امریکی ایوان نمائندگان کے نئے سپیکر: ٹرمپ کی مدد، ووٹنگ کے 15 راؤنڈ اور ہنگامہ آرائی
ریپبلکن جماعت کے ارکان میں لفظوں کے وار اور تقریباً ہاتھا پائی جیسی صورتحال کے بعد بالآخر کیون مکارتھی کو امریکی ایوان نمائندگان کا سپیکر منتخب کر لیا گیا ہے۔ ایوان میں پارٹی کی اکثریت کے باوجود اس کام کے لیے ووٹنگ کے 15 راؤنڈ ہوئے۔
یہ دباؤ کی ایک ڈرامائی مہم تھی جس دوران ایوان کے فلور پر باغی رہنما میٹ گیٹز سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ مکارتھی کو ووٹ دیں۔
وہ ان چھ ارکان میں سے تھے جنھوں نے جمعے تک اپنا ووٹ روک کر رکھا ہوا تھا۔
ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب گیٹز کی مکارتھی کے ایک حامی مائیک روجرز سے ہاتھا پائی بس ہونے ہی والا تھی۔ انھیں اس دوران ساتھیوں نے پکڑ کر رکھا تاکہ چیمبر میں کوئی جھگڑا نہ ہوجائے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں سپیکر کا عہدہ اہم ہے کیونکہ اسی کے ذریعے ہاؤس کا ایجنڈا طے ہوتا ہے اور قانونی سازی میں نگرانی برتی جاتی ہے۔ امریکی صدر اور نائب صدر کے بعد اسے تیسرے نمبر پر سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔
اپنی کامیابی پر مکارتھی نے پیغام دیا کہ ’اس ہفتے کے بعد ایک بات واضح ہوجانی چاہیے: میں کبھی ہار نہیں مانوں گا۔ میں امریکی شہریوں کے لیے کبھی شکست تسلیم نہیں کروں گا۔‘
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آخری کے ووٹ حاصل کرنے میں ان کی مدد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی۔ ’میرا نہیں خیال کسی کو بھی ان کے اثر و رسوخ پر کوئی شک ہونا چاہیے۔‘
’وہ شروع سے میرے ساتھ تھے۔۔۔ وہ مجھے اور دوسروں کو کال کرتے رہتے تھے۔‘
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے مکارتھی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکی شہری یہ امید کرتے ہیں کہ ان کے رہنما کسی بھی چیز سے بالاتر ہو کر ان کی ترجیحات سامنے رکھیں گے۔‘
خیال رہے کہ ریپبلکن جماعت نے جو بائیڈن کے خاندانی کاروبار، معاہدوں اور انتظامی امور کے خلاف تحقیقات کا وعدہ کر رکھا ہے۔
کیون مکارتھی
ووٹنگ کے 12ویں راؤنڈ میں 14 ریپبلکن ان کی مخالفت کر رہے تھے جبکہ 13ویں راؤنڈ میں مخالفین کی تعداد 15 ہوگئی تھی۔ تاہم مکارتھی صحافیوں کو یقین دہانی کراتے رہے کہ ان کے پاس اگلے راؤنڈ تک مکمل ووٹ ہوں گے۔
سپیکر بننے کے لیے انھیں کل 217 ووٹ درکار تھے مگر 14ویں ووٹنگ میں بھی ڈرامائی ماحول کے بعد وہ ناکام رہے۔ بعض مخالفین کا دعویٰ تھا کہ وہ اتنے روایت پسند نہیں کہ انھیں جو بائیڈن کے خلاف سپیکر منتخب کیا جائے۔
تاہم مکارتھی نے باغیوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے اور اس کمیٹی رولز کی نشست کی پیشکش کر دی جس کے ذریعے چیمبر میں قانون سازی کے اصول طے ہوتے ہیں۔
مکارتھی کی فتح تب ممکن ہوئی جب انھوں نے اس بات پر بھی حامی بھر لی کہ صرف ایک رکن کی مخالفت پر انھیں عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ خدشہ بڑھا ہے کہ اتحادیوں کے درمیان فاصلے کبھی بھی بڑھ سکتے ہیں۔
جیت پر جہاں وہ گلے مل رہے تھے تو وہیں ڈیموکریٹ ارکان کی طرف مکمل خاموشی تھی۔ اس کے بعد مکارتھی نے اپنی پہلی تقریر میں کہا ’یہ آسان تھا، ہے نا؟‘
انھوں نے کہا کہ ان کی توجہ مہنگائی کم کرنے کے علاوہ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد کو محفوظ بنانے پر ہوگی۔ ان کا بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ ’واشنگٹن کی جانب سے کیے جانے والے بڑے اخراجات کم کریں۔‘
آخری بار ایسا ڈیڈلاک تب سامنے آیا تھا جب 1860 میں سپیکر کی ووٹنگ کے لیے 44 راؤنڈ ہوئے تھے۔
نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی نے ایوان نمائندگان میں 222 نشستوں کی برتری حاصل کر لی تھی۔جبکہ ڈیموکریٹس نے دوبارہ سینیٹ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
وہ لمحہ جب مائیک روجرز کو ہاتھا پائی سے روکا گیا
کیون مکارتھی کو کون سے سمجھوتے نہیں پڑے؟
سپیکر کی رواں ووٹنگ کے دوران نمائندوں کی مدت اور سرحدی سکیورٹی جیسے معاملے زیر بحث رہے۔
ریپبلکن جماعت 2015 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم سے مطالبہ کرتی آئی ہے کہ سرحدوں پر سکیورٹی بڑھاتے ہوئے امیگریشن کا مسئلہ اٹھایا جائے۔ ایوان میں اسی حوالے سے بحث متوقع ہے۔
جہاں تک بات ایوان میں مدت کی ہے تو اس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہوگی جبکہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ریاست کی جانب سے ارکان کانگریس کی مدت کم کرنا غیر آئینی ہوگا۔
ہاؤس رولز کمیٹی یہ طے کرتی ہے کہ کس بل پر کب ووٹنگ ہوگی، اس پر کتنی دیر تک بحث ہوسکتی ہے اور فلور پر اس میں ترمیم کیسے ہوسکتی ہے۔
مکارتھی نے سخت گیر ریپبلکن رہنماؤں کو اس گروہ میں کم از کم ایک سیٹ کی نمائندگی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس طرح روایت پسند ارکان ووٹنگ سے قبل ہی قانون سازی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
ریپبلکن جماعت یہ بھی چاہتی ہے کہ واشنگٹن کے بجٹ میں کٹوتی کی جائے جبکہ بعض ارکان کو دفاعی بجٹ میں بڑی کٹوتیوں کا خدشہ ہے۔ اخراجات سے متعلق قانونی سازی کے لیے ڈیموکریٹ اور ریپبلکن جماعتوں کو آپس میں مذاکرات کرنے ہوں گے۔
تاہم مکارتھی نے ایسے وعدے کر لیے ہیں کہ رواں سال کے اواخر میں حکومت کے ’شٹ ڈاؤن‘ کو روکنا مشکل ہوگا۔
سپیکر کے گذشتہ ادوار میں انھیں عہدے سے ہٹانے کے لیے کم از کم پانچ درکار ہوتے تھے لیکن اس بار مکارتھی کے لیے اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنا مشکل ہوگا کیونکہ ایک ووٹ سے بھی انھیں عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کی جاسکے گی۔
Comments are closed.