امریکہ کی جانب سے گرائے جانے والے ’غباروں‘ کے چینی جاسوسی آلات ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا: وائٹ ہاؤس

چینی غبارہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

چار فروری کو جنوبی کیرولائنا کے ساحل کے قریب ایک غبارے کو تباہ کیا گیا

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکی فوج کی جانب سے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر گرائے جانے والے تین ’غباروں‘ کے چینی جاسوسی آلات ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ چیزیں ’کمرشل یا تحقیقاتی چیزیں ہو سکتی ہیں چنانچہ یہ بے ضرر ہوں گی۔‘

امریکی اور کینیڈین حکام نے اب تک ان تینوں کا ملبہ دریافت نہیں کیا۔

بیجنگ نے اس سے قبل امریکہ پر ضرورت سے زیادہ شدید ردِ عمل دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

چین کا ایک غبارہ رواں ماہ ایک امریکی لڑاکا طیارے نے ریاست جنوبی کیرولائنا کے قریب مار گرایا تھا۔ چین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ غبارہ جاسوسی کے لیے استعمال ہو رہا تھا اور کہا ہے کہ یہ صرف ایک موسمیاتی ایئرشپ تھا جو ہوا کے باعث اپنے راستے سے ہٹ گیا تھا۔

منگل کی یومیہ نیوز کانفرنس میں جان کربی نے کہا کہ الاسکا، کینیڈا اور مشیگن کے اوپر گرائی گئی تین دیگر چیزوں کا مقصد اور یہ جاننا کہ وہ کہاں سے آئی تھیں، مشکل ہو گا جب تک کہ ملبہ نہیں مل جاتا اور اس کا تجزیہ نہیں کر لیا جاتا۔

جان کربی وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ اُنھوں نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’ہم نے ایسی کوئی علامت یا کوئی چیز نہیں دیکھی جو اس جانب اشارہ کرتی ہو کہ یہ تینوں چیزیں عوامی جمہوریہ چین کے جاسوسی پروگرام کا حصہ تھیں یا یہ کہ وہ واضح طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس معلومات کے حصول میں ملوث تھیں۔‘

اُنھوں نے مزید بتایا کہ امریکی انٹیلیجنس جس ’سرِفہرست وضاحت‘ پر غور کر رہی ہے وہ یہ کہ ’یہ غبارے بس کسی کمرشل یا تحقیقاتی ادارے کے تھے چنانچہ بے ضرر تھے۔‘

پر اُنھوں نے نشاندہی کی کہ اب تک کسی کمپنی، تنظیم یا حکومت نے ان چیزوں کے لیے دعویٰ نہیں کیا۔

چینی غبارہ

،تصویر کا ذریعہReuters

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مارک ملی نے منگل کو بتایا کہ تازہ ترین واقعہ ہیورون جھیل کے اوپر پیش آیا ہے۔ ایک امریکی ایف 16 طیارے کا فائر کیا گیا پہلا میزائل نشانے پر نہیں لگا تھا۔ ’پہلا نشانہ خطا ہوا، دوسرا اسے جا لگا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’ہم یہ یقینی بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ میزائل کی زیادہ سے زیادہ رینج تک فضائی سپیس فائر کے وقت صاف ہو۔ اس کیس میں میزائل بے ضرر انداز میں ہیورون جھیل کے پانی میں اتر گیا ہے۔‘

چینی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے امریکی جواب پر تنقید کی ہے۔

منگل کو وانگ وینبن نے کہا کہ ’امریکہ میں کئی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اس قدر مہنگا عمل امریکہ اور اس کے ٹیکس دہندگان کے لیے کیسے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟

چار فروری کو بحرِ اوقیانوس سے اس مبینہ جاسوس غبارے کے سینسرز حاصل کر لیے گئے تھے اور اب ایف بی آئی اس پر تحقیقات کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چینی غبارہ

،تصویر کا ذریعہUS Navy

امریکی ناردرن کمانڈ نے کہا ہے کہ تلاش کرنے والے عملے کو ’سائٹ سے اہم ملبہ ملا ہے جس میں موجود تمام ترجیحی سینسرز اور برقی آلات کو پہچان لیا گیا ہے۔‘

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلیجنس نے چین کے جنوبی خطے میں واقع ہائنان جزیرے سے اس غبارے کی لانچ سے ہی اس پر نظر رکھی ہوئی تھی۔

امریکی حکام نے بی بی سی نیوز کے شراکت دار ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ٹیک آف کے کچھ ہی دیگر بعد یہ غبارہ امریکی جزیروں گوام اور ہوائی کی طرف مڑ گیا اور پھر یہ شمال میں الاسکا کی جانب بڑھ گیا۔

اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس کے راستے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسم کی وجہ سے یہ اپنے راستے سے ہٹ گیا مگر جب تک یہ امریکی برِ اعظم تک پہنچا، تب تک یہ دوبارہ چینی کنٹرول میں تھا۔

منگل کو امریکی فوجی قیادت نے سینیٹ کو اس حوالے سے ایک خفیہ بریفنگ دی۔ سینیٹ میں اکثریتی رہنما چک شومر نے کہا کہ سینیٹ اس حوالے سے تحقیقات کرے گی کہ اڑنے والی یہ چیزیں پہلے کیوں نظر میں نہیں آئیں۔

چک شومر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ اچھا سوال ہے اور ہمیں اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔‘

اس دوران رومانیہ نے منگل کو یورپی فضائی حدود میں داخل ہونے والی ایک چیز کی تحقیقات کے لیے اپنے لڑاکا طیارے بھیجے مگر ملک کے وزیرِ دفاع نے کہا کہ پائلٹس اسے تلاش کرنے میں ناکام رہے اور نصف گھنٹے بعد یہ مشن ختم کر دیا گیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ