کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی: امریکہ کے بغیر کابل ایئرپورٹ کیوں نھیں چل سکتا؟
برطانیہ نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ 31 اگست کو امریکہ کے افغانستان سے انخلا کا مطلب ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے سے انخلا کی کارروائی حتم ہو جائے گی۔ لیکن امریکی صدر نے انخلا کی ڈیڈ لائن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کام جتنا جلد ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔
برطانیہ کے وزیر نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی موجودگی کے بغیر کابل ایئرپورٹ سے لوگوں کو نکالنے کا کام جاری نہیں رکھ سکتے۔
برطانیہ کابل ایئرپورٹ پر کنٹرول کیوں برقرار نہیں رکھ سکتا؟
کابل کے ہوائی اڈے کو محفوظ بنانے کے لیے درکار زیادہ تر فوجی امریکہ فراہم کر رہا ہے اور اس کی بہت سی سہولیات کو بھی وہی چلا رہے ہیں جس میں ایئرٹریفک کنٹرول بھی شامل ہے۔
امریکہ آپریشن کے لیے انٹیلی جنس اور نگرانی بھی فراہم کر رہا ہے جس کا متبادل فراہم کرنے میں کافی وقت اور وسائل درکار ہوں گے۔
سنہ 2013 سے سنہ 2016 تک متحدہ افواج کے کمانڈر جنرل سر رچرڈ بیرنس نے کہا کہ امریکی مدد کے بغیر انخلا انتہائی مشکل ہوگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ہوائی اڈے کو چھوڑنے کے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور طالبان سے لڑ کر ان لوگوں کو نکالنا ہوگا۔ میں اسے ایک قابل اعتماد تجویز کے طور پر نہیں دیکھتا’۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ‘دوسری بات یہ ہے کہ اگر طالبان نہیں چاہتے کہ ہمارے طیارے ہوائی اڈے کا استعمال کریں تو ایک مارٹر راؤنڈ، ایک میزائل، ایک مشین گن فائر سے انخلا کا خاتمہ ہوجائے گا’۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کے نک رینلڈز کے مطابق لڑاکا طیاروں یا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے تحفظ ضروری ہے اور فی الحال امریکہ یہ فراہم کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آر اے ایف (برطانوی فضائیہ) کا محدود تعداد میں ٹرانسپورٹ طیاروں کا مطلب ہے کہ برطانیہ کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ‘وہ خود ہی ایک موثر انخلا کرے، خاص طور پر وقت کے دباؤ میں نہیں’۔
کابل ائیرپورٹ پر کس کی فوج ہے؟
اس وقت حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سب سے زیادہ فوجی امریکہ کے ہیں یہ تعداد تقریبا 6000 ہے۔
وہاں امریکی جیٹ طیارے آسمان پر گشت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حملہ آور ہیلی کاپٹر بھی موجود ہیں۔
برطانیہ کے ہوائی اڈے پر ایک ہزار سے زائد فوجی ہیں جن میں فوج کی 16 ایئر اسالٹ بریگیڈ بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں
فرانس، جرمنی اور ترکی سمیت نیٹو کے ارکان کے چھوٹے دستے بھی موجود ہیں۔
ناروے بھی ایئر بیس پر ایک ہسپتال کے ساتھ کردار ادا کرتا رہا ہے۔
نیٹو نے کہا ہے کہ اس کے پاس زمین پر تقریبا 800 سویلین کنٹریکٹر تھے جن میں سے بیشتر ایئرپورٹ پر تھے۔
برطانیہ کیا چاہتا ہے؟
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے منگل کو جی 7 رہنماؤں کی ایک ہنگامی میٹنگ کے دوران امریکی صدر بائیڈن سے 31 اگست کی انخلاء کی منصوبہ بند ملتوی کرنے پر زور دیا تاہم ان کا فیصلہ بدلنے میں ناکام رہے۔
پیر کے روز مسلح افواج کے وزیر جیمز ہیپی نے کہا کہ تقریبا 1800 ‘اہل لوگ’ یا برطانیہ کے پاسپورٹ رکھنے والے افراد افغانستان میں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہاں 2275 افغان شہری بھی ہیں جنھیں برطانیہ کی حکومت کے لیے کام کرنے کی وجہ سے رہائش دی جا سکتا ہے ، اور ‘وسیع تر افغان سول سوسائٹی سے اور لوگ بھی جنھیں ہم نکالنا چاہتے ہیں اگر ممکن ہوا تو انھیں نکالنا چاہیں گے۔’
برطانیہ نے گذشتہ ہفتے کے دوران 7000 سے زائد افراد کو نکالا ہے اور مزید پروازوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
لیکن وزیر دفاع بین والیس نے واضح کیا ہے کہ جب امریکی افواج کابل سے نکلیں گی تب ‘ہمیں بھی وہاں سے نکلنا پڑے گا۔’
امریکہ نے کیا کہا؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ 31 اگست کی آخری تاریخ میں توسیع کے بارے میں ‘بات چیت جاری ہے’۔
لیکن اتوار کے روز انھوں نے کہا کہ ‘ہم امید کر رہے ہیں کہ ہمیں توسیع نہیں کرنی پڑے گی’۔
صدر بائیڈن پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اپنے افغان اتحادیوں، شراکت داروں اور افغان شہریوں کے لیے محفوظ انخلا کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے جنھیں امریکہ کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
امریکہ نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران تقریبا 28 ہزار افراد کو ہوائی اڈے کے ذریعے ملک سے باہر نکالا ہے۔
نک رینالڈز کے مطابق برطانیہ اور امریکہ کی پوزیشن ان کی مختلف ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ برطانیہ ‘زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نکالنا چاہتا ہے’ جبکہ اُن کے لیے ٹائم ٹیبل ‘ایک ثانوی حیثیت’ رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 31 اگست کی تاریخ پر قائم رہنا امریکہ کے لیے ‘اہم ترجیح’ ہے۔
طالبان کیا کر رہے ہیں؟
اب تک طالبان تعاون کر رہے ہیں اور لوگوں کی ہوائی اڈے پر قطاروں کو منظم کر رہے ہیں۔
لیکن ایک ترجمان نے کہا کہ 31 اگست واپسی کی آخری تاریخ ایک ‘ریڈ لائن’ تھی۔
ترجمان نے کہا کہ صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ اس تاریخ تک فوجیں نکل جائیں گی، اور زیادہ دیر قیام کا مطلب افغانستان کا قبضہ بڑھانا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا ہوا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
Comments are closed.