روس یوکرین جنگ: امریکہ کی یوکرین کو لانگ رینج میزائل کی فراہمی ’جلتی پر تیل چھڑکنا‘ ہے، روس
- لیو سینڈز، رابرٹ گرینال
- بی بی سی نیوز
صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ یوکرین کو لانگ رینج (یعنی طویل فاصلے تک مار کرنے والے) میزائل فراہم کرے گا۔ تاہم روس نے امریکہ پر اس جنگ کو طول دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
کریملن کے ترجمان ڈمتری پیسکوو نے کہا ہے کہ امریکہ ’جان بوجھ کر جلتی پر تیل چھڑکنے‘ کا کام کر رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہتھیاروں کی ایسی فراہمی ’یوکرین قیادت کی امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی خواہش کی حمایت نہیں کرتی۔‘
دوسری جانب جرمنی کی حکومت نے بھی یوکرین کو ایک فضائی دفاعی نظام فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
چانسلر اولاف شولز نے ارکان پارلیمان کو بتایا کہ آئی آر آئی ایس-ٹی (IRIS-T) سسٹم جرمنی کا سب سے جدید نظام ہے اور اس کی بدولت یوکرین روسی حملوں کے خلاف اپنے ایک پورے شہر کا دفاع کر سکے گا۔
روسی وزیر داخلہ سرگئی لارؤف نے امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن کے اعلان سے اس تنازع میں ایک ’تیسرے ملک‘ کو گھسیٹنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
لانگ رینج میزائل یوکرینی فوج کو طویل فاصلے پر موجود دشمن کو نشانہ بنانے میں مدد فراہم کریں گے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل امریکہ یہ ہتھیار فراہم کرنے کے بارے میں راضی نہیں تھا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ یوکرین انھیں روس کے اندر اپنے اہداف کے خلاف استعمال کر سکتا ہے لیکن اب امریکہ کا کہنا ہے کہ کیئو نے اسے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔
بدھ کے روز جو بائیڈن نے کہا کہ ہتھیاروں کی یہ امداد یوکرین کو روس کے ساتھ مذاکرات میں بہتر پوزیشن فراہم کریں گی اور اس تنازع کا ایک سفارتی حل تلاش کیا جا سکے گا۔
ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ نئے ہتھیاروں کے اس پیکج میں چار ایم 142 ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (HIMARS) شامل ہوں گے۔
نائب سیکریٹری برائے دفاع ڈاکٹر کولن ایچ کاہل نے کہا ہے کہ ’یہ میزائل زیادہ فاصلے پر درستی کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں۔ انتہائی اہم اہداف کو نشانہ بنانے اور اس جنگ میں صف اول پر لڑنے والے فوجیوں پر سے بوجھ ختم کرنے میں یہ انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔‘
یہ نظام 70 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود اہداف پر متعدد میزائلوں کو لانچ کر سکتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام روس کے ایسے مساوی نظام سے زیادہ درستی سے اہداف کو نشانہ بناتا ہے۔
کیا یہ میزائل ڈونباس میں جنگ کی صورتحال بدل دے گا؟
تجزیہ: پال ایڈمس، سفارتی نامہ نگار
یہ اعلان کافی پہلے سے متوقع تھا اور یہ اب تک کے سب سے اہم فوجی وعدوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتا ہے۔
ڈونباس میں جاری جنگ میں یوکرین کو روس کی جانب سے شدید فوجی قوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یوکرین کی افواج شکایت کرتی ہیں کہ ان کے پاس فائر پاور کی کمی ہے۔
لیکن ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم اسے بدل سکتا ہے۔
جی پی ایس سے چلنے والے یہ راکٹ روسی نظام کے برابر ہیں۔ انھیں دوبارہ لوڈ کرنا بہت آسان ہے اور جیسا کہ نام سے واضح ہے یہ تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے۔
امریکہ اور یوکرین کے حکام اس بارے میں پہلے ہی تفصیلی بات چیت کر رہے ہوں گے کہ انھیں کیسے اور کب استعمال کرنا ہے۔
یوکرین اب اُن اہداف کو نشانہ بنا سکے گا جو فی الوقت اس کی پہنچ سے دور ہیں، مثلاً کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز، رسد کے مراکز اور وہ روسی توپ خانے جنھوں نے ڈونباس میں یوکرینی فوجیوں کو مشکل سے دوچار کر رکھا ہے۔
وائٹ ہاؤس حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ راکٹ یوکرینی صدر کی اس یقین دہانی کے بعد فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ یہ ہتھیار روس کے اندر موجود اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں ہوں گے۔
جو بائیڈن نے بدھ کے روز کہا کہ ’ہم یوکرین کو وہ راکٹ سسٹم نہیں بھیج رہے جن سے روس پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔‘
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی امریکی نیٹ ورک ’نیوز میکس‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ روس کے اندر کیا ہو رہا ہے، ہم صرف یوکرین میں اپنے علاقے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
لیکن کریملن کے ترجمان ڈمتری پیسکوو کا کہنا ہے کہ روس یوکرینی صدر کے بیان پر یقین نہیں رکھتا۔
ریا نیوز ایجنسی کے مطابق ڈمتری پیسکوو نے کہا کہ ’اعتبار کرنے کے لیے، ہمیں کیئو کی جانب سے وعدوں کی پاسداری کا تجربہ ہونا چاہیے لیکن ایسا کچھ نہیں۔‘
امریکی اعلان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ امریکہ براہ راست اور جان بوجھ کر جلتی پر تیل چھڑکے کا کام کر رہا ہے۔‘
وائٹ ہاؤس حکام کے مطابق یہ راکٹ یوکرین کو بھیجے جانے والے 700 ملین ڈالر کے امدادی پیکج کا سب سے اہم حصہ ہیں۔
فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے امریکہ کی جانب سے فوجی امداد کا یہ 11واں پیکج ہے، جس میں ہیلی کاپٹر، اینٹی ٹینک ہتھیار، گاڑیاں اور سپیئر پارٹس شامل ہیں۔
یوکرین کا روس پر ’پاگل پن‘ کا الزام
دوسری جانب یوکرین کے مشرقی شہر سیورودونیتسک میں جاری لڑائی میں شدت آئی ہے اور شہر کی انتظامیہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ شہر کا صرف 20 فیصد حصہ ہی یوکرینی افواج کے کنٹرول میں ہے۔
روسی افواج کی جانب سے اس شہر کی ایک کیمیکل فیکٹری میں حملے کے بعد یوکرین کے صدر دلادیمیر زیلنسیکی نے روس پر ’پاگل پن‘ کا الزام عائد کیا ہے۔
علاقے کے گورنر سرہیو گیدائی نے کہا ہے کہ عام شہری میزائل سے پچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’بم پناہ گاہوں میں عام شہری ہیں اور ان کی تعداد اچھی خاصی ہے لیکن یہ دوسرا آزوژسٹال نہیں ہو گا کیونکہ اس پلانٹ کے زیر زمین ایک بڑا شہر ہے جبکہ آزوژ میں ایسا نہیں تھا۔‘
سیورودونیتسک پر قبضہ کرنا روس کے حملے کا ایک اہم مقصد ہے اور مغربی حکام کا کہنا ہے کہ ماسکو ’کافی مستحکم فوائد‘ حاصل کر رہا ہے۔
Comments are closed.