ربیکا گرانٹ: ’امریکی سازش کا ثبوت‘ فراہم کرنے والی تجزیہ کار ربیکا گرانٹ کا بائیڈن انتظامیہ سے کیا تعلق ہے؟
- منزہ انوار
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کو ’امریکی سازش‘ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی اپنے آخری اجلاس میں کسی قسم کی سازش کی موجودگی کو یکسر مسترد کر چکی ہے تاہم اس کے باوجود عمران خان کا ماننا ہے کہ اُن کی حکومت ’امریکی سازش‘ کے باعث ختم ہوئی۔
تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل یعنی 27 مارچ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک ’سازشی خط‘ (جسے بعد میں انھوں نے سائفر یا سفارتی مراسلہ قرار دیا) کو لہرانے سے لے کر اب تک وہ گاہے بگاہے اس حوالے سے مختلف نوعیت کے ’ثبوت‘ دیتے نظر آتے ہیں۔
اپنے اِسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے گذشتہ روز (سوموار) عمران خان نے اس مبینہ ’سازش‘ کے ثبوت کے طور پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں امریکی نیوز چینل فوکس نیوز کے ایک پروگرام کے دوران امریکہ کی قومی سلامتی کی ایک ماہر ڈاکٹر ریبیکا نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’(پاکستان کو) چین سے تعلقات محدود کرنے ہوں گے اور امریکہ مخالف پالیسیوں کا سدباب کرنا ہو گا جس کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان (تحریک عدم اعتماد میں) ووٹ آؤٹ ہوئے۔‘
یہ ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ ’اگر کسی کو حکومت کی تبدیلی میں امریکی سازش کے بارے میں کوئی شبہ ہے تو یہ ویڈیو تمام شکوک و شبہات دور کر دے گی کہ ایک جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو کیوں ہٹایا گیا۔‘
عمران خان نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے سوال کیا ہے کہ ’22 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کو ہٹا کر ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم لانے کے لیے حکومت کی تبدیلی کی سازش میں ملوث ہو کر، کیا آپ کو لگتا ہے کہ کیا آپ نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو کم کیا یا بڑھایا؟‘
عمران خان کی اس ٹویٹ کے بعد تحریکِ انصاف کے رہنماؤں سے حامیوں تک سبھی ربیکا گرانٹ کے تجزیے کو تحریکِ انصاف کی حکومت گرانے کی ’امریکی سازش کا ثبوت‘ قرار دیتے نظر آ رہے ہیں۔
یاد رہے فاکس نیوز کا شمار ایسے چینلز میں ہوتا ہے جس کا جھکاؤ امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کی جانب ہے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چینل سے منسلک تجزیہ کار ربیکا گرانٹ کون ہیں اور کیا وہ امریکی حکومت کی نمائندہ ہیں؟ اور یہ بھی ان کے ایک تجزیے کو کیا ’ثبوت‘ کے طور پر پیش کرنا درست ہے؟
ربیکا گرانٹ کون ہیں؟
اپنی ٹویٹر بائیو میں ربیکا نے خود کو ’قومی سلامتی کی تجزیہ کار‘ لکھا ہے۔ وہ خود کو ’ائیر پاور کے متعلقہ معاملات کی مصنفہ، ملٹری آپریشنز اور ایرو سپیس ٹیک کے بارے میں رجحان رکھنے والی شخصیت اور فاکس نیوز کی کنرٹریبیوٹر‘ قرار دیتی ہیں۔
فاکس نیوز کی ویب سائٹ کے مطابق ربیکا مارچ 2022 سے فاکس نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ روس کے یوکرین پر حملے اور دیگر قومی سلامتی اور فوجی موضوعات پر تجزیہ دیتی ہیں۔
ربیکا گرانٹ ’آئی آر آئی ایس انڈیپنڈنٹ ریسرچ‘ کی صدر ہیں۔ یہ خواتین کی ملکیت میں چھوٹے پیمانے پر چلنے والا کاروبار ہے جو دفاع اور ایرو سپیس ریسرچ اور مشاورت میں مہارت رکھتا ہے۔
آئی آر آئی ایس کی ویب سائٹ کے مطابق گرانٹ اکثر فاکس نیوز، فاکس بزنس، دا سمتھسونین چینل، سی این این، ایم ایس این بی سی، او ایے این این جیسے چینلز اور ویٹرن ریڈیو وغیرہ پر قومی سلامتی کے ماہر کے طور پر نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر گرانٹ ائیر پاور اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے مختلف مقامات پر بطور مہمان مقرر لیکچر دیتی رہتی ہیں۔ وہ یو ایس اے ایف کی ایئر یونیورسٹی میں اور برطانیہ، اٹلی، ہالینڈ، آسٹریلیا اور ترکی کی فضائی افواج کے لیے بھی لیکچر دے چکی ہیں۔
انھوں نے ویلزلی کالج سے بی اے اور لندن سے لندن سکول آف اکنامکس سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی کی کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر گرانٹ کی پہلی نوکری سانتا مونیکا، کیلیفورنیا میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آر اے این ڈی کے ساتھ تھی جو عالمی پالیسی کے حوالے سے ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک ہے۔ انھوں نے پینٹاگون میں ایئر سٹاف پر تین سال گزارے ہیں جہاں وہ براہِ راست ایئر فورس کے سیکریٹری اور ایئر فورس چیف آف سٹاف کے لیے کام کرتی تھیں۔
ان کے پروفیشنل تجربے میں بطورِ نائب صدر، ڈی ایف آئی گورنمنٹ سروسز کے دفاعی پروگرامز اور لیکسنگٹن انسٹیٹیوٹ میں سینیئر فیلو کے طور پر ایک سال خدمات بھی شامل ہیں۔
امریکی حلقوں میں انھیں ٹرمپ حکومت کی حامی اور بائیڈن کی مخالف مانا جاتا ہے۔ وہ کئی ٹی وی چینلز پر ٹرمپ کے مسلمان ممالک پر سفری پابندیوں کی بارہا حمایت کر چکی ہیں۔
ڈاکٹر گرانٹ امریکی حکومت کی نمائندہ نہیں مگر ’پاکستان میں بڑا نام بننے والی ہیں‘
اب تک کے اپنے تمام پروفیشنل کیرئیر میں ڈاکٹر گرانٹ کسی بھی وقت میں امریکی حکومت کی نمائندہ نہیں رہیں۔ گرانٹ کے پاس حکومت کا نہ کوئی عہدہ ہے اور نہ وہ حکمران جماعت کی ترجمان ہیں۔
سوشل میڈیا پر کئی امریکی تجزیہ کاروں نے عمران خان کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھیں بتانے کی کوشش کی ہے کہ جس خاتون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ان کا بائیڈن انتظامیہ سے نا تو کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ماضی میں بھی کسی امریکی حکومت کا حصہ نہیں رہیں۔ ربیکا دائیں بازو کے حامی ہیں اور ان کے ذاتی خیالات بائیڈن انتظامیہ کی رائے نہیں ہو سکتے۔
واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر گرانٹ ایک پرائیویٹ ریسرچ فرم چلاتی ہیں۔ وہ امریکی حکومت کی نمائندہ نہیں ہیں لیکن جلد ہی وہ پاکستان میں ایک بڑا نام بن جائیں گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے کچھ حلقوں میں پاکستان کے بارے میں سخت خیالات پائے جاتے ہیں اور وہ اس ملک سے غیر حقیقی توقعات رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے ’امریکی حکومت کی سازش‘ ثابت نہیں ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس ٹویٹ پر سابق وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن فار ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد نے مائیکل سے سوال کیا کہ تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر گرانٹ نے یہ بات بغیر کسی وجہ کے کہی؟ وہ امریکی دفاعی تجزیہ کار ہیں اور یقیناً امریکی تھنک ٹینکس میں اس بارے میں خاصا مضبوط تاثر موجود ہو گا کہ عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے لیے امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، اگر ایسا نہیں ہے تو انھوں نے یہ ریمارکس کیوں دیے؟
مائیکل نے انھیں جواب میں لکھا ’احترام کے ساتھ، اس تجزیہ کار کی بات کو سچائی یا امریکی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا تعصب کی تصدیق کے مترادف ہے۔ اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں امریکی کردار کے بارے میں امریکی تھنک ٹینکس میں ایسا کوئی تاثر نہیں ہے جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ یہ محض ایک آزاد تجزیہ کار کی ذاتی رائے ہے۔‘
کوئنسی انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ فیلو ایڈم وائن سٹائن بھی پاکستان میں اپنے فالورز کو مخاطب کر کے لکھا کہ فاکس نیوز جس خاتون سے انٹرویو لے رہے ہیں اُن کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور فاکس نیوز نے بس خانہ پری کے لیے انھیں جگہ دے دی ہے۔
ربیکا کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ وہ کسی کی نمائندگی نہیں کرتیں اور کسی کے ترجمان نہیں ہیں۔
صحافی وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ربیکا گرانٹ کی رائے کو سازش کا ثبوت سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے 1973 کے آئین پر ٹی وی چینلز پر بیٹھے تجزیہ کاروں اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کسی ریٹائرڈ فوجی کے خیالات کو تاریخی حقیقت سمجھا جائے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’عمران خان کی سیاسی فراست کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ اس خاتون کی رائے پر اعتماد کر رہے ہیں جو بات کا آغاز ہی اس جملے سے کرتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے۔‘
اس حوالے سے واشنگٹن ڈی سی میں مقیم جنوبی ایشیائی امور کے ماہر، عزیر یونس کا کہنا ہے کہ فاکس دیکھتے ہوئے امریکی پالیسی کے بارے میں نتائج اخذ کرنا ایسا ہی ہے جیسے امریکہ پاکستانی چینیلز پر چند ’دفاعی تجزیہ کاروں‘ کو سُن کر پاکستان کی مغرب کے بارے میں پالیسیوں کے بارے میں نتائج اخذ کر لے۔
دوسری جانب جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اس کلپ کو ثبوت کے طور پر شیئر کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شریں مزاری جنھوں نے عمران خان سے پہلے یہ کلپ شیئر کیا تھا، لکھتی ہیں ’اس ویڈیو کے بعد اس امر کی وضاحت کے لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کیسے یہ سمجھتی ہے کہ جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے کوئی امریکی سازش کارفرما نہیں۔‘
انھوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو ٹیگ کر کے کہا کہ آپ کا ردِعمل ناگزیر ہے۔ آخر یہ پاکستان کی خودمختاری کا معاملہ ہے۔
Comments are closed.