرمپ دور کی یہ پالیسی حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ داخلے کے خواہاں غیر دستاویزی تارکین وطن کو ملک بدر کر دے۔ اس پالیسی سے ہزاروں لوگ سرحد عبور کرنے سے محروم ہو گئے تھے۔
خیال رہے کہ اس پالیسی میں کسی نرمی کی صورت میں سرحد پر تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔
اب امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے یہ کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر عمل کرے گی۔ تاہم انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی میں اصلاحات پر زور دیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم سرحد کو محفوظ، منظم اور انسانی طریقے سے منظم کرنے کے لیے اپنی تیاریوں کو آگے بڑھا رہے ہیں جب ٹائٹل 42 بالآخر ختم ہو جائے گی اور امیگریشن کے لیے قانونی طریقوں میں اضافے جیسے اقدامات اٹھانا جاری رکھیں گے۔‘
لوزیانا سے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بل کیسیڈی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ٹائٹل 42 کو ہٹانے سے ہمارا سرحدی بحران مزید خراب تر ہو جاتا اور وائٹ ہاؤس ایسا ہونے دینے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’سپریم کورٹ کو اس کے تحفظ کے لیے قدم اٹھاتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی، لیکن ہمیں مستقل حل کی ضرورت ہے۔‘
میکسیکو کے سرحدی شہر تیجوانا میں وینزویلا کے ایک مہاجر میگوئیل کولمنراز نے کہا ہے کہ ’اس فیصلے نے میرا دل توڑ دیا ہے، اب اس کے بعد ہمیں اور بھی انتظار کرتے رہنا ہے۔‘
27 برس کے میگوئیل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اب میں کیا کروں گا، میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے اور میرا خاندان میرا انتظار کر رہا ہے۔‘
واضح رہے کہ ٹائٹل 42 پالیسی – مارچ 2020 سے تقریباً 2.5 ملین بار لاگو کی گئی۔ یہ پالیسی 21 دسمبر کو ختم ہونے والی تھی لیکن آخری تاریخ سے دو دن پہلے چیف سپریم کورٹ جسٹس جان رابرٹس نے اسے ختم کرنے سے روک دیا۔
واضخ رہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ریپبلکن جماعت کی اکثریت والی چند ریاستوں کی ہنگامی اپیل پر سنایا گیا۔ اس اپیل میں ان امریکی ریاستوں نے ٹرمپ دور کی پالیسی کو برقرار رکھنے کی استدعا کی تھی۔
منگل کو سپریم کورٹ کے جسٹس رابرٹس کی طرف سے حکم امتناعی میں توسیع کے لیے 5-4 سے فیصلہ دیا گیا۔ اب یہ مقدمہ تفصیل سے سنا جائے گا۔
اب سپریم کورٹ کے نو ججز زبانی دلائل سنیں گے کہ آیا ریاستیں پالیسی کے دفاع میں مداخلت کر سکتی ہیں۔ فروری یا مارچ 2023 میں اس پالیسی پر دلائل دیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس مقدمے کا فیصلہ جون کے آخر تک ہونا ہے۔
امریکہ میکسیکو سرحد
یہ بھی پڑھیے
یہ فیصلہ امیگریشن کارکنوں کے لیے ایک دھچکا ہوگا، جنھوں نے ٹائٹل 42 کو ختم کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا تھا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ لوگوں کو پناہ دینے کی بین الاقوامی فریضے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
تاہم ٹائٹل 42 کے حامیوں اور کئی سرحدی کمیونٹیز کے حکام نے دلیل دی کہ پالیسی کو اٹھانے سے سرحد پر آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، جس سے وسائل پر دباؤ پڑے گا۔
گذشتہ ہفتے دائر کی گئی عدالتی دستاویزات میں، سالیسٹر جنرل الزبتھ پریلوگر نے کہا کہ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ ٹائٹل 42 کے احکامات کا خاتمہ ممکنہ طور پر ’خرابی اور غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے جیسی سرگرمیوں میں عارضی اضافے کا باعث بنے گا۔‘
وہ مزید دلیل دیتی ہیں کہ ’حکومت کسی بھی طرح سے اس مسئلے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہے۔ لیکن اس امیگریشن کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہو سکتا کہ صحت عامہ کے اقدام کو غیر معینہ مدت تک بڑھایا جائے، جسے اب سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے عوامی صحت کے جواز کو ختم کر دیا گیا ہے۔‘
سرحد پر مقامی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ وہ پہلے سے ہی زیادہ بوجھ سے دبے ہوئے ہیں اور پناہ کے متلاشیوں کی اضافی آمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر ایل پاسو کے شہر ٹیکسان میں حکام نے گذشتہ ہفتے ہنگامی حالت کا اعلان کیا اور شہر کے کنونشن سینٹر میں پناہ کے متلاشیوں کی سڑکوں پر بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع منصوبے کے حصے کے طور پر 1,000 بستروں پر مشتمل عارضی پناہ گاہ قائم کی۔
گذشتہ ہفتے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہر کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی تعداد میں نمایاں اضافے کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوں گے جنھیں خوراک، پناہ گاہ اور امریکہ میں مزید ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنے میں مدد کی ضرورت ہے۔
ایل پاسوانس فائٹنگ ہنگر فوڈ بینک کی چیف ایگزیکٹو سوزن گوڈیل نے کہا کہ مقامی غیر سرکاری تنظیموں کو کہا گیا تھا کہ اگر ٹائٹل 42 کو ہٹا دیا گیا تو پھر اس تعداد میں مزید اضافے کی توقع کریں۔
Comments are closed.