انڈیا کی تشویش: امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ’عدم استحکام کا خطرہ بڑھ سکتا ہے‘
- امریتا شرما
- بی بی سی مانیٹرنگ
کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد اب جبکہ امریکی افواج افغانستان چھوڑنے کی تیاری کر رہی ہیں تو انڈیا پوری توجہ کے ساتھ اس کی نگرانی کر رہا ہے۔
امریکی فوجیوں کے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ سنہ 2020 میں دوحہ میں امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کے بعد سامنے آیا تھا۔
اس کا باضابطہ اعلان رواں سال اپریل میں اس وقت کیا گیا جب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی فوجی 11 ستمبر تک واپس آ جائیں گے۔
11 ستمبر 2021 کو امریکہ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی 20 ویں سالگرہ بھی ہے۔ سنہ 2001 کے اس حملے کے بعد ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔
فوج کے انخلا کے سلسلے میں انڈیا کا کہنا ہے کہ اس کی افغانستان میں جاری سرگرمیوں پر نگاہ ہے۔
انڈیا کی بےچینی: طالبان کا عروج اور عدم استحکام کا خطرہ
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کی یہ بے چینی خطے میں امریکہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے۔
ماہرین کے مطابق انڈیا کے خدشات افغانستان میں عدم استحکام، طالبان کے عروج اور ان سب کے درمیان پاکستان اور چین کے کردار سے وابستہ ہیں۔
انڈیا ہمیشہ سے ہی افغانستان میں جمہوری حکمرانی کا حمایتی رہا ہے۔
صرف یہی نہیں وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے منعقدہ متعدد اجلاسوں میں بھی شامل رہا ہے جن میں دوحہ، جنیوا اور دوشنبے کے اجلاس شامل ہیں۔
اب جبکہ امریکی فوجی افغانستان سے جا رہے ہیں تو انڈیا کو افغانستان میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تجزیہ کار اویناش پالییوال کے مطابق کابل میں پاکستان کی بڑھتی مداخلت سے افغانستان میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
انڈیا کی ایک بڑی تشویش طالبان کی طاقت میں ممکنہ اضافہ بھی ہے۔ ایسی صورتحال میں افغانستان ایک بار پھر شدت پسندوں کا اڈہ بن سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ میں قومی سلامتی کونسل کی رکن لیزا کرٹس کے مطابق ‘افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے خطے کے ممالک خصوصا انڈیا کو افغانستان میں طالبان کے مضبوط ہونے کے بارے میں تشویش ہو گی۔’
اور اس کی معقول وجوہات بھی ہیں۔ سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان نے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی شدت پسند تنظیموں کے ایسے لوگوں کو منتخب کیا تھا جو انڈیا مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
ان میں سنہ 1999 میں ایک انڈین طیارے کا اغوا اور سنہ 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملہ شامل ہے۔
حال ہی میں انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
انڈیا کے خدشات میں انٹیلیجنس سے موصول ہونے والی معلومت کے باعث بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں معلوم ہوا ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کی صورت میں شدت پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں افغانستان کا رخ کر رہی ہیں۔
افغانستان میں تشدد میں اضافے کی صورت میں طالبان کی طاقت میں اضافے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کار الزبتھ روچے کے مطابق افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
سنہ 2019 میں جنرل بپن راوت جب انڈین بری فوج کے سربراہ تھے تو انھوں نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب انڈیا طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات نہ رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔
انڈیا طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے گریز کرتا رہا ہے لیکن افغانستان کے بارے میں ماسکو امن کانفرنس میں انڈیا نے ایک غیر سرکاری ٹیم بھیجی تھی۔
گذشتہ سال دوجہ میں ہونے والے اجلاس میں انڈین وزیر خارجہ ایس کے جے شنکر شامل ہوئے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا اپنی سابقہ پوزیشن سے علیحدہ نرم مؤقف اختیار کر رہا ہے۔
پاکستان اور چین پر نظر
انڈیا کو یہ بڑا خدشہ لاحق ہے کہ امریکہ کی واپسی کے بعد افغانستان میں پاکستان کی سیاسی مداخلت میں اضافہ ہو گا۔
دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے طالبان سے تعلقات ہیں لیکن وہ شدت پسندوں کی حمایت کرنے کے الزام سے انکار کرتا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دیوی دت اربندو مہاپترا کے مطابق افغانستان کی سیاست میں پاکستان کا ایک اہم کردار ہو گا اور اس کی وجہ اس کی جغرافیائی، مذہبی اور نسلی قربت ہی نہیں ہے بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ ان قوتوں کو انڈیا کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
بہرحال پاکستان اب بھی خستہ حال معیشت سے دوچار ہے۔ جون میں آئی ایم ایف اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کے بارے میں جائزہ لینے والی ہے۔ ایسے میں وہ افغانستان میں ایسی سرگرمیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے جن سے ایف اے ٹی ایف میں اس کی مشکلات میں اضافہ ہو۔
تجزیہ کار کے این پنڈتا نے کہا: ‘یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی قیادت اتنی سمجھدار ہو گی کہ وہ ایسی کسی صورتحال کو پیدا نہیں ہونے دے گی۔’
لیکن چین کے کردار کو بھی انڈیا نظرانداز نہیں کر سکتا۔ سنیہیش ایلکس فلپ کے مطابق ‘چینی صدر شی جنپنگ کے خوابوں کا منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو افغانستان تک پھیل سکتا ہے۔’
اس سے قبل جنرل راوت نے یہ بھی عندیہ دیا تھا کہ افغانستان کو ان ممالک سے خطرہ لاحق ہو گا جو اس کے وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے پاس ایک کھرب ڈالر کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔
انڈیا کی تشویش یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس علاقے میں پاکستان چین کی مدد کر سکتا ہے۔
فلپ کے مطابق پاکستان اور چین کے مابین باہمی اتحاد کی وجہ سے انڈیا کے لیے صورتحال کشیدہ ہو سکتی ہے۔
عملی پالیسی کی ضرورت ہے
ویسے افغانستان اور انڈیا مضبوط شراکت دار ہیں۔ انڈیا نے افغانستان میں متعدد ترقیاتی منصوبوں میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس میں ایک ہسپتال، تعلیمی ادارہ اور افغان پارلیمنٹ کی عمارت شامل ہے۔
افغان عوام میں بھی انڈیا کی شبیہہ اچھی ہے۔ مہاپترا کے مطابق انڈیا نے افغانستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
ایسی صورتحال میں انڈیا کو اپنی سٹریٹجک دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابل میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہو گا۔
اس کے لیے اسے طالبان سمیت تمام بڑے شراکت داروں سے رابطے بڑھانا ہوں گے۔ مہاپترا کے مطابق انڈیا کو قابل عمل پالیسی اپناتے ہوئے طالبان رہنماؤں سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ سال اپنے انڈیا کے دورے میں افغان امن کے مذاکرات کار عبداللہ عبد اللہ نے کہا تھا کہ اگر انڈیا طالبان سے بات چیت کرتا ہے تو افغان قیادت کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
مہاپترا کے مطابق افغانستان سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے انڈیا کو اپنے بڑھتے ہوئے معاشی اور فوجی غلبے کے ساتھ ساتھ نرم طاقت کے کردار کا بھی استعمال کرنا چاہیے اور یہ صرف ہوشیار سفارت کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔’
Comments are closed.