بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

امریکہ میں منجمد افغان فنڈز کو تقسیم کرنے کا صدارتی حکمنامہ جاری، طالبان کی فیصلے پر کڑی تنقید

امریکہ میں منجمد افغان فنڈز کو تقسیم کرنے کا صدارتی حکمنامہ جاری، طالبان کی فیصلے پر کڑی تنقید

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغانستان کے منجمد سات ارب ڈالر کے فنڈز کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے صدارتی حکمنامے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد نصف رقم (ساڑھے تین ارب ڈالر) افغانستان کے عوام کی انسانی مدد جبکہ بقیہ ساڑھے تین ارب ڈالر گیارہ ستمبر 2001 کے شدت پسند حملوں کے متاثرین میں تقسیم کرنے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔

جمعے کو دستخط کیے جانے والے صدارتی حکمنامے کے مطابق انتظامیہ نیویارک کے فیڈرل ریزور میں منجمد افغان اثاثوں تک رسائی حاصل کر سکے گی اور ان اثاثوں میں ساڑھے تین ارب ڈالر افغان عوام کی فلاح اور افغانستان کے مستقبل پر خرچ کیے جا سکیں گے۔

تاہم اسی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اس رقم کو ایک عدالتی فیصلہ آنے تک مختص نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے اس امریکہ فیصلہ کو ’چوری‘ اور ’اخلاقی انحطاط‘ کی نشانی قرار دیا ہے۔

قطر میں طاکبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے اس فیصلے کے بعد ٹویٹ میں رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز پر قبضہ کرنا ’چوری‘ ہے اور ’انسانی اور اخلاقی انحطاط‘ کے سب سے نچلے درجے پر گرنے کی نشانی ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں طالبان نے تنبیہ کی تھی کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کو واپس نہ کرنا ’مسائل‘ کا باعث بن سکتا ہے جس کے باعث نہ صرف اقتصادی طور پر افغانستان مزید متاثر ہوگا بلکہ بڑی تعداد میں لوگ پناہ لینے کے لیے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔

اگست 2021 میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے ملک کی معاشی حالات مسلسل بگڑتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ 2022 کے وسط تک ملک میں غربت کی شرح 97 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

صدارتی حکمنامے میں کیا ہے؟

بائیڈن

،تصویر کا ذریعہReuters

امریکہ کے ایوان صدر نے اس حکمنامے میں ان قانونی دعوؤں کی طرف بھی اشارہ کیا جو گیارہ ستمبر کے حملوں کے متاثرہ خاندانوں کی طرف سے دائر کیے گئے ہیں جن میں طالبان اور دیگر گروپوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس رقم کو بطور معاوضہ متاثرین میں تقسیم کرنے کی بات کی گئی ہے۔

صدر بائیڈن کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ متوقع عدالتی فیصلہ میں اگر ساڑھے تین ارب ڈالر افغان عوام کو دینے کی منظوری دی جاتی ہے تو بھی ساڑھے تین ارب ڈالر امریکہ ہی میں رہیں گے اور دہشت گردی کے متاثرہ امریکی شہریوں کی طرف سے دعوؤں سے مشروط رہیں گے۔

ایک بیان میں ایوان صدر نے کہا اس حکمنامے سے افغان عوام تک یہ پیسہ پہنچانے کی راہ ہموار کی گئی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔

جمعہ کو یہ صدارتی حکمنامہ ایک ایسے وقت جاری کیا گیا ہے جب امریکی حکومت کو گیارہ ستمبر کے حملوں میں متاثرہ خاندانوں کی طرف سے دائر کردہ مقدمات میں جواب جمع کرانے کی عدالت کی طرف سے دی گئی مہلت ختم ہو رہی ہے۔

نو گیارہ کی یادگار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

گذشتہ سال اگست کے مہینے میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بہت سی غیر ملکی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں نے جلد بازی میں افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کر دیا تھا جن کی مجموعی مالیات دس ارب ڈالر بنتی ہے اور ان میں سے سات ارب ڈالر صرف امریکہ شہر نیویارک میں موجود ہیں۔

طالبان نے بارہا امریکہ اور غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فنڈ جلد از جلد جاری کیے جائیں تاکہ وہ افغانستان کی بدحال معیشت کو سہارا دے سکیں اور انسانی بحران سے بچ سکیں۔

امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں امریکہ سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ یہ اثاثے جاری کیے جائیں اور طالبان سے ماورا عالمی امدادی اداروں کے ذریعے یہ رقم افغان عوام تک پہنچائی جائے۔

افغان حکومت کو جو پیسہ امریکہ میں منجمد ہے وہ بنیادی طور پر ان پیسوں پر مشتمل ہے جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بین الاقوامی سطح پر افغان عوام کی مدد کے لیے عطیہ کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دو ارب ڈالر یورپ اور متحدہ عرب امارت میں بھی منجمد ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.