امریکی ریاست ٹیکساس میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ: ‘میں نے حملہ آور پر کرسی پھینکی اور دروازے کو بھاگا‘
ربی چارلی سائٹرون واکر
امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک یہودی عبادت گاہ کے ربی نے بتایا ہے کہ کہ سنیچر کے روز جب انھیں دیگر تین افراد سمیت عبادت گاہ میں یرغمال بنا لیا گیا تھا تو کیسے انھوں نے حملہ آور پر ایک کرسی پھینکی تاکہ وہ فرار ہو سکیں۔
یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے دس گھنٹے تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں ربی چارلی سائٹرون واکر اور اُن کے دو ساتھی بغیر کسی گولی کے چلے وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اس واقعے میں حملہ آور 44 سالہ برطانوی شہری ملک فیصل اکرم تھے جنھوں نے سنیچر کی صبح کولیول نامی علاقے میں یہودی عبادت گاہ میں موجود چار افراد کو یرغمال بنا لیا تھا تاہم بعدازاں وہ پولیس کی فائرنگ سے مارے گئے تھے جبکہ یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس واقعے کو دہشتگردی کا ایک واقعہ قرار دیا ہے۔
ربی چارلی سائٹرون واکر نے بی بی سی کے پارٹنر خبر رساں ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ وہ اُس وقت عبادت کر رہے تھے جب انھیں ’کلِک‘ کی آواز آئی جو درحقیقت حملہ آور کی پستول کی آواز تھی۔ ساتھ ہی انھیں اور دیگر عبادت گزاروں کو یرغمال بنا لیا گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘ہمیں سارا وقت خطرہ تھا، مگر خوش قسمتی سے ہم میں سے کسی کو بھی کوئی چوٹ نہیں آئی۔‘
ملک فیصل اکرم
یاد رہے کہ ایک یرغمالی چھ گھنٹے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا جبکہ دیگر تین افراد کئی گھنٹوں بعد عبادت گاہ سے فرار ہونے میں کامیاب رہے تھے۔
ربی چارلی سائٹرون واکر بتاتے ہیں کہ ‘مجھے ایک موقع ملا جب حملہ آور صحیح پوزیشن میں نہیں تھا، اس وقت میں نے اسے یقینی بنایا کہ دیگر لوگ میرے ساتھ ہی موجود ہوں اور بھاگنے کے لیے تیار۔ باہر جانے کا راستہ اتنا دور نہیں تھا اور میں نے اُن سے (دیگر یرغمالیوں کو) بھاگنے کے لیے کہا۔‘
ان کے مطابق انھوں نے حملہ آور پر ایک کرسی پھینکی اور دروازے کی جانب بھاگ پڑے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘یہ انتہائی خوفناک مرحلہ تھا اور ہم ابھی بھی (ذہنی طور پر) اس سے نمٹ رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ عبادت گاہ میں اس واقعے کے بعد واپس عبادت گاہ جانا آسان نہیں ہو گا مگر واپس جانا ضروری بھی ہے۔
واضح رہے کہ کانگریگیشن بیتھ اسرائیل نامی کنیسا میں جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہاں ہونے والی عبادت کو لائیو سٹریم کیا جا رہا تھا۔ اس لائیو سٹریم فیڈ میں ایک شخص (مبینہ طور پر حملہ آور) کو اونچی آواز میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملے اور قتل کی کوشش کرنے کے سات الزامات میں مجرم قرار دیا تھا اور انھیں 86 سال قید کی سزا سُنائی تھی۔
حملہ آور اس دوران کہہ رہا تھا ‘میری بہن سے فون پر میری بات کروائیں’ اور ’میں مر جاؤں گا۔‘ انھیں یہ بھی کہتے سُنا گیا کہ ’امریکہ کے ساتھ کچھ غلط ہے۔‘
اس واقعے کے بعد حملہ آور فیصل اکرم کے بھائی نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے متاثرین سے معذرت کی اور کہا تھا کہ ان کے بھائی کی ذہنی حالت کچھ عرصے سے خراب ہو رہی تھی۔
ان کے مطابق وہ اس واقعے کے دوران فیصل کے ساتھ ساتھ ایف بی آئی سے بھی رابطے میں تھے تاکہ فیصل کو یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے جس سے اسے ہتھیار ڈالنے پر رضامند کیا جا سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ اور ان کا خاندان ملک فیصل اکرم کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس اقدام کی حمایت نہیں کرتا اور وہ اس واقعے کے تمام متاثرین سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔’
انھوں نے مذید کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی انسان پر حملہ چاہے وہ یہودی ہو، مسیحی ہو یا مسلمان ہو، غلط ہے اور اس کی ہمیشہ مذمت ہونی چاہیے۔‘
امریکہ کی پولیس کے ذرائع کے مطابق ملک فیصل اکرم دو ہفتے قبل نیو یارک جے ایف ایئرپورٹ پر پہنچے تھے۔
صدر بائیڈن نے اتوار کے روز کہا تھا کہ ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ انھوں نے ہتھیار غیر قانونی ذرائع سے لیے اور بظاہر انھوں نے پہلی رات بے گھر افراد کے لیے ایک پناہ گاہ میں گزاری۔
امریکہ میں ہونے والے اس حملے کے بعد کی جانے والی تحقیقات کے سلسلے میں برطانیہ سے دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
جنوبی مانچسٹر میں اتوار کی شام گرفتار کیے جانے والے ان لوگوں کے بارے میں اداروں کی جانب سے زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
ڈیجیٹل ٹریل بے نقاب کرنا
تجزیہ، فرینک گارڈنر
جب ایف بی آئی نے کہا کہ یہ تحقیقات ‘عالمی سطح‘ پر ہوں گی تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں تھی۔
ایف بی آئی، جو اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات کی قیادت کر رہی ہے، نے اپنی مشترکہ دہشت گردی ٹاسک فورس کو امریکہ، برطانیہ اور ممکنہ طور پر پاکستان میں بھی شواہد کی پیروی کرنے والی ٹیموں کے ساتھ تعینات کیا ہے۔
فوری ترجیح اس بات کا تعین کرنا ہے کہ آیا یرغمال بنانے والے کو کسی اور کی مدد حاصل تھی یا نہیں، یا تو برطانیہ میں یا ان دو ہفتوں کے دوران جب وہ حملے سے قبل امریکہ میں تھے۔
برطانیہ کی انسداد دہشت گردی پولیس پولیس اور ایم آئی فائیو ملک فیصل اکرم کی نام نہاد ’ڈیجیٹل ٹریل‘، اس کے فون، کمپیوٹر یا کریڈٹ کارڈ کی خریداری کے حوالے سے ممکنہ شواہد کو بے نقاب کرنے میں اہم ثابت ہوں گے۔
Comments are closed.