امریکہ نے مہنگائی کی 40 سالہ ریکارڈ لہر پر اتنی جلدی کیسے قابو پایا؟

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سسیلیا بارریا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ

چار دہائیوں کی سب سے بلند سطح کو چھونے کے بعد امریکہ میں گذشتہ سال مہنگائی نو اعشاریہ ایک سے کم ہوتی ہوئی جون کے مہینے میں تین فیصد پر آ چکی تھی۔

یہ گراوٹ اتنی ہی حیران کن تھی جتنا مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ تھا۔

جی سیون میں شامل دنیا کے دیگر امیر ممالک جن میں جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں، سے موازنہ کیا جائے تو امریکہ میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافے کے بعد ہونے والی کمی سب سے تیز تر تھی۔

وینڈی ایڈلبرگ بروکنگ انسٹیٹیوشن تھنک ٹینک کی سینئر فیلو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں کمی لانے کی امریکی کوششوں میں کامیابی کی وضاحت توانائی کی قیمتوں سے ہو سکتی ہے۔

امریکہ بھی یورپ کی طرح ہی یوکرین کی جنگ سے متاثر ہوا تھا تاہم یورپ کے روس پر انحصار کی وجہ سے توانائی بحران کافی شدت اختیار کر گیا تھا۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، کو مہنگائی کا دباؤ کم کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ تاہم ماہر معیشت وینڈی ایڈلبرگ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی کامیابی کا راستہ کافی پیچیدہ تھا۔

بی بی سی منڈو سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہم کچھ عرصہ قبل تک کافی پریشان تھے۔‘ اس پریشانی کی وجہ توانائی اور خوراک کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ تھا۔

شرح سود میں اضافہ

امریکہ میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ان کی مانگ میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ وینڈی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسا ہی تھا جیسے ہر ہفتے کرسمس ہو۔‘

تاہم اس طلب میں اب کمی آ رہی ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی فیڈرل ریزرو بینک، جو مرکزی بینک ہے، کی جانب سے بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں متواتر اضافے کی پالیسی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈیوڈ ولکوکس پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس اینڈ بلوم برگ اکنامکس میں سینئر اکانومسٹ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو نے کافی جارحانہ انداز میں شرح سود میں اضافہ کیا تاکہ افراط زر پر قابو پایا جا سکے۔

اس پالیسی کی وجہ سے مکان یا گاڑی خریدنا یا کسی نئے انوسٹمنٹ منصوبے کے لیے قرض لینا پہلے سے زیادہ مہنگا ہو گیا جسے عوام کی جانب سے پیسہ خرچ کرنے کی روش پر بریک لگانے سے تعبیر کیا گیا تاکہ مہنگائی میں اضافے کے رجحان کو روکا جا سکے۔

لاطینی امریکہ سمیت مختلف ممالک میں اس حکمت عملی کو اپنایا جاتا رہا ہے۔

مصنوعات کی وسیع رینج

امریکہ میں افراط زر میں کمی کی ایک وجہ دستیاب مصنوعات کی فراہمی میں تعطل کا خاتمہ بھی ہے۔ ڈیوڈ ولکوکس کا کہنا ہے کہ کوورنا کی وبا کے بعد اس تعطل کی وجہ سے کافی مسائل پیدا ہوئے تھے۔

ان کے مطابق یہ ایک ’کنٹینر بحران‘ تھا جس میں مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی اور شپنگ کی لاگت میں اضافہ ہوا لیکن رفتہ رفتہ یہ مسئلہ حل ہونا شروع ہو گیا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن اسی وقت جب یہ مسائل حل ہونا شروع ہو رہے تھے تو فروری 2022 میں یوکرین میں جنگ چھڑ گئی اور مہنگائی کے طوفان کو روکنا مذید مشکل ہو گیا۔

لیکن امریکہ کو اس بات کا فائدہ ہوا کہ وہ توانائی کی ضروریات کے لیے روس پر اس حد تک انحصار نہیں کرتا جتنا یورپ کرتا ہے۔ اسی لیے مہنگائی جنگ کے بعد فوری طور پر بڑھی لیکن پھر اسی تیزی سے کم بھی ہوئی۔

لیکن ابھی بھی معاملات بلکل ٹھیک نہیں ہیں۔

ڈیوڈ ولکوکس کا ماننا ہے کہ معیشت اور افراط زر ابھی تک روایتی طرز پر واپس نہیں آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا امریکہ عالمی کساد بازاری سے متاثر ہو گا؟

ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں ریکارڈ اضافہ معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔

عام طور پر جب شرح سود میں اضافہ کیا جاتا ہے تو معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوتی ہے اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر اب تک امریکہ میں ایسا نہیں ہوا جو ماہرین معیشت کے لیے ایک معمہ ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈیوڈ ولکوکس کا کہنا ہے کہ ’کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ ایک ٹی وی سیریز کی طرح ہے جس کا ہم نے ابھی تک صرف پہلا سیزن دیکھا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ آگے چل کر کہانی میں کیا ہو گا۔‘

ایک ایسی لیبر مارکیٹ موجودہ حالات میں کافی حیران کن ہے جہاں وینڈی ایڈلبرگ کے مطابق کام کرنے والوں کی مانگ بڑھنے کا رجحان نظر آنا شروع ہوا ہے۔

اب یہ نظریہ زور پکڑ رہا ہے کہ امریکی معیشت کسی ایسی سنجیدہ کساد بازاری سے متاثر نہیں ہو گی جس کا باقی دنیا پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

تاہم ڈیوڈ ولکوکس کو جہاں اس بات کی امید ہے کہ کسی بڑے بحران سے ملک بچ جائے گا وہیں وہ خبردار کرتے ہیں کہ کسی حد تک معیشت کساد بازاری سے متاثر ضرور ہو گی جس کا نتیجہ بیروزگاری کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ