امریکہ کا پہلا ایٹمی تجربہ: ’دس بہن، بھائیوں میں سے صرف میں زندہ بچی، باقی سب کینسر سے مر گئے‘
- الیسنڈرا کوریا
- بی بی سی برازیل
ٹینا کورڈووا کا خاندان نیو میکسیکو کے شہر تلروسا میں رہتا تھا
16 جولائی سنہ 1945 کی صبح معمول کے مطابق امریکہ سے تعلق رکھنے والے ڈیمیسیو پیرالٹا نے اپنے کھیت کے ساتھ واقع باغ میں اپنی گائے کو چارہ ڈالا، یہ کام اُن کے روزمرہ معمول کا ایک حصہ تھا۔
ڈیمیسیو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ ریاست نیو میکسیکو کے مضافات میں تین کمروں کے چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے اور اُن کے گاؤں کی آبادی اُس وقت فقط ایک ہزار افراد پر مشتمل تھی۔
ان کی اہلیہ فرانسسکویٹا سلوا پیرلٹا اس وقت حاملہ تھیں اور ان کے ہاں دسویں بچے کی پیدائش متوقع تھی۔
لیکن اس صبح اِس جوڑے کی معمول کی زندگی ایک بڑے دھماکے کی آواز سے کچھ بدل گئی، اس دھماکے نے زمین کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور دھماکے کے ساتھ ساتھ ’سورج کی روشنی سے زیادہ طاقتور‘ چمک اور دھوئیں کے گہرے بادل اُمڈ آئے تھے۔
اس حقیقت سے بے خبر کہ ابھی ابھی انھوں نے کتنا بڑا واقعہ رونما ہوتے دیکھا ہے، ڈیمیسیو اپنے بچوں اور بیوی کی خیریت کی دعائیں مانگتے ہوئے اپنے گھر پہنچے جہاں انھوں نے اپنی بیوی اور دو بڑی بیٹیوں کو ایک کونے میں پناہ لیے اور روتے ہوئے دیکھا۔
اس جوڑے کی سب سے چھوٹی بیٹی جینووا پیرالٹا پورسیلا نے بی بی سی برازیل کو بتایا کہ ’دھماکے سے گھر ہل گیا تھا اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے، ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ شاید دنیا کا اختتام قریب آن پہنچا ہے۔‘
جب بعد میں ڈیمیسیو اپنے مویشیوں کا معائنہ کرنے کے لیے نزدیک واقع جانوروں کے باڑے میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ناصرف زمین بلکہ اُن کی تمام گائیں بھی سفید پاؤڈر سے ڈھکی ہوئی تھیں اور ’ہر طرف برف تھی۔‘
چند عرصے بعد پیرالٹا خاندان اور خطے کے دیگر لوگوں نے دھماکے کی وجہ اور آسمان سے گرنے والی راکھ کی اصلیت کا پتا لگایا۔ چند کلومیٹر دور امریکی حکومت نے پہلا ٹیسٹ کیا تھا یعنی دنیا میں پہلا ایٹم بم ٹیسٹ۔
یہ ’ٹرینیٹی ٹیسٹ مین ہٹن پراجیکٹ‘ کا حصہ تھا جو دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹم بم تیار کرنے کا پروگرام تھا۔
اگرچہ بم دھماکے کے لیے منتخب کردہ جگہ جورنڈا ڈیل مورٹو صحرا، ایک دور دراز خطہ سمجھا جاتا ہے، جہاں بہت سے خاندان آس پاس الگ تھلگ کھیتوں اور چھوٹی دیہی برادریوں میں بستے تھے۔
یہ آبادی جن میں سے بہت سے مقامی امریکی یا ہسپانوی نژاد تھے، کا اس خطے سے کبھی بھی انخلا نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ٹیسٹ کے بارے میں انھیں خبردار کیا گیا۔ اس بات سے بے خبر کہ انھیں تابکاری کا سامنا تھا، یہ مقامی رہائشی اس ٹیسٹ کے بعد بھی معمول کی زندگی انھیں آبادیوں میں گزارتے رہے۔
لیکن حالات نے ثابت کیا کہ اس ٹیسٹ کا ان آبادیوں پر گہرا اثر پڑا۔ 75 سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد زندہ بچ جانے والے اور ان کی اولادیں اس کے اثرات کو دہائیوں تک محسوس کرتی رہیں۔
پورسیلا نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’دس (بہن اور بھائیوں) میں سے میں واحد زندہ بچ سکی ہوں۔ باقی سب کینسر سے مر گئے۔‘
اس کے بعد کے جوہری تجربات کے قریبی علاقے کے رہائشیوں کے برعکس جنھیں خراب صحت کی وجہ سے معاوضہ دیا گیا تھا، نیو میکسیکو میں زندہ بچ جانے والوں کی کبھی بھی شناخت نہیں ہو سکی۔
آج تک یہ خاندان ایک سرکاری پروگرام میں شامل ہونے کے منتظر ہیں جو متاثرہ افراد کو معاوضہ فراہم کرتا ہے۔
’آبادی والے علاقوں سے دور‘
ٹرینیٹی کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے بارے میں ایک رپورٹ جو سنہ 2010 میں سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے ذریعے شائع ہوئی، جو کہ قومی محکمہ صحت سے منسلک ایک عوامی صحت کی تحقیقی ایجنسی ہے، بتاتی ہے کہ ابتدائی طور پر آٹھ مقامات پر یہ ٹیسٹ کرنے کے لیے غور کیا گیا تھا۔ تین جگہیں نیو میکسیکو میں، دو کیلیفورنیا میں، ایک ٹیکساس میں اور ایک کولوراڈو میں واقع تھی۔
سائنسدان ایک ایسے علاقے کی تلاش کر رہے تھے جس میں بہت سی دوسری خصوصیات کے ساتھ متوازی خطہ اور دھوپ والی آب و ہوا ہو۔ ایک اہم معیار یہ تھا کہ یہ ’آبادی والے علاقوں سے کافی دور‘ ہو۔
مین ہٹن پراجیکٹ کے فوجی سربراہ، میجر جنرل لیسلی گروز نے اصل میں کیلیفورنیا کے ایک علاقے کی حمایت کی لیکن آخر میں اس ٹیسٹ کے لیے نیو میکسیکو میں جورنڈا ڈیل مورٹو صحرا کا انتخاب کیا۔
جب امریکہ نے جوہری تجربہ کیا اس وقت انیسٹاشیو کورڈووا کی عمر چار سال تھی
امریکہ میں انتخابات کا اعلان اگست 1944 میں کیا گیا تھا۔ سنہ 1945 کے آغاز تک 200 سے زیادہ سائنسدان، فوجی، ٹیکنیشن، ڈاکٹر اور تعمیراتی ٹیمیں پہلے ہی اس جگہ پر آباد ہو چکی تھیں جو ٹیسٹ کے لیے ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے خفیہ طور پر کام کر رہی تھیں۔
16 جولائی 1945 کو صبح 5:29 بجے پلوٹونیم بم کو ایک ٹاور کی چوٹی پر پھینکا گیا اور دھماکہ کر دیا گیا۔
امریکی محکمہ توانائی کی جانب سے فراہم کی جانے والی تفصیل کے مطابق دھماکے سے ’18.6 کلو ٹن توانائی خارج ہوئی، جس نے فوری طور پر ٹاور کو خاکستر کر دیا اور آس پاس کے اسفالٹ اور ریت کو سبز شیشے میں تبدیل کر دیا۔‘
’سورج سے زیادہ گرم‘
دھماکہ توقع سے زیادہ طاقتور تھا اور اس نے ’سورج سے نکلنے والی حرارت سے دس ہزار گنا زیادہ‘ درجہ حرارت پیدا کیا۔ جن ٹیموں نے ٹیسٹ دیکھا انھوں نے گرمی کے احساس کو بیان کیا جو ’ایک بہت بڑے آگ کے گولے کی مانند ٹھہر گئی تھی۔‘
وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے ایک ’دیوہیکل بادل کے دھویں کو نیلے رنگ کی چمک میں گھرا ہوا‘ دیکھا اس کے بعد ’شاک ویو پریشر‘ کے ساتھ دھماکے کی آواز پیدا ہوئی جو ’پانچ منٹ سے زیادہ دیر تک گونجتی رہی۔‘
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ ’ایٹمی دھماکے نے ایک درجن سورج سے زیادہ آنکھوں کو خیرا کرنے والی روشنی کی چمک پیدا کی۔ یہ روشنی نیو میکسیکو اور ایریزونا، ٹیکساس اور میکسیکو کے کچھ حصوں میں دیکھی گئی۔‘
دھماکے کی شدت سے 150 کلومیٹر سے زیادہ دور کے شہروں میں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
رپورٹ کے مطابق بم کے مرکز میں موجود کل چھ کلوگرام پلوٹونیم میں سے صرف 1.2 کلو گرام ہی پھٹا جبکہ باقی جوہری راکھ میں بکھر گیا۔
اوپر بیان کی گئی دستاویز کے مطابق ’تقریباً 4.8 کلوگرام پلوٹونیم غیر منقسم اور ماحول میں منتشر رہا۔‘
دھویں کا بادل 20 کلومیٹر سے اوپر اٹھ کر تین بڑے حصوں میں تقسیم ہو کر پھیل گیا۔ ایک مشرق، دوسرا مغرب اور شمال مغرب اور تیسرا شمال مشرق۔
بادل ملک کی سرحد کو عبور کر گیا، یہاں تک کہ ملک کے شمال مشرق میں نیو انگلینڈ میں بھی دیکھا جا رہا تھا۔
آسمان سے گرتی راکھ
اگرچہ ٹیسٹ کی جگہ کے آس پاس کے علاقے میں کوئی بھی باشندہ نہیں تھا لیکن تقریباً 15 ہزار لوگ 25 کلومیٹر کے دائرے میں رہتے تھے اور تقریباً پانچ لاکھ افراد 250 کلومیٹر کے دائرے میں رہتے تھے۔
ٹینا کورڈووا کا تعلق ایک خاندان کی ساتویں نسل سے ہے جس کا تعلق تلروسا سے ہے، یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو ٹرینیٹی ٹیسٹ کے مقام سے تقریباً 75 کلومیٹر دور واقع ہے اور جس میں اُس وقت تقریباً 1,500 افراد رہتے تھے۔
ٹینا ٹیسٹ کے 14 سال بعد پیدا ہوئی تھیں لیکن انھیں یاد ہے کہ ان کی دادی نے انھیں اس دن کے بارے میں بتایا تھا۔
ٹرینیٹی ٹیسٹ امریکہ میں ایٹم بم کے پہلے دھماکے کے منصوبے کا نام تھا
ٹینا کورڈووا نے بی بی سی برازیل کو بتایا کہ ’ان کی دادی کے مطابق انھیں بنیادی طور پر دھماکے کے بعد کئی دن تک آسمان سے گرنے والی راکھ یاد تھی۔‘
یہ سفید مادہ جسے علاقے کے کچھ باشندے گرم ہونے کے باوجود برف سمجھتے تھے، لوگوں، جانوروں، باغوں، جھیلوں، دریاؤں اور حوضوں کے کپڑوں اور جلد کو رنگ دیتے تھے او ر جب اس ماحول میں بارش ہوتی تو اس کے پانی کو استعمال کرنے کے لیے جمع کر لیتے تھے۔
کورڈووا بتاتی ہیں کہ ’سنہ 1945 میں نیو میکسیکو کے دیہی علاقوں میں بہتا ہوا پانی نہیں تھا۔ زیادہ تر خاندانوں کے پاس ایک حوض تھا۔‘
’سب کچھ آلودہ تھا‘
وہ جس خطرے سے دوچار تھے اس سے بے خبر وہاں کے لوگ پینے، کھانا پکانے، نہانے، گھر کی صفائی، باغات کو پانی دینے اور جانوروں کو پانی پلانے کے لیے آلودہ پانی استعمال کرتے رہے۔
گوشت، انڈے اور دودھ کی مصنوعات کے لیے مرغیاں، گائے اور سور پالے جاتے جبکہ وہ چھوٹے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا بھی شکار کرتے اور پھل اور سبزیاں بھی لگاتے تھے۔
کورڈووا کہتی ہیں کہ ’اور اب ہر چیز آلودہ تھی۔ مٹی اور اس پر اگنے والی ہر چیز، یہاں تک کہ جانوروں کے لیے گھاس بھی آلودہ تھی۔‘
زندگی کا طریقہ خطے کی دیگر دیہی برادریوں میں بھی ایسا ہی تھا، جیسے کیپٹن نامی گاؤں، جو ٹیسٹ سائٹ سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، جہاں جینووا پورسیلا کا خاندان رہتا تھا۔
پورسیلا یاد کرتی ہیں کہ ’میرے والد نے مکئی، پھلیاں اور آلو اُگائے۔ میری والدہ کے پاس ایک باغ تھا، وہ سبزیاں لگاتی تھیں۔ یہی ہم کھاتے تھے۔ بارش کا پانی جو چھت سے بہتا تھا ایک پائپ کے ذریعے حوض تک لے جایا جاتا تھا اور ہم اسے پیتے تھے۔‘
کورڈووا بتاتی ہیں کہ اس خطے میں رہنے والے لوگ کئی دن تک گرنے والی راکھ سے آلودہ ہوا میں سانس لینے، آلودہ پانی پینے اور کھانے سے آلودہ ہو گئے تھے۔
منصوبہ خفیہ تھا
علاقے کے مکینوں کو خطرات کے بارے میں خبردار کرنے کے بجائے ٹیسٹ کے بعد حکومت نے ’کسی بھی قسم کی خبروں کو دبانے کے لیے کام کیا جو عوام کو خطرے میں ڈال سکتی تھیں اور یہ غلط معلومات پھیلائیں کہ دھماکہ کسی دور دراز مقام پر گولہ بارود میں لگنے والی آگ سے ہوا۔‘
،تصویر کا ذریعہPersonal Archive
ڈیحمیشیو اور فرانسِسکیٹا نیو میکسیکو میں دنیا کے پہلے ایٹم بم کے ٹیسٹ کی جگہ کے قریب رہتے تھے
سی ڈی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ٹیسٹ کے حوالے سے برتی جانے والی بہت زیادہ رازداری کی وجہ سے اصل میں کیا ہوا، اس کے بارے میں درست معلومات کو اس وقت تک عام نہیں کیا گیا جب تک کہ جاپان پر تین ہفتے بعد دوسرا ایٹم بم نہیں گرا لیا گیا تھا۔‘
متاثرہ علاقوں کے مکینوں کی حفاظت اتنی اولین ترجیح نہیں تھی جتنی کہ رازداری تھی۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’یہ اس لیے ضروری تھا کہ جاپانیوں کو اطلاع نہ مل جائے‘ اور عوامی حفاظت کی وسیع احتیاطی تدابیر اس خفیہ منصوبے کو کہیں آشکار نہ کر دیں۔
ابتدائی طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ٹیسٹ کے نتیجے میں فضا میں موجود تابکاری ذرات زیادہ مسئلہ پیدا نہیں کریں گے۔
’علاقے کے رہائشیوں کو پیشگی وارننگ دینے کے کسی بھی خیال کو مسترد کر دیا گیا‘ کیونکہ موسم کی مثالی صورتحال کے پیش نظر یہ خطرہ چھوٹا لگتا تھا لیکن ٹیسٹ سے پہلے کے دنوں میں نئے حسابات نے اشارہ کیا کہ جوہری راکھ اصل توقع سے کہیں زیادہ پھیل جائے گی۔
تاہم سب سے بڑی تشویش فوری خطرات کے ساتھ تھی ’چونکہ تابکاری کے تحفظ کی کمیونٹی میں سوچ ابھی تک ممکنہ طویل مدتی اثرات پر مرکوز نہیں تھی۔‘
یہ بھی پڑھیے
’صحت کے لیے خطرات‘
دھماکے کے بعد بہت سے رہائشیوں نے جانوروں کے جھلسنے کی اطلاع دی۔ کچھ گائیوں کی کھال جل گئی اور کچھ افراد نے کہا کہ اُن کی مرغیاں مر گئیں۔
کورڈووا نے نشاندہی کی کہ حکومت نے مشاہدے کے لیے کچھ گھروں کے مویشی بھی ضبط کر لیے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن انھوں نے کبھی لوگوں کو آگاہ نہیں کیا اور انھوں نے لوگوں کی مدد یا خطرات کی وضاحت کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔‘
،تصویر کا ذریعہPersonal Archive
جینووا پیرالٹا پورسیلا 10 بہن بھائیوں کے خاندان میں سے زندہ بچ جانے والی واحد فرد ہیں
ٹیسٹ کے کئی دہائیوں بعد ٹیم کے ڈائریکٹر نے علاقے میں تابکاری کی سطح کی نگرانی کا کام شروع کروایا، لوئس ہیمپل مین نے اعتراف کیا کہ ’کچھ لوگ شاید بہت ذمہ دار تھے۔‘
ہیمپل مین نے کہا کہ ’لیکن وہ اسے ثابت نہیں کر سکے اور ہم (نہ ہی) کر سکتے ہیں۔‘
سی ڈی سی کے مطابق ’ٹرینیٹی ٹیسٹ سے عوامی (تابکاری) نمائش کے جائزے جو آج تک شائع ہوئے ہیں وہ نامکمل ہیں کیونکہ وہ (علاقے) کے رہائشیوں کو آلودہ ہوا، خوراک اور تابکاری کے ادخال کے ذریعے موصول ہونے والی اندرونی خوراک اور اس کے پانی پر اثرات کا ذکر نہیں کرتے۔‘
دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ ’چونکہ وہ لوگ جو 30 کلومیٹر کے دائرے میں رہتے تھے انھیں منتقل نہیں کیا گیا تھا، اس کے نتیجے میں اندرونی تابکاری صحت کے لیے اہم خطرات لاحق ہو سکتی ہیں۔‘
کینسر سے متاثرہ ایک سے زیادہ نسلیں
جینووا پورسیلا کی عمر 16 سال تھی جب ان کے والد ڈیمیسیو پیرالٹا کا کینسر سے انتقال ہو گیا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ’مجھے پیٹ کا کینسر، آنکھ کا کینسر ہوا، اور اسی کینسر کی وجہ سے تلی اور جگر (Hodgkin’s lymphoma) کے سائز بڑھ گئے۔‘
ان کی والدہ فرانسسکویٹا کو چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور ان کے بہن بھائیوں کو کینسر اور دیگر بیماریاں لاحق ہوئیں۔
پورسیلا نے افسوس کا اظہار کیا، جو ماضی میں بھی اس بیماری میں مبتلا تھیں لیکن علاج کے بعد ٹھیک ہو گئی تھیں کہ ’میری ایک بہن 33 سال کی عمر میں چھاتی کے کینسر سے مر گئی۔ (سال بعد) اس کی بیٹی کو بھی یہی بیماری لاحق ہوئی اور وہ بھی مر گئی۔‘
ٹینا کورڈووا نے بم دھماکے کے بعد اپنے خاندان کے کئی افراد کو بیمار ہوتے اور کینسر سے مرتے دیکھا۔
کورڈووا کہتی ہیں کہ ’میں اپنے خاندان کی چوتھی نسل ہوں جسے ٹرینیٹی ٹیسٹ کے بعد سے کینسر کا مرض لاحق ہوا۔‘
کورڈووا کے مطابق ’میرے دو پردادا، جو ٹیسٹ کے وقت تلروسا میں رہتے تھے، پیٹ کے کینسر سے مر گئے۔ ان دونوں میں تشخیص سنہ 1955 میں ہوئی تھی۔ یہ اس وقت تھا جب ہماری کمیونٹی میں کبھی کسی نے کینسر کے بارے میں نہیں سُنا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میری دونوں دادیوں کو کینسر تھا، اگرچہ وہ اس سے نہیں مریں۔‘
اُن کے والد، اینسٹاشیو انٹونی کورڈووا، جو ٹیسٹ کے وقت چار سال کے تھے، پروسٹیٹ کینسر اور منھ کے دو قسم کے کینسر میں مبتلا تھے اور سنہ 2013 میں اس بیماری سے انتقال کر گئے۔
ان کی والدہ، دو خالہ، ایک کزن اور ایک بہن کو بھی اس بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اور میرا خاندان اتنا متاثر نہیں جتنا کہ دوسرے ہوئے، ایسے گھر تھے جہاں پورے پورے کنبے میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔‘
کورڈووا کہتی ہیں کہ جب اس کی تشخیص ہوئی تو ان کے ڈاکٹروں نے پوچھا کہ کیا وہ تابکاری کا شکار ہوئیں، کیا انھوں نے تابکار آئیسوٹوپس والی لیبارٹری میں کام کیا یا انھوں نے اپنی زندگی میں کئی ایکسرے کروائے یا کیے۔
’اور میرا جواب تھا کہ نہیں لیکن میں ٹرینیٹی ٹیسٹ سائٹ سے 75 کلومیٹر دور ایک قصبے میں پلی بڑھی ہوں۔‘
،تصویر کا ذریعہPersonal Archive
ڈیمیسیو پیرالٹا
’وطن کے دفاع میں کردار‘
جب چھ اگست 1945 کو امریکہ نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تو ٹرینیٹی کے آس پاس کے کچھ رہائشیوں نے اسے اس دھماکے سے جوڑا جس کا وہ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل مشاہدہ کر چکے تھے لیکن حکومت نے تب تک اس علاقے کی حالت کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی تھی اور نہ ہی تابکاری کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا۔
کورڈووا کہتی ہیں کہ ’حکومت نے ہم میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ ہمیں اس کردار پر فخر ہونا چاہیے جو ہم نے دوسری عالمی جنگ کو ختم کرنے میں ادا کیا، جو کردار ہم نے اپنے ملک کے دفاع میں ادا کیا۔‘
یہاں تک کہ جب بعد کے برسوں میں، مقامی کمیونٹیز کے بہت سے اراکین میں کینسر کی تشخیص ہونے لگی، تب بھی ہر کسی کو شک نہیں تھا کہ اس کا ایٹمی ٹیسٹ سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔
کورڈووا کا کہنا ہے کہ ’لوگوں نے صحت کے مسائل اور ٹیسٹ کے درمیان تعلق نہیں بنایا۔‘
کورڈووا کہتی ہیں کہ جیسے ہی وہ بالغ ہوئی، انھوں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ماضی کے دھماکے اور بیمار لوگوں کی بڑی تعداد کے درمیان ضرور کوئی تعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیے
لیکن یہ صرف سنہ 2004 میں تھا کہ ایک اور علاقے کے رہائشی، فریڈ ٹائلر کی طرف سے ایک مقامی اخبار کو بھیجے گئے خط کو پڑھنے کے بعد، انھوں نے حکومت سے جواب کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔
خط میں ٹائلر نے کہا کہ علاقے سے کئی سال دور رہنے کے بعد، وہ بہت سے لوگوں کو بیمار اور مرتے ہوئے دیکھ کر واپس آئے۔
کورڈووا، جو اس وقت اپنا آبائی شہر چھوڑ چکی تھیں اور البوکرک میں رہ رہی تھی، نے اُن سے رابطہ کیا۔
انھوں نے مل کر تنظیم ’تولاروسا بیسِن ڈاؤنوِنڈرز کنسورشیم‘ (Tularosa Basin Downwinders Consortium) بنائی، جو اس کیس کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے وقف ہے اور حکومت سے مقامی آبادی کو ہونے والے نقصان کو تسلیم کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
گذشتہ 17 سال سے کورڈووا اس ٹیسٹ کے گواہ رہائشیوں اور ان کی اولادوں سے صحت کے مسائل کی تفصیلات جمع کر رہی ہیں۔
معاوضہ قانون
سنہ 1965 میں امریکی افواج نے ٹرینیٹی ٹیسٹ سائٹ پر ایک یادگار تعمیر کی اور دس سال بعد اس علاقے کو قومی تاریخی نشان قرار دیا گیا۔
فی الحال اس سائٹ کا انتظام نیشنل پارک سروس کے ذریعے کیا جاتا ہے اور یہ سال میں دو بار عوام کے لیے کھولا جاتا ہے، اپریل کے پہلے ہفتے اور اکتوبر کے تیسرے ہفتے۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق امریکہ نے سنہ 1945 سے سنہ 1962 کے درمیان تقریباً 200 جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے ہیں۔
اس کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے یورینیم کے نکالنے اور پروسیسنگ میں کام کیا، جو ’قوم میں جوہری ہتھیاروں کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔‘
محکمے کا کہنا ہے کہ ’ان سرگرمیوں کے خاتمے کے بعد امریکی حکومت کے خلاف مقدمات میں تابکاری کی نمائش کے خطرات سے خبردار کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا گیا۔‘
سنہ 1990 میں ریڈی ایشن ایکسپوژر کمپنسیشن ایکٹ (RECA) منظور کیا گیا جو ان لوگوں کو معاوضے کی ادائیگی کا تعین کرتا ہے جو یورینیم کی صنعت میں ٹیسٹنگ یا کام کے دوران تابکاری کی نمائش کی وجہ سے سنگین بیماری میں مبتلا ہو گئے۔
اس کے بعد سے 45,000 سے زیادہ لوگوں کو دو ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی جا چکی ہے جن میں یورینیم کی کان کے کارکنان، ٹیسٹ سائٹس پر کام کرنے والے سرکاری اہلکار اور نیواڈا، یوٹاہ اور ایریزونا سمیت ریاستوں میں متاثرہ علاقوں کے لوگ شامل ہیں۔
تاہم اگرچہ ٹرینیٹی میں کام کرنے والے ملازمین کو معاوضہ دیا گیا لیکن ٹیسٹ کے قریب کے علاقے میں رہنے والے شہریوں کو قانون میں شامل نہیں کیا گیا اور انھیں کبھی معاوضہ یا شناخت نہیں ملی نہ ہی اس بات کی وضاحت کہ انھیں کیوں خارج کیا گیا۔
’بہت سے انتظار میں مر گئے‘
کورڈووا پوچھتی ہیں کہ ’اگر وہ جانتے تھے کہ نیواڈا میں (بعد میں) ٹیسٹ نے لوگوں کو نقصان پہنچایا تو انھیں یہ کیسے معلوم نہیں ہوا کہ ٹرینیٹی کے ٹیسٹ نے یہاں نقصان پہنچایا؟‘
اب ریاستی سینیٹرز اور کانگریس کے ارکان کی برسوں کی کوششوں کے بعد کانگریس میں دو بلوں پر کارروائی ہو رہی ہے: ایک ایوان میں اور دوسرا سینیٹ میں جو اس سال جولائی میں طے شدہ RECA کے دائرہ کار کی توسیع کرتے ہوئے کولوراڈو، ایڈاہو، اور مونٹانا میں متاثرہ رہائشی اور کمیونٹیز سمیت ٹرینیٹی سے متاثرہ علاقوں کو بھی شامل کرنے کی تجویز کرتا ہے۔
کورڈووا نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم (RECA) کی میعاد ختم ہونے سے پہلے (ان لوگوں کو شامل نہیں کر سکتے ہیں) تو ہم شاید کبھی نہیں کریں گے۔‘
نیوکلیئر ٹیسٹ کے تقریباً آٹھ دہائیوں بعد، بچ جانے والے بوڑھے ہو چکے ہیں۔ کورڈووا کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مدد کے لیے اتنے سال انتظار کیا لیکن انھیں یہ مدد کبھی نہیں ملی۔ بہت سے لوگ انتظار میں مر گئے۔‘ کورڈووا کہتی ہیں کہ بہت سے خاندانوں نے اپنی طبی دیکھ بھال پر اپنا سب کچھ خرچ کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ اسے مزید نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اب جبکہ وہ قصہِ پارینہ بن چکے ہیں، اگر وہ اس بارے میں کچھ نہ کر سکے تو وہ اس ناانصافی میں شریک ہوں گے۔‘
Comments are closed.