نریندر مودی کا دورہ امریکہ: کیا انڈیا امریکی اتحاد اور چین کے درمیان پھنس گیا ہے؟
- شکیل اختر
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی جمعرات کو امریکہ کے پانچ روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جس میں وہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے علاوہ جاپان، آسٹریلیا، امریکہ اور انڈیا کے نئے اتحاد ’کواڈ‘ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بنیادی طور پر چین کے بڑھتے سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لیے تشکیل دیے گئے اس اتحاد کی میٹنگ کو انڈیا میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے لیکن انڈیا چین کے سلسلے میں اس اجلاس سے کیا حاصل کر سکے گا یہ ایک مشکل سوال ہے۔
نریندر مودی واشنگٹن کے لیے بدھ کو روانہ ہو رہے ہیں۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر پہلے ہی امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ مودی کے ہمراہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال بھی جا رہے ہیں۔
مودی 25 ستمبر کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسبملی سے خطاب کرنے والے ہیں لیکن اس سے ایک روز قبل 24 ستمبر کو واشنگٹن میں جاپان اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم اور امریکہ کے صدر کے ہمراہ کواڈ اتحاد کے پہلے براہ راست سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
انڈیا کے خارجہ سیکرٹری ہرش وردھن شنگلا نے دلی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ میٹنگ انڈیا کے لیے بہت اہم ہے۔
انھوں نے کہا ’اس میں انڈو پیسیفک خطے کے چار ممالک شامل ہیں۔ یہ سٹریٹیجک اتحاد ابتدائی مرحلوں سے نکل کر سربراہی اجلاس تک پہنچ چکا ہے۔ اس میں خطے کی سلامتی، سائبر سکیورٹی، باہمی مفاد اور اشتراک پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔‘
چین کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ کواڈ دراصل ایک چین مخالف اتحاد ہے اور یہ امریکہ کی سرد جنگ کی ذہنیت کا عکاس ہے لیکن اس طرح کا اتحاد کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ڈیرھ برس قل لداخ خطے میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی پورے جنگی سازوسامان کے ساتھ ایکچول کنٹرول لائن پر تعینات ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات گذشتہ برس کی جھڑپ کے بعد بدستور خراب ہیں۔
انڈیا نے چین سے اپنا تجارتی تعلق بہت کم کر دیا ہے۔ کشیدگی سے پہلے چین انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا تھا۔
جنرل ایڈ منسٹریشن کسٹمز آف چائنا کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 میں چین اور انڈیا کی باہمی تجارت 93 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ انڈیا نے چین سے تجارت پر بہت سخت پابندياں عائد کی ہیں۔
چینی امور کی ماہر پروفیسر ریتو شا تیواری کہتی ہیں کہ ’ان اقدامات سے چین اور انڈیا دونوں کو نقصان پہنچا ہے لیکن بظاہر دونوں کے مؤقف میں کسی نرمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔‘
انڈیا میں واشنگٹن کی کواڈ میٹنگ کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس اجلاس میں انڈیا افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر تو نشانہ لگائے گا ہی لیکن اس میں اصل توجہ چین پر مرکوز ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے
چین کے حوالے سے انڈیا نے گذشتہ برس تک غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے سبب کم از کم جنوبی ایشیا میں چین کے خلاف کسی بڑے اتحاد کی موجودگی نہیں ہو پائی تھی۔
پروفیسر ریتوشا کہتی ہیں کہ اب جب کہ انڈیا غیر جانبداری کا مؤقف چھوڑ کر ایک چین مخالف وسیع تر اتحاد بنا رہا ہے تو چین سے انڈیا کے تعلقات جو پہلے سے ہی خراب ہیں وہ یقیناً مزید خراب ہوں گے۔
انڈیا پہلی بار اس قدر کھل کر سامنے آ رہا ہے تو کواڈ کے ممالک کتنا کھل کر اس کی طرف آتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
لداخ میں چین کو جھڑپ سے پہلی والی پوزیشن پر واپس لانے کے لیے انڈیا چین سے ایک درجن سے زیادہ بار مذاکرات کر چکا ہے لیکن اس میں ابتدائی کامیابی ملنے کے بعد مزید پیشرفت نہ ہو سکی۔
انڈیا ایک طرف کواڈ کی طرف قدم بڑھا چکا ہے تو دوسری جانب شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن میں بھی چین اور روس کے ساتھ اشتراک کی باتیں کر رہا ہے۔ یہ اس کی اپنی کشمکش کا عکاس ہے۔
امریکہ اور مغربی ملکوں سے کسی طرح کے عسکری اتحاد میں انڈیا میں ہمیشہ شک و شبہات رہے ہیں لیکن چین سے ٹکراؤ کی صورتحال نے اسے کواڈ کی طرف دھکیل دیا ہے۔
یہ مودی حکومت کے لیے بھی ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اب کوئی راستہ نہ ہونے کے سبب اس کا جھکاؤ واضح طور پر ایک ایسے ممکنہ عسکری اتحاد کی طرف نظر آتا ہے جو چین کے خلاف مؤثر ثابت ہو۔
انڈین بحریہ کے سابق سربراہ ارون پرکاش نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’انڈیا اپنی جنگ خود لڑنے کی تیاریاں کرے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے دوسرے ملکوں سے اتحاد کے توازن کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو جن ممالک سے ہمارے مفاد مشترک ہوں ان سے ضرور نئی شراکت قائم کی جائے۔‘
کواڈ انڈیا کے لیے کتنا مؤثر اور مفید ہو گا یہ بہت حد تک اس بات پر بھی منحصر کرے گا کہ چین اس کا سامنا کس طرح کرتا ہے۔
Comments are closed.