امریکہ کو 10 لاکھ الیکٹریشن کیوں درکار ہیں اور کیا خواتین اس ضرورت کو پورا کر سکتی ہیں؟
- مصنف, ڈینیئل رینوک
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
امریکہ کو اپنے ماحولیاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے 10 لاکھ الیکٹریشن درکار ہیں۔ لیکن اس شعبے میں اگر خواتین کو درپیش چینلجز کو حل کر لیا جائے تو اس مسئلے سے نمٹنا آسان ہو سکتا ہے۔
کورا سیکسٹن کو بچپن سے ہی چیزیں بنانے کا شوق تھا جیسے قلعے، لکڑی سے تراشی اشیا۔ اسی لیے 49 سال کی عمر میں الیکٹریشن بن جانا ان کی شخصیت سے مطابقت رکھتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے پہلیاں حل کرنا پسند ہے اور دن کے اختتام پر جسمانی محنت کا نتیجہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔‘
مردوں سے منسلک شعبے میں کام کرنے کے باوجود ان کی اسی شخصیت نے بہت سے مسائل سے نمٹنا ان کے لیے آسان کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جیسے باس کی تلاش کرنے والے لوگوں کا آپ کے پاس سے گزر جانا‘ حالانکہ وہی باس ہیں۔ ساتھیوں کی جانب سے ان کے ہاتھوں سے اوزار لے لینا۔
سیکسٹن اب کیلیفورنیا میں گرڈ آلٹرنیٹیو کمپنی میں کام کرتی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس شعبے کی دوسری خواتین کے مقابلے میں ان کے لیے حالات بہتر تھے۔ انھوں نے خوفناک کہانیاں سن رکھی ہیں کہ کیسے خواتین کے سامان میں دھمکی آمیز پیغامات چھوڑے گئے یا ان کے اوزار چرا لیے گئے۔
امریکہ میں بجلی کا کام کرنے والے لوگ زیادہ تر مرد ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف دو فیصد الیکٹریشن خواتین ہیں۔ تاہم اس شعبے کو کام کرنے والوں کی شدید کمی کا سامنا ہے کیوں کہ اب امریکہ ایندھن کے بجائے گاڑیوں اور عمارات کو بجلی سے چلانے پر کام کر رہا ہے۔
ری وائرنگ امریکہ کے مطابق امریکہ کو 2035 تک کاربن آلودگی سے پاک بجلی کے منصوبے کے تحت سولر پینل نصب کرنے، الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشن بنانے اور ہیٹنگ پمپ لگانے کے لیے 10 لاکھ الیکٹریشن درکار ہیں۔
مصنف اور صحافی بل مککیبن نے نیو یارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’اگر آپ کسی نوجوان شخص کو جانتے ہیں جو دنیا کی مدد کرنا چاہتا ہے اور کمانا بھی چاہتا ہے تو اسے کہیں کہ الیکٹریشن بن جائے۔‘
زیادہ خواتین کو اس شعبے میں لانے سے ایک اہم کمی کو پورا کیا جا سکے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس اقدام سے تنخواہوں میں صنفی امتیاز کو بھی کم کیا جا سکے گا۔
بیورو آف لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں امریکہ میں ایک الیکٹریشن کی سالانہ تنخواہ تقریبا 60 ہزار ڈالر سے زیادہ تھی جبکہ دیگر تمام شعبوں میں یہ تنخواہ 45 ہزار ڈالر کے قریب تھی۔ ماہر الیکٹریشن اس سے بھی زیادہ کماتے ہیں۔
سیم کیلیش ری وائرنگ امریکہ میں تحقیق کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آنے والی دہائی میں ریٹائر ہوننے والے یا دوسرے شعبوں میں جانے والے الیکٹریشن کے متبادل تلاش کرنے کے لیے سالانہ 80 ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی۔ اور یہ اس ایکٹ سے پہلے کی بات ہے جس کے تحت امریکی صدر جو بائیڈن کے منصوبے کے تحت الیکٹریشن کی مانگ میں اضافہ ہو گا۔‘
واضح رہے کہ انفلیشن ریڈکشن ایکٹ کے تحت امریکہ میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دینے اور گھروں کو بجلی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تکنیکی سکولوں اور ایسے کلچر پر زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی گئی کیوں کہ چار سالہ یونیورسٹی کی ڈگری کو ہی کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے اور اسی لیے مانگ کے حساب سے الیکٹریشن دستیاب نہیں ہیں۔
ایلی پیریز ایک پلمبر ہیں اور ٹیکساس وومین ان ٹریڈ نامی کمپنی کی بانی ہیں۔ پیریز، جن کی ایک آٹھ سال کی بیٹی ہے، نے 2013 میں اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو اچھی تنخواہوں والی نوکریوں تک رسائی حاصل ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ایسے شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کی زیادہ کہانیاں نہیں سناتے جو مائیں، بیٹیاں، دوست بھی ہیں اور اپنے خاندانوں کی مالی مدد کر رہی ہیں۔‘
تاہم ماہرین کے مطابق ہراسانی کے واقعات، یونین کا رویہ اور بچوں کا خیال رکھنے والی سہولیات کی کمی خواتین کی زیادہ شمولیت کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔
کونی ایش بروک نیشنل ٹاسک فورس برائے ٹریڈ وومین کی کو چیئر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر کمپنیوں میں تعلقات پر مبنی رجحان ہے جس کے تحت سفید فام مردوں کا نیٹ ورک جاننے والوں کو ہی کام کے لیے رکھتا ہے اور تربیت دیتا ہے۔‘
’اگر آپ باس کے دوست نہیں ہیں یا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی اکثریت سے اچھے تعلقات نہیں رکھتے تو آپ کو نوکریوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔‘
2009 میں کونی ایش بروک ایک ایسی کامیاب کوشش کا حصہ تھیں جس کے تحت اوریگون ریاست کے حکام نے ہائی وی کنسٹرکشن ورک فورس کو متنوع بنانے کے لیے دو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
اس منصوبے کے تحت 2022 تک زیادہ خواتین کو کام پر رکھا گیا اور ان کو ایسی سہولیات فراہم کی گئیں جن سے ان کو آسانی ملی۔
ایش بروک کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسا کام ہے جو آپ کو کسی کالج کی ڈگری کے بغیر اچھی تنخواہ حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسی سہولیت کے بغیر خواتین غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔‘
نان ٹریڈیشنل ایمپلائمنٹ فور وومین نیو یارک کی ایک تنظیم ہے جو خواتین کو کام تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ادارے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیٹ کرگ کا کہنا ہے کہ ’بچوں کا خیال رکھنے والی زیادہ تک سہولیات نو سے پانچ بجے تک ہوتی ہیں اور اگر آپ کو پانچ بجے کے بعد باہر نکلنا ہے تو آپ کو بچوں کا خیال رکھنے کے لیے کسی کو پیسے دینا ہوتے ہیں۔‘
ان کی تنظیم میں ایسے مینیجر موجود ہیں جو اس بات کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ ’کیا ان کے بچے ہیں؟ کیا ان کو بچوں کا خیال رکھنے کے لیے سہولت درکار ہے یا ان کے پاس کوئی سہولت موجود ہے؟‘
ٹونیا ہکس مسی سیپی میں بڑی ہوئیں اور ان کو الیکٹریشن بننے کے لیے اپنی نسل اور صنف کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں صرف سات فیصد الیکٹریشن سیاہ فام ہیں۔
ٹونیا کہتی ہیں کہ ’خواتین اور اقلیتوں کو منظم انداز میں یونین سے باہر رکھا گیا۔ یہ نسلی امتیاز کی صورت میں شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگ ان کو ہی کام پر رکھتے جن کو وہ جانتے تھے۔‘
شروع شروع میں، جب وہ کام سیکھ رہی تھیں، تو ان کو کام کی جگہ پر ٹریلر صاف کرنے کو کہا جاتا۔ جب ان کو مقامی طور پر کام تلاش کرنے میں مشکل ہوئی تو وہ کام کی تلاش میں دور دراز مقامات پر چلی جاتیں۔ اس دوران وہ اپنے بیٹے کو اپنی والدہ کے پاس چھوڑ دیتی تھیں۔
ان کی محنت رنگ لائی اور سنہ 2000 میں 28 سال کی عمر میں انھوں نے اپنی کمپنی کا آغاز کیا۔ پاور سولوشنز نامی کمپنی اٹلانٹا میں قائم ہے۔
آج ان کی کمپنی میں نو لوگ کام کرتے ہیں اور گذشتہ سال انھوں نے الیکٹرک گاڑیوں کے چارجر تیار کرنا شروع کیے۔
کورا سیکسٹن کی کمپنی بھی خواتین رضاکاروں کو سولر تنصیبات کی تربیت دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے جو شاید خوف کی وجہ سے ایسا نہ کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مرد خواتین کی مدد کریں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے خواتین کی مدد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور نومبر 2022 میں ایک منصوبے کا اعلان کیا گیا جس کے تحت تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد کو دس سال میں دوگنا کیا جائے گا۔
آئی آر اے قانون کے تحت کنٹریکٹرز کو اس صورت میں ٹیکس چھوٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے اگر وہ خواتین کو کام کرنے کے لیے رکھیں گے۔
مارینا زاورونکووا سینٹر فار امیریکن پراگرس میں سینیئر فیلو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے ایسے منصوبوں کا بھی اشارہ دیا ہے جن کے تحت ورکرز کو اچھی نوکریاں ملیں گی اور تربیت دی جائے گی۔
فروری میں امریکی حکومت کے ایک پروگرام کے تحت سیمی کنڈکٹر شعبے کو بہتر بنانے کے لیے فنڈنگ کا اعلان کیا گیا تو یہ شرط رکھی گئی کہ 150 ملین ڈالر سے زیادہ کے کنٹریکٹ کے لیے درخواست دینے والوں کو ورکرز کے بچوں کا خیال رکھنے والے منصوبے کو بھی شامل کرنا ہو گا۔
پاور سولوشنز کی بانی ہکس کا کہنا ہے کہ معیشت کے ایندھن پر انحصار کو ختم کرنے کی کوشش میں درپیش مزدوروں کی کمی دوسری جنگ عظیم جیسی ہے جب لاکھوں خواتین نے فیکٹریوں میں کام کرنا شروع کیا۔
لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد یہ خواتین اپنے گھروں کو لوٹ گئیں۔ ہکس کہتی ہیں کہ ’اس بار فرق یہ ہے کہ ہم واپس نہیں جائیں گے۔‘
Comments are closed.