- مصنف, سحر بلوچ
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
- ایک گھنٹہ قبل
امریکہ نے چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر پاکستان کے میزائل پروگرام کی تیاری اور تعاون کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مِلر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ ان چار کمپنیوں کو نامزد کر رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل میں ملوث رہے ہیں۔ امریکہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کارروائی کرتا رہے گا۔‘واضح رہے کہ اب تک خود امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں جنگ کے لیے تین ارب ڈالرز سے زیادہ کے ہتھیار مہیا کیے ہیں۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد امریکہ کے حالیہ اقدامات کے حوالے سے آگاہ نہیں تاہم ماضی میں ’محض شک کی بنیاد پر فہرست جاری کی گئی یا پھر ان میں شامل اشیا کنٹرول لسٹ میں شامل بھی نہیں تھیں مگر انھیں حساس سمجھا گیا۔‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے برآمدی پابندیوں کے استعمال کو مسترد کرتا ہے۔
- امریکہ اپنے جوہری ہتھیار برطانیہ میں واقع بڑے فوجی اڈے پر کیوں منتقل کرنا چاہتا ہے؟20 فروری 2024
- فتح ٹو کا تجربہ: کیا پاکستان کا نیا میزائل سسٹم انڈیا کے دفاعی نظام کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟3 جنوری 2024
- انڈیا کا اگنی 5 میزائل کا تجربہ: اس نئے اور جدید ایٹمی میزائل کی خصوصیات کیا ہیں اور اس سے چین کو کیا خطرہ ہے؟12 مار چ 2024
یہ کمپنیاں کون سی ہیں اور ان پر امریکہ نے کیا الزامات عائد کیے ہیں؟
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک فیکٹ شیٹ بھی جاری کی گئی ہے۔اس فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکہ نے چین میں قائم شیان لونگڈے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ پر پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کی تیاری کے لیے پرزے اور آلات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس میں فلیمینٹ وائنڈنگ مشین بھی شامل ہے۔بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ فلیمینٹ وائنڈنگ مشین کو راکٹ موٹر کیسز تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔تیانجِن کری ایٹو انٹرنیشنل ٹریڈ کمپنی لمیٹڈ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو آلات فرام کیے ہیں۔ جس میں ’سٹرویلڈنگ‘ کا سامان بھی شامل ہے۔امریکہ کے مطابق سپیس لانچ ویہیکل میں استعمال ہونے والے پروپیلینٹ ٹینکوں کی تیاری میں بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔فیکٹ شیٹ میں چین کی گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ کمپنی پاکستان کی خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کے ساتھ مل کر راکٹ موٹروں کی جانچ پڑتال میں معاون آلات کی فراہمی میں ملوث پائی گئی ہے۔ اور مزید یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ یہی کمپنی پاکستان کو بڑی راکٹ موٹرز آزمانے کے لیے پرزے فراہم کرتی رہی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں ایم ٹی سی آر کیٹگری ون بیلسٹک میزائل کی پروڈکشن کی جاتی ہے۔فیکٹ شیٹ کے مطابق بیلاروس میں قائم مِنسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ نے پاکستان کو بیلسٹِک میزائل پروگرام کے لیے خصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے ہیں۔بیان کے مطابق یہ چیسس بیلسٹک میزائل کے لانچ سپورٹ پروگرام میں کام آتا ہے۔ جسے پاکستان کے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) کو فراہم کیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ان چار کمپنیوں پر یہ پابندی اب کیوں عائد کی جا رہی ہے؟
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں اس کا سادہ سا جواب یہ دیا گیا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔دوسری طرف پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کی جانب سے اس حوالے سے دیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ماضی میں بھی بغیر شواہد فراہم کیے ایسی نجی کمپنیوں پر پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر الزامات بھی۔’ہمیں امریکہ کی جانب سے لیے گئے حالیہ اقدامات کی مخصوص تفصیلات کا علم نہیں ہے لیکن ماضی میں ہمیں ایسے متعدد مواقع پر دیکھنے کو ملا ہے کہ شکوک کی بنیاد پر اور ایسے موقعوں پر جب مذکورہ اشیا کسی کنٹرول لسٹ کا حصہ نہیں تھیں لیکن انھیں حساس نوعیت کا سمجھ کر پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ پاکستان برآمدات پر پابندیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے معاملے کو مسترد کرتا ہے۔ ’یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی ادارے، جو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے والے قواعد کے کڑے استعمال کا دعویٰ کرتے ہیں، نے کچھ ممالک کی جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی لائسنسنگ کی ضرورت کو ختم کر رکھا ہے۔ ’اس کے باعث ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ، خطوں میں موجود ممالک کی طاقت میں عدم توازن اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے مقاصد اور خطے اور دنیا بھر کا امن اور سلامتی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے متعدد مرتبہ اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ برآمدات پر پابندیاں من مانی کی بنیاد پر نافذ نہ کی جائیں اور حکام کے مذکورہ حکام کے درمیان طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ ایسی ٹیکنالوجی جو معاشی اور معاشرتی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے پر بے بنیاد پابندیاں نہ لگائی جائیں۔ ’پاکستان اس بات کے لیے بھی تیار ہے کہ کسی بھی چیز کا استعمال اور استعمال کے وقت کی تصدیق کا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے بات چیت کی جائے تاکہ کمرشل صارفین ان امتیازی پابندیوں سے متاثر نہ ہوں۔‘ادھر سکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا تجزیہ کچھ اور کہتا ہے۔دفاعی امور کے ماہر سیّد محمد علی نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ دنیا بھر میں عالمی قانون، عالمی ادارے اور عالمی ٹیکنالوجی تک رسائی جیو پولٹکس کے زیرِ اثر رہی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesانھوں نے کہا کہ ’چین کی معاشی ایکسپنشن اور وسعت کو روکنے یا محدود رکھنے کی مغربی ممالک کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ان پابندیوں کے بعد ان الزامات کو چیلنج کرنے، اس کا جواب دینے یا پھر اس کی قانونی چارہ جوئی کی تمام تر ذمہ داری ان چینی کمپنیوں پر ہے جن پر یہ الزامات لگائے گئے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’دوسری جانب پاکستان کا کئی دہائیوں سے یہی جواب رہا ہے کہ اس کے سٹریٹیجک پروگرامز ان کے مقامی وسائل سے تیار کیے گئے ہیں۔‘اگر امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ پر نظر دوڑائیں تو اس میں دو ٹوک اور سخت پاندیاں لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان چاروں کمپنیوں کے امریکہ میں موجود یا امریکی افراد کی تحویل میں موجود تمام تر اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔ان کمپنیوں کی ملکیت رکھنے والے افراد کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔ اور امریکی شہریوں کو ان کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا جائے گا۔تاہم صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سیّد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس پابندی کی ایک وجہ رواں سال فروری میں سامنے آنے والی ایک خبر سے بھی جڑی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’چار پاکستانی شہریوں پر امریکی افسران نے ایرانی میزائل کے پرزے حوثی باغیوں کو پہنچانے کا الزام عائد کیا تھا۔ محمد پہلوان نامی اس شخص پر یہ الزام فروری میں لگایا گیا تھا جبکہ اس کی گرفتاری جنوری میں ایک آپریشن کے دوران ہوئی تھی۔‘تفصیلات کے مطابق، امریکہ کی جانب سے یہ آپریشن جنوری کے اوائل میں کیا گیا تھا جس کے دوران دو نیوی سیلز ہلاک ہوگئے تھے۔اس واقعے کے بعد امریکہ کی فیڈرل کورٹ میں یہ دلائل دیے گئے تھے کہ پاکستانی شہری محمد پہلوان، جو کہ اس واقعے کے اہم ملزم ہیں، ان کو ہتھیار پہنچانے پر 20 سال کی سزا اور کوسٹ گارڈ سے جھوٹ بولنے پر مزید پانچ سال کی سزا ہوسکتی ہے۔واضح رہے کہ امریکہ یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ حوثی باغیوں کو مبینہ طور پر ایرانی میزائل بحیرہ احمر (یا ریڈ سی) کے ذریعے ملتے رہے ہیں۔امریکہ کے محکمۂ انصاف نے کہا ہے کہ یہ ہتھیار یا میزائل مبینہ طور پر امریکی جہاز پر ہونے والے حالیہ حملوں میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ رواں سال جنوری سے اس آپریشن کو جاری رکھا ہوا ہے تاکہ حوثی باغیوں کی کسی قسم کی مدد نہ ہوسکے۔اعزاز سیّد نے کہا کہ ’ایک اور مسئلہ امریکہ کو ایران اور پاکستان کے بڑھتے تعلقات سے بھی ہے۔ جو ایرانی وفد کی 22 اپریل کو پاکستان آمد سے بھی جڑی ہے جس کا ایجنڈا ناصرف باہمی تعلقات کو بہتر بنانا ہے بلکہ خطے کی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مشرکہ لائحہ عمل تیار کرنا بھی ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کے تعلقات ایران سے کسی طرح نارملائز ہوں۔‘انھوں نے کہا کہ ’اسی لیے یہ پابندی ایک تنبیہ بھی ہے کہ ابھی تو صرف کمپنی پر پابندی لگائی ہے۔ اس کے بعد ملک پر بھی لگا سکتے ہیں۔‘
امریکہ کی جوہری پابندیوں کی تاریخ
تاہم یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ نے کسی ملک پر اس قسم کی پابندی عائد کی ہو۔اس کے لیے اگر ماضی کے چند واقعات پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی امریکہ کی طرف سے پاکستان پر بھی اسی قسم کی پابندی عائد کی گئی تھی۔2021 میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی 13 کمپنیوں پر الزام لگا کر پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ کمپنیاں پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام میں مبینہ طور پر مدد فراہم کررہی ہیں۔اُس وقت ان کمپنیوں کے بارے میں تجزیہ کار اور محققین نے کہا تھا کہ ان کمپنیوں کا پاکستان کے جوہری یا میزائل پروگرام سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہ کمپنیاں تجارت، انجینیئرنگ اور درآمدات کے کاروبار سے وابستہ ہے۔پھر 2023 میں بھی امریکہ نے پاکستان کو بیلسٹک میزائیل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔اس بار جن کمپنیوں پر الزام عائد کیا گیا ہے اب تک ان کی جانب سے ان پابندیوں پر بیان نہیں دیا گیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.