روس، یوکرین تنازع: تیل کے خفیہ ذخیرے جو مشکل حالات میں بھی امریکہ کی گاڑی چلائے رکھتے ہیں
جیسے ہی دنیا میں تیل کا بحران پیدا ہوتا ہے تو امریکہ کی نظر تیل کے ان ذخائر پر پڑتی ہے جو ریاست لوزیانا اور ٹیکساس کے زیرِ زمین غاروں میں محفوظ ہیں۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 120 ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر چکی ہیں جو کہ 13 سال کی بلند ترین سطح ہے۔
اسی صورتحال کے پیش نظر امریکہ اور بین الاقوامی ادارہ برائے توانائی (آئی ای اے) نے عالمی تیل منڈیوں میں چھ کروڑ بیرل تیل فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ قیمتوں میں مزید اضافے کو روکا جا سکے۔
صدر جو بائیڈن کی حکومت نے تین کروڑ بیرل تیل کی فروخت کی اجازت دے دی ہے جو امریکہ کے سٹریٹجک آئل ریزرو (ایس پی آر) سے حاصل کیا جائے گا۔
روس یوکرین تنازع: اس جنگ کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے سوال بھیجیں
زیرِ زمین موجود یہ ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ امریکہ مشکل ترین حالات میں بھی تیل کا باآسانی استعمال جاری رکھ سکتا ہے اور موجودہ حالات جیسی صورتحال میں مارکیٹ میں مزید تیل جاری کر سکتا ہے۔
سنہ 2019 میں بھی سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکہ میں ہنگامی حالات کے لیے ذخیرہ کیے گئے تیل کو استعمال کرنے کی بات کی گئی تھی۔
تیل کی عالمی قیمتیں بڑھنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا تھا کہ وہ اُس تیل کو استعمال کر سکتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں تیل کی طلب اور رسد میں کچھ توازن برقرار رکھا جا سکے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے تمام ارکان پر یہ لازم ہے کہ اتنا اضافی تیل اپنے پاس بچا کر رکھیں جو 90 دن تک کی تیل کی درآمدات جتنا ہو۔ مگر امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ایمرجنسی تیل کا ذخیرہ ہے۔
ان ذخیروں میں 70 کروڑ بیرل تیل محفوظ رکھنے کی گنجائش ہے اور امریکی محکمہ توانائی کے مطابق گذشتہ ماہ 25 فروری تک اس میں 58 کروڑ بیرل تیل موجود تھا۔
زمین کی سطح پر دیکھیں تو کچھ کنوؤں اور پائپوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، مگر زیرِ زمین یہی پائپ ہزاروں میٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ان ذخیروں کی دیکھ بھال پر سالانہ 20 کروڑ ڈالر خرچ ہوتے ہیں مگر یہی وہ خرچ ہے جو امریکہ کو تیل کے بحران کی صورت میں بھی کئی ماہ تک اپنی معیشت چلائے رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
اسے کیوں قائم کیا گیا؟
یہ تیل 64 کروڑ سے زائد بیرلز کی شکل میں ٹیکساس اور لوزیانا کی ریاستوں میں نمک کے غاروں میں ذخیرہ کیا گیا ہے۔ اس طرح تیل ذخیرہ کرنے کا خیال 1970 کی دہائی میں سامنے آیا تھا۔
سنہ 1970 کے اوائل میں امریکی سیاست دانوں نے پہلی مرتبہ ایک بڑے تیل کے ذخیرے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ یہ ایسا وقت تھا جب مشرق وسطیٰ کے ممالک نے تیل کی تجارت پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس سے عالمی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا تھا۔
ایران، عراق، کویت، قطر اور سعودی عرب سمیت عرب ممالک کی تیل برآمد کرنے کی تنظیم کے ممبران نے امریکہ کو تیل بیچنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سنہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دیا تھا۔
اِسی سال اکتوبر میں جنگ صرف تین ہفتوں تک چلی۔ لیکن تیل کی تجارت پر پابندی مارچ 1974 تک عائد رہی اور اسے دوسرے ممالک پر بھی نافذ کیا گیا جس سے تیل کی عالمی قیمتیں چار گنا بڑھ گئیں، یعنی تیل کی قیمت تین ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 12 ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی۔
متاثرہ ملکوں کے پیٹرول پمپوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔ ان مناظر کی تصاویر اس بحران کی نشاندہی کرتی تھیں۔
سنہ 1975 میں امریکی کانگریس نے توانائی پالیسی اور تحفظ کا قانون منظور کیا۔ اسی سلسلے میں پٹرول کے سٹریٹجک ذخائر بنائے گئے تاکہ ایسی نوعیت کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
امریکہ میں تیل کے ذخائر کیسے ہیں؟
فی الحال چار مقامات پر تیل کے ذخائر بنائے گئے ہیں، جن میں دو ریاست ٹیکساس کے فری پورٹ اور وینی جبکہ باقی دو لوزیانا میں جھیل چارلس اور بیٹن روژ کے قریب واقع ہیں۔
ہر مقام میں 3300 فٹ تک کی گہرائی پر انسان کے تعمیر کردہ غار ہیں جہاں تیل ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ یہ زمین پر ٹینکروں میں تیل رکھنے سے کافی سستا اور محفوظ طریقہ ہے اور نمک کے کیمیائی مرکب اور ارضیاتی دباؤ کی بدولت تیل کے اخراج کا بھی خطرہ نہیں۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
بی بی سی لائیو پیج: یوکرین پر روس کا حملہ، تازہ ترین صورتحال
فری پورٹ کے قریب برائن ماؤنڈ میں قائم سب سے بڑے ایسے زیرِ زمین گودام میں 25 کروڑ 40 لاکھ بیرل تیل ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
ذخائر کی ویب سائٹ کے مطابق 13 ستمبر کو ان غاروں میں کل 6448 لاکھ بیرل تیل موجود تھا۔
امریکہ میں توانائی کی معلومات فراہم کرنے والے ادارے کے مطابق ملک میں سنہ 2018 میں پیٹرول کے اوسطاً 205 لاکھ بیرل فی دن استعمال کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب ہے امریکہ کے پاس 31 دن کا اضافی تیل موجود ہے۔
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
صدر جیرالڈ فورڈ کے 1975 میں دستخط شدہ قانون کے مطابق صرف امریکہ کے صدر اس صورت میں تیل کے ذخائر استعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں اگر ’توانائی کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ‘ آتی ہے۔
وسائل کی قلت کے باعث ہر دن صرف محدود مقدار میں تیل غاروں سے باہر لایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے صدر کی منظوری کے بعد اس تیل کو مارکیٹ تک پہنچنے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ یہ خام تیل ہے۔ استعمال کے لیے پہلے اسے صاف کرنا ہو گا تاکہ تیل کو ایندھن کے طور پر گاڑیوں، بحری جہازوں اور طیاروں میں استعمال کیا جا سکے۔
کیا یہ پہلے استعمال ہوئے ہیں؟
ان ذخائر کو آخری مرتبہ سنہ 2011 میں استعمال کیا گیا جب عرب بہار کے دوران بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے ممبر ممالک کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر چھ کروڑ بیرل تیل جمع کیا تاکہ ایندھن کی رسد میں رکاوٹ کم کی جا سکے۔
تاہم امریکہ نے کچھ مواقع پر بڑی تعداد میں تیل کے بیرل فروخت کیے ہیں۔ صدر جارج بش سینیئر نے 1991 کی خلیجی جنگ کے دوران اس کے استعمال کی منظوری دی تھی جبکہ ان کے بیٹے صدر جارج بش جونیئر نے سمندری طوفان کترینا کے بعد ایک کروڑ 10 لاکھ بیرل فروخت کرنے کی اجازت دی تھی۔
لیکن ایسے وقت میں امریکہ میں اتنے بڑے تیل کے ذخیرے کی افادیت پر سوال اٹھائے گئے ہیں کہ جب توانائی کی پیداوار میں کافی ترقی ہو چکی ہے۔ کچھ نے تو واشنگٹن میں ان ذخائر کو ختم کرنے کی بات بھی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
حکومتی دفترِ احتساب نے 2014 میں اپنی رپورٹ میں یہی کہا تھا کہ اسے ختم کرنے سے امریکی صارفین کے لیے پٹرول پمپوں پر قیمتیں کم رکھی جا سکتی ہیں۔
سنہ 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات پر بھی غور کیا تھا کہ تیل کے آدھے ذخائر بیچ کر وفاقی خسارہ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سنہ 1997 میں صدر بل کلنٹن کے دور میں خسارہ کم کرنے کے لیے دو کروڑ 80 لاکھ بیرل فروخت بھی کیے گئے تھے۔
Comments are closed.