- مصنف, گورڈن کوریرا
- عہدہ, نامہ نگار برائے سکیورٹی
- 22 منٹ قبل
گذشتہ کئی سال سے مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں چین پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیتی رہی ہیں۔ رواں ہفتے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ’جی سی ایچ کیو‘ کے سربراہ نے چین کو موجودہ دور کا بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب متعدد مغربی ممالک میں بہت سے ایسے ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن پر چین کے لیے جاسوسی اور ہیکنگ کرنے کا الزام ہے۔رواں ہفتے کے آغاز پر برطانیہ کی ایک عدالت نے تین ملزمان پر چین کے خفیہ اداروں کی معاونت کرنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کی تھی جس کے بعد چین کے سفیر کو برطانیہ کے دفترِ خارجہ کی جانب سے طلب کیا گیا تھا۔یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ کیسے مغرب اور چین کے درمیان پردوں کے پیچھے لڑی جانے والی طاقت اور اثر و رسوخ کی پوشیدہ جنگ اب کُھل کر سامنے آ رہی ہے۔
مغرب (یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک) اس خطرے سے نمٹنے کے لیے پُرعزم تو ہیں لیکن سینیئر اہلکاروں کو خدشہ ہے کہ مغرب نے چین کے چیلنج کو نہ تو بروقت سنجیدہ لیا اور یہ کہ مغرب انٹیلیجنس کے اعتبار سے پیچھے رہ گیا ہے جس کے باعث مغربی ممالک اب چین کے جاسوسی نیٹ ورک کے سامنے خود کو کمزور محسوس کر رہے ہیں اور دونوں اطراف سے ممکنہ طور پر ایک تباہ کن غلطی کی جا سکتی ہے۔مغربی ممالک کے حکام کے خدشات میں جو چیز سب سے زیادہ اضافہ کرتی ہے وہ چینی صدر شی جن پنگ کا یہ عزم ہے کہ بیجنگ ایک نیا انٹرنیشنل آرڈر وضع کرے گا۔برطانوی خفیہ ایجنسی ’ایم آئی سکس‘ کے سربراہ سر رچرڈ موور نے مجھے اپنے دفتر میں چین اور مغربی ممالک سے متعلق بی بی سی کی نئی سیریز کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’چین دنیا میں سب سے طاقتور ملک کے طور پر امریکہ کی جگہ لینا چاہتا ہے۔‘تاہم کئی سال تک انتباہ جاری کرنے کے بعد مغربی انٹیلیجنس ایجنسیاں کچھ عرصہ پہلے تک چین کی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا شکار تھی۔نائجل انکسٹر جب سنہ 2006 میں ریٹائر ہوئے تو وہ ’ایم آئی سکس‘ کے ڈائریکٹر برائے آپریشنز اینڈ انٹیلیجنس تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چین بطور اہم بین الاقوامی طاقت ’اُس وقت اُبھرا جب ہم دیگر مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔‘جب رواں صدی کے آغاز سے چین نے بتدریج دنیا میں اپنے قدم جمانا شروع کیے تو مغربی ممالک میں پالیسی بنانے والوں اور سکیورٹی اداروں کی سوچ اور خفیہ اداروں کی توجہ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ اور افغانستان اور عراق میں ہونے والی جنگوں پر مرکوز تھی۔امریکہ اور یورپ میں حکام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں روس کا جارحانہ انداز اور اسرائیل غزہ جنگ فوری چیلنجز بن کر سامنے آئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی حکومت اور بڑی کمپنیوں پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ چین کی وسیع مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں بجائے اس کے کہ چین کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی اختیار کی جائے۔سیاسی رہنما چاہتے تھے کہ اُن کے خفیہ اداروں کے سربراہ کبھی بھی چین کا براہ راست نام لے کر اس پر الزام عائد نہ کریں اور کمپنیاں بھی یہ اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں کہ اُن کے کاروباری رازوں کو (چین کی جانب سے) ہدف بنایا جا رہا ہے۔نائجل انکسٹر کہتے ہیں کہ ’اس دوران معاشی اور تجارتی مفادات کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دی جاتی رہی۔‘وہ بتاتے ہیں کہ چینی خفیہ ادارے سنہ 2000 کی دہائی میں بھی انڈسٹریل (صنعتی) جاسوسی کر رہے تھے لیکن مغربی کمپنیاں اس دوران خاموش رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ کمپنیاں یہ سب اس لیے رپورٹ نہیں کرنا چاہتی تھیں کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ اُن کی چینی مارکیٹ میں پوزیشن خراب ہو جائے گی۔‘ایک اور بڑا چیلنج یہ بھی رہا ہے کہ چین مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے مقابلے میں مختلف انداز میں جاسوسی کرتا ہے جس کے باعث اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا اور اس کے خلاف اقدامات اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ایک مغربی ملک کے سابق انٹیلیجنس افسر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے چینی ہم منصب کو غلطی سے یہ کہہ دیا تھا کہ چین ’غلط قسم کی‘ جاسوسی کرتا ہے۔ وہ دراصل کہنا یہ چاہتے تھے کہ مغربی ریاستیں ایک خاص قسم کی انٹیلیجنس اکٹھی کرنے کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ انھیں اپنے دشمنوں کو سمجھنے میں آسانی ہو لیکن چینی جاسوسوں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ایف بی آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس اہلکار رومان روزہیوسکی کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کی حفاظت کرنا ان کے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔ ’مستحکم حکومت ان کے لیے سب سے اہم ہے۔‘اس کے لیے انھیں معاشی ترقی فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور چین کے جاسوسوں کے لیے مغربی ٹیکنالوجی کے راز حاصل کرنا ایک اہم قومی سلامتی کی ضرورت بن چکا ہے۔ مغربی انٹیلیجس افسران کا کہنا ہے کہ اُن کے چینی ہم منصب چین کی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ یہ معلومات ایسے شیئر کرتے ہیں جیسے مغربی خفیہ ادارے اپنے ملک کی کمپنیوں کے ساتھ بھی کبھی نہیں کرتے۔
’خصوصی توجہ‘
آسٹریلین سکیورٹی اینڈ انٹیلیجنس آرگنائزیشن (آسیو) کے سربراہ مائیک برجیس نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری ایجنسی گذشتہ 74 سالوں میں کبھی اتنی مصروف نہیں رہی، جتنی اب ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ میں ملکوں پر الزام عائد کروں کیونکہ جب بات براہ راست جاسوسی کی آتی ہے تو ہم بھی ان کی جاسوسی کرتے ہیں۔ کمرشل جاسوسی ایک بالکل مختلف چیز ہے اور اسی لیے چین کو اس حوالے سے خصوصی توجہ مل رہی ہے۔‘انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مغربی اتحادیوں نے اس خطرے کو سمجھنے میں دیر لگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ سب ایک طویل عرصے سے جاری تھا اور ہم سب ہی اسے پکڑ نہ سکے۔‘گذشتہ برس اکتوبر میں ہم کیلیفورنیا میں بیٹھے بات کر رہے تھے جہاں وہ ایک ایسی تقریب کا حصہ تھے جہاں ’فائیو آئیز‘ یعنی امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سکیورٹی چیف پہلی مرتبہ ایک عوامی تقریب میں شرکت کر رہ تھے۔
حالیہ دنوں میں اطلاعات آتی رہی ہیں کہ چینی جاسوس مغربی ممالک کی سیاست میں دخل اندازی کر رہے ہیں اور اس حوالے سے برطانیہ، بیلجیئم اور جرمنی میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے ایک انکوائری کینیڈا میں بھی چل رہی ہے۔ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ چین نے یورپ اور امریکہ میں اپنے ’سمندر پار پولیس سٹیشنز‘ بھی قائم کر لیے ہیں۔ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ مغرب میں مقیم اپنے ناقدین کو خاموش کروانے کے لیے چینی انٹیلیجنس افسران بذات خود کوئی کارروائی نہیں کرتے بلکہ نجی تفتیش کار بھرتی کرتے ہیں یا پھر دھمکی آمیز فون کالوں کا سہارا لیتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.