بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

امریکہ میں سفید فام شہری کی بریت کے عدالتی فیصلے پر صدر بائیڈن ناراض جبکہ ٹرمپ خوش

کائل رٹن ہاؤس کیس: سفید فام شہری کی بریت کے عدالتی فیصلے پر صدر بائیڈن ناراض جبکہ ٹرمپ خوش

امریکہ، سیاہ فام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ میں دو افراد کے قتل میں ملوث ایک سفید فام نوجوان کائل رٹن ہاؤس کی بریت کے عدالتی فیصلے پر لوگوں کی رائے منقسم نظر آ رہی ہیں۔

جہاں ایک طرف امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اس بریت پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے وہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کے نام ایک پیغام میں اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

جمعے کے روز ایک امریکی عدالت نے دو افراد کے قتل میں ملوث کمسن کائل رٹن ہاؤس کی بریت کا فیصلہ سنایا۔ صدر جو بائیڈن نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ فیصلے پر ’ناراض اور فکر مند‘ ہیں مگر یہ ایک ’جیوری کا فیصلہ ہے۔‘

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ فیصلہ ’اپنی تشریح آپ کر رہا ہے‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ فوجداری انصاف کے نظام کو مزید منصفانہ بنانے کے لیے ’ابھی بہت زیادہ کام کرنا باقی ہے۔‘

تاہم حکام اور لواحقین نے اس فیصلے کے بعد امریکی عوام سے پُرامن رہنے کی بھی اپیل کی ہے۔

یہ معاملہ ہے کیا؟

یہ مقدمہ دو افراد کے قتل اور فائرنگ سے ایک شخص کے زخمی ہونے سے متعلق ہے۔

18 برس کے کائل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب گذشتہ برس نسل پرستانہ ہنگامے پھوٹ پڑے تو اس وقت انھوں نے اپنے دفاع میں دو افراد کو قتل کیا۔

واضح رہے کہ کائل کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی بھی ہوا تھا۔

اس بریت کے فیصلے نے جہاں ملک میں لوگوں کی رائے کو تقسیم کر دیا ہے وہیں بعض جگہوں پر احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کے ساتھ امریکی حکام اور لواحقین کی طرف سے پُرامن رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔

لواحقین کے وکیل نے کہا ہے کہ انھیں اس وقت انصاف کی ضرورت ہے ’نہ کہ مزید تشدد کی۔‘

جمعے کی شام پورٹ لینڈ شہر میں پولیس نے دھاوا بولا جب دو سو کے قریب لوگوں نے کھڑکیوں کے شیشے توڑنا شروع کر دیے اور انھوں نے مقامی جسٹس سینٹر کو جلانے کی دھمکی بھی دی۔

Kyle Rittenhouse in court

،تصویر کا ذریعہReuters

شکاگو اور نیویارک میں بھی اس فیصلے کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ تاہم یہ مظاہرے بڑی سطح پر امریکہ میں پھوٹنے والے بدامنی جیسے واقعات کے مقابلے میں چھوٹے تھے۔

کائل نے عدالت کو بتایا کہ جب انھوں نے گذشتہ برس اگست میں وسکونسن کے شہر کینوشا میں 36 برس کے جوزف روزن باہوم اور 26 برس کے انتھونی ہیوبر کو اپنی جان بچانے کی غرض سے قتل کیا تھا جبکہ اس فائرنگ کے نتیجے میں 28 برس کے گیج گراس کریٹز زخمی ہو گئے تھے۔

عدالت نے کائل کو تمام الزامات سے بری کر دیا ہے۔

کمسن فرد سمیت جن افراد پر کائل نے فائرنگ کی وہ سفید فام امریکی ہیں۔ تاہم یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب ایک سیاہ فام شہری جیکب بلیک کو ایک سفید فام پولیس افسر نے قتل کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جب یہ فیصلہ سنایا گیا تو اس وقت جیکب بلیک کے چچا عدالت کے باہر موجود تھے۔ جسٹن بلیک نے کہا کہ ’ہم اپنی لڑائی جاری رکھیں گے اور ہم پُرامن رہیں گے۔ آزادی کو راج کرنے دیں۔‘

جوزف روزن باہوم اور انتھونی ہیوبر کے وکلا نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی کو تکلیف نہ دیں اور پُر امن رہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہمیں اس وقت مزید تشدد کے بجائے سب سے زیادہ ضرورت انصاف کی ہے۔‘

انتھونی ہیوبر کے اہل خانہ نے کہا کہ اس فیصلے نے ایک ’ناقابل قبول پیغام دیا ہے کہ مسلح شہری کسی بھی شہر میں آ کر تشدد کی فضا قائم کر سکتے ہیں۔ یہ نام نہاد خطرہ ہے انھوں نے خود پیدا کیا ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو سڑکوں پر گولی مارنے کا جواز بنایا جا سکے۔‘

کائل رٹن ہاؤس کے خاندان کے ایک ترجمان نے سی بی ایس ٹی وی کو بتایا ہے کہ رہائی کے بعد کائل ایک نامعلوم مقام پر رہ رہے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس مقدمے میں کوئی بھی فاتح نہیں ہے کیونکہ دو افراد اپنی زندگی سے گئے جو ’ہم سب کا مشترکہ نقصان ہے۔‘

Justin Blake, the uncle of Jacob Blake, (R) listens to Hannah Gittings, (L) the girlfriend of Anthony Huber, speak after the jury returned a not guilty verdict

،تصویر کا ذریعہEPA

ایک منقسم قوم

اس فیصلے سے امریکہ میں عوام کی رائے واضح طور پر منقسم نظر آتی ہے۔ اس پر دونوں اطراف سے شدید رعمل سامنے آیا ہے۔

متعدد لوگ یہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ اگر کائل رٹن ہاؤس ایک سیاہ فام فرد ہوتے تو انھیں یہ یقین ہے کہ پھر وہ کسی صورت بری نہ ہو پاتے۔

سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم این اے اے سی پی کے صدر ڈیرک جانسن نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اس فیصلے نے ’اس غدار کردار کی یاد دہانی کرائی ہے جو سفید فام بالادستی ہمارے نظام انصاف میں ادا کرتی ہے۔‘

معروف سماجی کارکن ریورینڈ ال شارپٹن نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اشتعال انگیز اور خطرناک ہے اور یہ فیصلہ تشدد اور طاقت کے استعمال کے کلچر کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ سیاہ دن ان سیاہ فام لوگوں کے لیے ہے جو ان لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے جن کو یقین ہے کہ ہماری زندگیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔‘

اس فیصلے سے متعلق یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ یہ مستقبل کے لیے کوئی اچھی قانونی نظیر قائم نہیں کرے گا۔

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے لکھا کہ ’آج امریکہ میں آپ قانون توڑ سکتے ہیں، فوج کے لیے بنائے گئے ہتھیار لے جا سکتے ہیں، لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کر سکتے ہیں، اور پھر اس سے بری بھی ہو سکتے ہیں۔‘

قدامت پسند کائل رٹن ہاؤس کو ایک محب وطن ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں، جس نے ہتھیار اٹھا کر اپنے دفاع کے حق کو استعمال کیا۔ حالانکہ فائرنگ کے وقت وہ 17 برس کے تھے اور اس لیے قانونی طور پر ایسے ہتھیار سے دفاع کو قانون حفاظت حاصل نہیں۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو ای میل کیے گئے ایک بیان میں مبارکباد دی ہے۔ انھوں کہا کہ ’اگر یہ سیلف ڈیفنس (اپنا دفاع) نہیں ہے تو پھر کچھ بھی (سیلف ڈیفنس) نہیں!‘

متعدد ریپبلکن قانون سازوں نے کہا کہ وہ کائل رٹن ہاؤس کو کانگریس کی انٹرنشپ کی پیشکش کرنا چاہیں گے۔

فاکس نیوز نے بریت کے فیصلے کے بعد کائل رٹن ہاؤس کا انٹرویو بھی کیا ہے جو ابھی نشر ہونا ہے۔ اس فیصلے کے فوری بعد ایک ویڈیو میں کائل رٹن کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’جیوری درست فیصلے پر پہنچی ہے۔۔۔ سیلف ڈیفنس کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے۔‘

انھوں نے ان خوفناک لمحات کا بھی ذکر کیا جب انھیں نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا، جس دوران ان کے ’شدید زخمی ہونے اور مارے جانے‘ کے بھی امکانات تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.