امریکی تاریخ کی سب سے خطرناک گلی جہاں اکثر خون گرا نظر آتا تھا
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ نیویارک ایک طرح سے دنیا کا مرکز ہے۔ یہاں ہر قسم کے رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے لوگ ملتے ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے آباؤاجداد کہیں دہائیوں پہلے یہاں آئے تھے اور انھوں نے اس شہر کی تاریخ پر اپنے نشان چھوڑے۔
نیویارک شہر کے پوش علاقے مینہیٹن کے نچلے حصے میں چائنہ ٹاؤن ہے جہاں داخل ہوتے ہی آپ کو لگتا ہے کہ آپ امریکہ میں نہیں بلکہ چین کے کسی شہر میں آ گئے ہیں۔
ہر طرف آپ کو چینی ریسٹورینٹس نظر آتے ہیں، چینی آئس کریم، مٹھائی کی دکانیں، کریانے کی دکانیں نظر آتی ہیں اور آپ کے کانوں کو بھی انگریزی سے زیادہ چینی زبان سنائی دیتی ہے۔
اس علاقے کے کسی پارک میں چلے جائیں تو آپ کو درجنوں بزرگ اور نوجوان چینی نژاد امریکی شہری روایتی چینی بورڈ گیمز یا تاش کھیلتے نظر آتے ہیں۔ یہ عام کھیل نہیں ہوتا لوگوں کے رش میں ایک شخص کے ہاتھ میں آپ کو ڈالر کے موٹی گڈیاں بھی نظر آتی ہیں، باقی آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔
اسی علاقے میں ایک خاص گلی ہے جہاں آج تو رنگ برنگے ریسٹورنٹ اور بار موجود ہیں لیکن سو سال قبل یہ گلی امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ خطرناک گلی سمجھی جاتی تھی جہاں خون کا کھیل آئے روز کھیلا جاتا تھا۔
ڈوئرز سٹریٹ 200 فٹ لمبی گلی ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک موڑ ہے۔
اس کا نام ایک ڈچ تارک وطن ہینڈرک ڈوایر کے نام سے رکھا گیا۔ ہینڈرک ڈوائر 18 ویں صدی میں اس گلی میں موجود ایک ڈسٹلری کے مالک تھے۔
سن 1900 کے ابتدا میں نیویارک کے شہر میں چینی باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہونے شروع ہو گیا اور وہ اس علاقے کے آس پاس آباد ہونا شروع ہو گئے۔
ان علاقوں میں افیون اور جوئے کے اڈے ہوتے تھے، اس دوران یہاں متعدد چینی گینگز (جنھیں ٹونگ کہا جاتا تھا) بنے جو طاقت کے حصول میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔
ان میں سے دو کافی مقبول ہیں اور ان کے درمیان دشمنی نے مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ان ان میں سے ایک ہپ سنگ ٹونگ تھا اور دوسرا آن لیونگ ٹونگ۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں گینگز کے درمیان خونی جھڑپوں کا آغاز کب سے ہوا لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ پہلا واقعہ سن 1900 میں ہوا جب آن لیونگ ٹون کے چار لوگوں نے ڈوئرز سٹریٹ کے ساتھ جڑنے والی پیل سٹریٹ پر ہپ سنگ ٹونگ کے ایک ممبر کو قتل کر دیا تھا۔
تھیٹر میں پٹاخے اور قتل
دوسرا بڑا واقعہ ان دونوں گینگز کے درمیان جو لڑائی کا ملتا ہے وہ اس واقعے کے پانچ سال بعد ہوا۔
بڑھتی ہوئی چینی آبادی کے لیے ڈوئرس سٹریٹ پر ایک تھیٹر ہوا کرتا تھا۔ دی سن اخبار کے مطابق 7 اگست 1905 میں یہاں دونوں گینز کے درمیان ایک خونی جھڑپ ہوئی۔
اخبار کے مطابق چینی کمیونٹی اور تمام گینگز میں اس بات کا اتفاق تھا کہ تھیٹر ایک پر امن جگہ تھی اور یہاں کوئی کسی پر کسی قسم کا حملہ نہیں کرے گا۔ 10 بجے کے قریب تھیٹر چینی لوگوں سے بھر گیا تھا اور اداکار ’دا گنگز ڈاٹر‘ نام کا ڈرامہ پیش کر رہے تھے۔
اسی دوران ایک شخص نے اپنی جیب سے پٹاخے نکالے اور انھیں جلا کر سٹیج پر پھینک دیے۔ جیسے ہی پٹاخے پھٹنے شروع ہوئے اور لوگوں کا دھیان اس طرف ہوا ایسے میں ہپ سنگ کے اراکین نے بندوقین نکال کر اپنے حریف گینگ آن لیونگ پر فائرنگ شروع کر دی۔
میوزیم آف چائنیز ان امیریکا کے مطابق اس واقعے میں چار آن لیونگ ممبران سمیت دو لوگ مارے گئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ٹونگز کے درمیان امن میٹنگ ہو رہی تھی جب ڈوئرز سٹریٹ پر ہپ سنگ کے ایک ممبر کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ (30 اکتوبر 1924)
ڈوئرز سٹریٹ کا خونی موڑ
ڈوئرز سٹریٹ کی خاص بات اس کا موڑ ہے۔ یعنی اس میں چلنے والوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ موڑ کے بعد آگے کیا ہے۔
یہی چیز ان گینگز کو پسند تھی اور وہ اس کا استعمال کر کے اپنے حریف پر حملہ کرتے تھے۔ ایک گینگ کے فریق جیسے ہی مور مڑتے تو دوسرا گینگ بندوقوں اور چھوٹی کلہاڑیوں کے ساتھ موجود ہوتا تھا۔
اس جگہ پر قتل عام اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ اس جگہ کو ’بلڈی اینگل‘ کا نام دے دیا گیا تھا کیونکہ اس موڑ کی زمین پر اکثر خون ہوتا تھا۔
حملہ آوروں کو یہ جگہ اس لیے پسند تھی کیونکہ حملے کہ بعد وہ ڈسٹرلی کے ساتھ بنائے گئے ٹنلز کا استعمال کر کے فرار ہو سکتے تھے۔
آنے والے سالوں میں گریٹ ڈپریشن اور غیر قانونی سرگرمیوں میں تبدیلی کی وجہ سے ٹونگ سے وابستہ خون ریزی آہستہ آپستہ ختم ہو گئی۔
آج باقی جائنہ ٹاؤن کی طرح اس گلی میں بھی ریسٹورنٹس اور بار ہیں۔ یہاں سے گزرتے ہوئے قریب قریب سے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ کسی زمانے میں یہ موڑ خطرے اور تشدد کی علامت ہوا کرتی تھی۔
Comments are closed.