’یہ چیز خارج از امکان نہیں کہ غبارے کوئی خلائی مخلوق تھی‘
امریکی افواج ابھی تک یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ گزشتہ دنوں شمالی امریکہ کے آسمانوں پر جن تین اجسام کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا تھا، وہ غبارہ نما اجسام اصل میں کیا تھے اور وہ اتنی دیر تک کیسے فضا میں اڑتے رہے۔
صدر جو بائیڈن نے ایک ایسی ہی چوتھی خلائی شے کو تباہ کرنے کا حکم دے دیا تھا جسے اتوار کو مار گرایا گیا ہے۔
امریکہ کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ غبارے 20 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہے تھے اس لیے خدشہ تھا کہ اگر انھیں گرایا نہ گیا تو مسافر بردار طیاروں کی پروازوں میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔
امریکی افواج کے ایک کمانڈر کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یہ اجسام ’گیس کے غبارے یا کسی قسم کے پروپلشن سسٹم ہوں۔‘ تاہم کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ اس امکان کو بھی رد نہیں جا سکتا کہ یہ اجسام یو ایف او یا کسی خلائی مخلوق کی طرف سے بھیجے گئے خلائی اجسام ہوں۔
سرکاری حکام کے مطابق جس چوتھی خلائی شے کو کینیڈا اور امریکہ کی سرحد کے قریب ریاست مشیگن کی جھیل ہیرون کی فضا میں نشانہ بنایا گیا، وہ ایک ’آٹھ رخی‘ شے تھی جس کے ساتھ تار یا باریک رسی جیسی چیزیں لگی ہوئی تھیں۔
اتوار کو مشیگن کے وقت کے مطابق اس شے کو دن دو بجکر 42 منٹ پر ایک ایف 16 طیارے کے ذریعےمارے گئے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔
اس واقعے کے بعد گزشتہ ایک ماہ کے دوران شمالی امریکہ میں گرائے جانے والے غبارہ نما اجسام کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکی افواج کی ناردرن کمانڈ کےسربراہ، جنرل گلین وینہرک کا کہنا تھا کہ انھیں ان اجسام سے کسی قسم کے خطرے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔
’میں انہیں غبارے نہیں کہوں گا۔ ہم انھیں فضائی اجسام کہتے ہیں اور اس کی ایک وجہ ہے۔‘
’ہم جو جو چیز دیکھ رہے ہیں وہ اصل میں نہیات چھوٹے چھوٹے (فضائی) اجسام ہیں اور ریڈار پر ان کا قطر نہایت ہی کم دکھائی دیتا ہے۔‘
یہ اجسام آخر ہیں کیا، اس حوالے سے گزشتہ چند دنوں میں افواہوں میں تیزی آ گئی ہے۔
جب جنرل وینہرک سے پوچھا گیا کہ آیا یہ اجسام کوئی دوسری خلائی مخلوق ہو سکتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’میں یہ چیز اینٹیلی جنس برادری اور (دوسرے ممالک کی خفیہ کارروائیوں) کا تدارک کرنے والے اہلکاروں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کھوج لگائیں۔‘
تاہم ’میں نے اس موقع پر کسی چیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔‘
یاد رہے کہ امریکہ کی فضاؤں میں کئی دن تک گھومنے والے ایک مشتبہ چینی غبارے کو 4 فروری کو جنوبی امریکہ میں مار گرایا گیا تھا۔ امریکی حکام نے کہا تھا یہ غبارہ چین سے اڑا تھا اور اس کا مقصد امریکہ میں حساس مقامات کی معلومات جمع کرنا تھا۔ چین نے اس الزام سے انکار کیا تھا کہ یہ غبارہ خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چین کا کہنا تھا کہ یہ غبارہ دراصل موسم سے متعلق معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے امریکہ نے جلد بازی میں مار گرایا۔
اس پہلے واقعے کے بعد گزشتہ تین دنوں میں امریکی جنگی طیارے تین مزید ایسے ہی زیادہ بلندی پر پرواز کرنے والے فضائی اجسام تباہ کر چکے ہیں۔
جمعہ کو صدر بائیڈن نے الاسکا کی فضاؤں میں ایک غبارہ تباہ کرنے کا حکم دیا تھا اور سنیچر کو بھی شمال مغربی کینیڈا میں یکون کی فضاؤں میں تیسرے غبارے کو تباہ کیا گیا تھا۔
امریکہ اور کینیڈا دونوں ان تباہ کیے جانے والے غباروں کا ملبہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں الاسکا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے تلاش کے کام میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پیر 13 فروری کو چین کی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران امریکہ دس مرتبہ چین کی فضاؤں میں اسی قسم کے غبارے اڑا چکا ہے۔
وزارتِ خارجہ کےترجمان نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ دوسرے ممالک کی فضائی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہو جانا خود امریکہ کے لیے بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔‘
کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینئیر رکن چک شومر نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس حکام کو یقین ہے کہ (چین کی جانب سے ) یہ فضائی اجسام خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے
دوسری جانب سنیچر کو واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ ممکن ہے انہیں چوتھے غبارے کا پتہ اس لیے چل گیا ہو کیونکہ انھوں نے ریڈار اور دیگر سینسرز کا دائرہ کار بڑھا دیا۔‘
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذکورہ افسر نے امریکی فضائی حدود کی نگرانی میں اضافے کو نئی کار کے خریدار سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا ہی جیسے کوئی خریدار انٹرنیٹ پر کار تلاش کرتے ہوئے کچھ اور باکِسز پر ٹِک کر دیتا تاکہ انٹرنیٹ اسے زیادہ سے زیادہ کاروں کے نمونے پیش کرے۔
ایک اور سینیئر اہلکار نے امریکی چینل اے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں جن تین اجسام کو مار گرایا ہے، ممکن ہے وہ موسم کا جائزہ لینے والے غبارے ہوں اور ان کا مقصد سراغرسانی نہ ہو۔
لیکن لگتا ہے کہ کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینئیر رکن اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ انھوں نے اسی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انٹیلی جنس حکام کو یقین ہے کہ (چین کی جانب سے ) یہ فضائی اجسام خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔
سینیٹر چک شُومر کا کہنا تھا کہ حکام کو یقین ہے کہ یہ اجسام غبارے ہی تھے، لیکن یہ اس پہلے غبارے کی نسبت بہت چھوٹے تھے جسے ریاست جنوبی کیرولائنا کے ساحل کے قریب گرایا گیا تھا۔
ریاست مشیگن سے سینیٹ کے کئی دیگر ارکان کی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن ڈیبی ڈِنگل نے بھی اتوار کو ریاست میں ایک غبارے کو مار گرانے پر امریکی فوج کی تعریف کی، تاہم انھوں نے وائٹ ہاؤس اور عسکری حکام پر زور دیا ہے کہ اس حوالے سے مزید معلومات فراہم کی جائیں۔
’ہمیں حقائق درکار ہیں کہ یہ (غبارے) کہاں سے اڑائے جا رہے ہیں، ان کا مقصد کیا ہے، اور ان کی تعداد میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔‘
دوسری جانب ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدر بائیڈن کو مسلسل تنقید کا سامنا ہے اور پارٹی کا کہنا ہے کہ پہلے مشتبہ غبارے کو بھی بہت پہلے گرا دینا چاہیے تھا۔
Comments are closed.