امریکی جاسوس کس خفیہ بیماری کا شکار، کیا اس کے پیچھے روس ہے؟
مارک پولیمروپولوس اپنی بیماری کو اپنے روس کے دورے کے تناظر میں دیکھتے ہیں
وہ بالآخر یورپ اور یوریشیا میں خفیہ آپریشنوں کے قائم مقام چیف بننے والے تھے اور ماسکو کی کارروائیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والے تھے۔ ان کارروائیوں میں جن کی تفتیش انھیں کرنا تھی ان میں انگلینڈ کے شہر سالزبری میں سنہ 2018 میں سابق روسی جاسوس سرگئی سکریپل کو زہر دیے جانے کا واقعہ بھی شامل تھا۔
دسمبر سنہ 2017 میں انھوں نے ماسکو کا سفر کیا، لیکن یہ سفر خفیہ نہیں تھا۔ وہ روس اور اپنے ملک کے جاسوسوں کے مابین باقاعدہ ‘رابطے’ کا استعمال کرتے ہوئے روس کو دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ وہ کسی خفیہ مشن پر وہاں نہیں ہیں۔ روسی ان کی آمد کے خواہشمند نہیں تھے لیکن ان کی آمد کو قبول کرلیا۔
سفر کے آغاز میں ہی وہ بیمار ہوگئے۔ امریکہ واپس آنے کے بعد ان کا سر چکرانا تو بند ہو گیا لیکن دیگر علامات آج بھی برقرار ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: مجھے مسلسل تین سال تک سر کا درد (مائیگرین) ہوتا رہا اور وہ کبھی کم نہیں ہوا۔’
انھیں اس وجہ سے بھی شک پیدا ہوا کہ سنہ 2016 میں کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں کئی سفارت کاروں نے بھی ایسی ہی علامات کا ذکر کیا تھا۔ ان کے علاوہ چند کینیڈین سفارتکاروں کو بھی یہی شکایت تھی۔
بعض اوقات تیز آواز کا اچانک غلبہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے شدید درد ہوتا تھا جبکہ دوسروں کو سر پر دباؤ محسوس ہوتا ہے جس کے نتیجے میں چکر آنا اور سر درد کی کیفیت محسوس ہونے لگتی تھی۔ یہ حرکت کسی خاص جگہ سے کسی خاص سمت میں محسوس ہوتی تھی۔ یہی علامت بعد میں ‘ہوانا سنڈروم’ کہلائی۔
ہوانا میں امریکی سفارتخانے کا ابتدا میں خیال تھا کہ انھیں کسی ‘صوتی حملے’ کا نشانہ بنایا گیا ہے
‘ہوانا سنڈروم’ کی وجہ؟
ان کا کہنا ہے کہ ‘کیوبا میں امریکی سفارتکاروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میرے ساتھ ماسکو میں ہوا۔’
لیکن ہوانا سنڈروم کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔ مختلف لوگوں میں علامات مختلف ہوتی تھیں۔ کچھ لوگوں کا گمان تھا کہ یہ معاملے ایک سلسلے کا حصہ نہیں ہیں اور یہ کہ یہ کسی نفسیاتی بیماری کا نتیجہ ہیں۔
اس کے متعلق پہلا مکمل جائزہ دسمبر سنہ 2020 میں امریکی نیشنل اکیڈمیز آف سائنسز کی جانب سے سامنے آیا۔ اگرچہ طبی معلومات ٹکڑوں میں آ رہی تھیں لیکن ایک کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ علامات ‘پلس ریڈیو فریکوئنسی توانائی‘ کے اثرات سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے زہر اور نفسیاتی بیماری جیسے دیگر امکانات کو مسترد کر دیا۔
اس کمیٹی کی سربراہی کرنے والے سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ اے ریل مین نے کہا: ‘ہم نے ایک چھوٹے سے گروپ میں دیکھا کہ ان میں ان کی بیماریوں کے آغاز پر کچھ بہت ہی غیرمعمولی اور الگ الگ کلینیکل نتائج آئے تھے اور یہی نتائج ہمارے اپنے فیصلے کا باعث بنے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ معلوم کرنا کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے کمیٹی کے دائرہ اختیار میں نھیں تھا۔
جب سی آئی اے کے طبی عہدیداروں نے پولیمروپولوس کی ابتدائی طور پر سکریننگ کی تو انھیں بتایا گیا کہ ان کی علامات ہوانا میں بیمار پڑنے والے افراد سے مختلف ہیں اور انھوں نے دونوں کے مابین کسی لنک کو مسترد کردیا جس کی وجہ سے انھیں خفت محسوس ہوئی۔
وہ اس فرق کو اس بات پر محمول کرتے ہیں کہ لوگ مختلف طور پر متاثر ہوتے ہیں اور اس فرق کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان پر کس چیز کا استعمال کیا گیا۔ ایجنسی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘سی آئی اے کی اولین ترجیح ہمارے تمام افسران کی فلاح و بہبود رہی ہے اور وہ اب بھی ہے۔’
کیوبا سے باہر رونما ہونے والے واقعات
سنہ 2019 میں صحت کی خرابی کی وجہ سے ریٹائر ہونے پر مجبور ہونے کے بعد پولیمروپولوس نے اس مسئلے کو عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہو اور ایک سپیشلسٹ ہسپتال میں علاج و معالجہ ہو جس پر بالآخر اتفاق ہوگیا۔
ان کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے آپریشنل شعبہ نے اس معاملے کو مزید سنجیدگی سے اس وقت لیا جب یہ واضح ہو گیا کہ وہ واحد ممکنہ شکار نہیں تھے۔
رپورٹس سے پتا چلا کہ کم از کم نصف درجن دوسرے اہلکار بھی اسی طرح متاثر ہوئے اور ایسے معاملات اب بھی سامنے آ رہے ہیں۔ پولیمروپولوس کا کہنا ہے کہ ‘ایجنسی کے کئی دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اور بعد میں جو کچھ افسران متاثر ہوئے وہ کسی نہ کسی طور روسیوں کو پیچھے دھکیلنے کی مہم میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایسے بھی افسران ہیں جو خاموشی سے بیماری جھیل رہے ہیں۔’
مارک پولیمروپولوس کو بیماری کی وجہ سے قبل از وقت ریٹائر ہونا پڑا۔ یہاں وہ افغانستان کے ایک مشن میں نظر آ رہے ہیں۔
کچھ واقعات کیوبا یا روس کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً چین میں بھی رونما ہوئے ہیں۔ پولیمروپولوس کے معاملے پر پہلے پہل رپورٹ کرنے والی جی کیو میگزین نے کہا کہ سنہ 2019 کے آسٹریلیا کے دورے پر سی آئی اے کا ایک سینیئر عہدیدار متاثر ہوا (بعد میں آسٹریلوی میڈیا نے اس کی تصدیق کردی)۔ دوسرے کئی لوگ پولینڈ اور جارجیا میں بھی متاثر ہوئے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ وہ جب اگست سنہ 2019 میں لندن کے ایک ہوٹل کے کمرے میں تھے تو ان میں بھی وہی علامات پیدا ہوئیں، ان کے سر میں دباؤ بھی تھا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس سے برطانوی سکیورٹی حکام آگاہ تھے اگرچہ یہ واضح نہیں ہوا کہ واقعتاً وہاں کیا ہوا۔ اس معاملے پر لندن اور واشنگٹن کے مابین رابطہ بھی رہا حالانکہ برطانیہ کے دفتر خارجہ اور ڈیولپمنٹ دفتر نے بی بی سی سے کہا انھیں یہ علم نہیں کہ آیا ان کے سٹاف بھی اس کی زد میں آئے ہیں یا نہیں۔
برطانیہ کے ایک سابق انٹلیجنس اہلکار کا کہنا ہے کہ اگر اس میں روسیوں کی طرف سے اس طرح کے ارادے کا کوئی ثبوت مل جاتا ہے تو وہ ‘گیم چینجر’ ثابت ہوگا۔
کیا روسی مداخلت کا کوئی ثبوت ہے؟
ہوانا میں رونما ہونے والے ابتدائی واقعات کے سلسلے میں آنے والی میڈیا رپورٹس نے خفیہ شواہد اور کچھ ایسی خفیہ معلومات کی بنیاد پر روس کی جانب اشارہ کیا تھا جو ان کے ہاتھ آ گئی۔ ابھی حال ہی میں یہ اطلاعات بھی آئی ہیں کہ امریکی انٹلیجنس برادری نے موبائل ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ جہاں امریکی افسران متاثر ہوئے تھے اس کے آس پاس کہیں روسی انٹیلی جنس افسران تو نہیں تھے۔
پولیمروپولوس کا کہنا ہے کہ ‘یقینا یہ ایک بہت ہی دلچسپ معاملہ ہے جو یقینی طور پر اضافی توجہ کا حامل ہے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے وہاں سے جانے کے بعد یہ معلومات خفیہ معلومات کے بجائے عوامی معلومات پر مبنی ہیں۔
اس میں سے کوئی بھی امریکی حکومت کے لیے باضابطہ الزام لگانے کے لیے کافی نہیں تھا۔
ایک امکان یہ ہے کہ منفرد افراد کو نقصان پہنچانا کسی بڑے مقصد کا ضمنی نتیجہ ہے جو کہ سرد جنگ کے زمانے میں خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کے لیے مائکروویوز والے الیکٹرانک آلات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔
روس پر کام کرنے والے سی آئی اے کے سابق افسر جان سیفر کہتے ہیں کہ ‘روسی سکیورٹی سروسز ماسکو میں امریکی سفارت خانے کو مرتکز مائکروویو اور الیکٹرانک لہروں کی بھرمار کر دیتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کے پاس ایسی وینیں بھی تھیں جو لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے شہر کے گرد چکر لگا سکتی تھیں۔
ان کا خیال ہے کہ ماسکو سی آئی اے افسران کو حالیہ نقصان کا ذمہ دار ہے حالانکہ وہ ان کے حقیقی مقصد کے بارے میں یقین سے کچھ نہین کہہ سکتے ہیں۔ ماسکو میں خدمات انجام دینے والے سی آئی اے کے ایک دوسرے سابق افسر نے بھی کہا کہ ان کا خیال ہے کہ روسیوں نے توانائی سے براہ راست حملہ کیا ہے لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے دانستہ طور پر ایسا کیا تھا یا پھر ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا ضمنی اثر نقصاندہ ہو سکتا ہے۔
پولیمروپولوس کا کہنا ہے کہ انھیں پہلا خیال یہی گزرا کہ یہ کسی قسم کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن جو شواہد ہیں وہ یہ اشارہ کرتے ہیں کہ وہ دانستہ طور پر لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ‘جارحانہ ہتھیار’ کا استعمال کر رہے ہیں۔
چین میں امریکی اہلکاروں میں عجیب علامات پائی گئیں
کیا یہ قابل عمل ہے؟
ایک نظریہ یہ ہے کہ روس ہوانا میں امریکہ اور کیوبا کے مابین تعلقات میں کسی قسم کی بہتری کو روکنا چاہتا تھا کیونکہ کیوبا روایتی طور پر ماسکو کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ اور پھر اس نے پولیمروپولوس جیسے انٹلیجنس افسران کے خلاف اس کا استعمال کرنا شروع کیا جو کہ روس کے خلاف کام کر رہے تھے۔
لیکن یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی جس میں مخالف جاسوس اہلکاروں کو جسمانی طور پر نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے۔ تاہم سی آئی اے اور ایم آئی 6 کے سابق افسران نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ روسیوں نے روس میں ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے تابکار جاسوس دھول کی ایک قسم کا استعمال کیا ہے جس سے صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
پولیمروپولوس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ولادی میر پوتن کی سربراہی میں روس اپنی حدود کو بڑھانے کا خواہش مند ہے۔
اس کے جواب میں روسی وزارت خارجہ نے بی بی سی کو امریکی نیشنل اکیڈمیز آف سائنسز کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ: ‘ہمارے پاس ایسی معلومات نہیں ہیں کہ روس کے پاس ‘مائیکرو ویو ہتھیار’ ہیں ۔۔۔۔۔ اس طرح کی اشتعال انگیز، بے بنیاد اور غیر حقیقی قیاس آرائیاں ہمارے لیے اتنا سنجیدہ معاملہ نہیں ہیں کہ ان پر تبصرہ کیا جائے۔
پولیمروپولوس کی خواہش ہے کہ کانگریس کی کمیٹی اس کی تحقیقات کرے۔ کچھ سینیٹروں نے یہ معاملہ اٹھایا بھی ہے۔
بائیڈن کی نئی انتظامیہ نے روس کی ‘جارحانہ کارروائیوں’ کے جائزے کا اعلان کیا ہے جبکہ آنے والے سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے ‘ہوانا سنڈروم‘ کے بارے میں مزید معلومات کے تبادلے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ روس میں امریکہ کے سابق سفیر اور سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر بل برنس بھی اس میں گہری دلچسپی لے سکتے ہیں۔
اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ روس نے امریکی عہدیداروں کے خلاف مائکروویو ہتھیار استعمال کیا ہے تو اس کے نتائج دھماکہ خیز ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ بھی ہو تو اس کے لیے کافی ثبوت تلاش کرنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے اور عوامی سطح پر اس کا الزام عائد کرنا بھی مشکل ہوگا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاملہ حل طلب ہی رہ جائے گا۔
پولیمروپولوس کے لیے سچائی کا سامنے آنا اہم ہے۔ انھوں نے کہا: ‘مجھے گولی مار دی گئی ہوتی تو ٹھیک تھا۔ آج جو میرے ساتھ ہو رہا ہے اس کے بجائے میرے جسم میں ایک سوراخ ہوتا جس کے بارے میں مجھے یہ تو پتا ہوتا کہ اسے ٹھیک کیسے کرنا ہے۔’
Comments are closed.