’چلو چلو امریکہ چلو‘: افغان پناہ گزین جنھیں کابل ایئر پورٹ کی افراتفری میں موقع نظر آیا
- عزیز اللہ خان
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
کابل ایئرپورٹ سے ایک فوجی طیارے کی اڑان کا منظر
’آنکھوں میں امریکہ یا کسی یورپی ملک جانے کا خواب بچپن سے تھا لیکن راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔‘ اچانک داؤد (فرضی نام) کو اپنے ایک رفیق سے ایسی بات پتا چلی کہ ان کی انکھیں چمک اٹھیں۔
اسے ایسا لگا کہ یہی وقت ہے کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر حاصل کر سکتا ہے۔ داؤد نے اس خوشی میں فوری انتظام کیے اور گھر جانے کی بجائے بیوی بچوں کو ورکشاپ بلایا اور گاڑی میں بیٹھ کر کابل روانہ ہو گیا۔
’چلو چلو امریکہ چلو‘
یہ قصہ ہے ایک افغان پناہ گزین داؤد (فرضی نام )کا جن کی پیدائش پشاور کے کچہ گڑھی کیمپ میں ہوئی۔ وہ یہیں پلے بڑھے اور شادی کی لیکن اس کے باوجود انھیں افغان مہاجر پکارا جاتا ہے۔
داؤد اس جدوجہد میں تھے کہ کسی طریقے سے اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے امریکہ یا کسی یورپی ملک چلے جائیں لیکن کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
رواں ماہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل کے ہوائی اڈے پر بڑی تعداد میں لوگ پہنچے اور یہ افواہ پھیل گئی کہ سب لوگ یہاں سے امریکہ اور یورپی ممالک جا رہے ہیں۔
طالبان کے خوف کی وجہ سے جو لوگ کابل ایئر پورٹ پہنچے اور ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اس سے یہ تاثر پھیل گیا کہ جیسے سب لوگ بغیر کسی دستاویزات، پاسپورٹ یا ویزے کے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک جا رہے ہیں۔
افغانستان سے تو بڑی تعداد میں لوگ وہاں پہنچے ہی تھے مگر پاکستان میں موجود افغان پناہ گزین بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے اور مقامی لوگوں کے مطابق ایک اچھی خاصی تعداد میں لوگ کابل پہنچ گئے۔
داؤد بھی ان میں شامل ہیں اور وہ کابل ایئر پورٹ کے باہر اس انتظار میں ہیں کہ کوئی راستہ کھلے اور وہ امریکہ چلے جائیں۔
پشاور میں داؤد سے اکثر ملاقات ہوتی تو یہی پوچھتے کہ ’میں کیسے برطانیہ یا امریکہ جا سکتا ہوں۔‘ میں اسے کوئی جواب نہیں دے پاتا تھا۔
وہ کہتے ’اچھا میرا ایک انٹرویو ہی کر لو۔ باہر ملک میں لوگ تو مجھے دیکھ لیں گے۔‘ لیکن ان کے لیے میں یہ بھی نہ کر پایا۔
چند روز قبل جب میری ملاقات داؤد سے ہوئی وہ دور سے مجھے دیکھ کر آگئے اور کہاں ’اب میرا وقت ہے اور میں جلد چلا جاؤں گا۔‘ میں ان کی بات سمجھ نہیں پایا۔
یہ بھی پڑھیے
گذشتہ روز صبح ورکشاپ سے فون آیا تو پتا چلا داؤد کابل پہنچ گئے ہیں اور اب انھیں ایئر پورٹ داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔
ورکشاپ میں ان کے ساتھیوں سے معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ بس اچانک انھوں نے کہا ’میں جا رہا ہوں۔‘
یہاں تک کہ ’وہ خود گھر بھی نہیں گئے۔ بیوی بچوں کو ٹیکسی میں بلایا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کابل روانہ ہوگئے۔‘
انھوں نے ورکشاپ میں اپنی دکان ایک ساتھی کے حوالے کی اور سب سے کہا ’دعا کرنا میرا کام ہو جائے۔‘
کابل ایئر پورٹ پر موجود داؤد سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ یہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں لیکن ایئر پورٹ کے اندر جانے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ ’یہاں ایک گیٹ پر طالبان موجود ہیں اور دوسرے گیٹ پر غیر ملکی فوجی۔ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔‘
داؤد نے بتایا کہ وہ وہاں پشاور سے آنے والے واحد شخص نہیں بلکہ ’سینکڑوں لوگ یہاں پہنچے ہیں لیکن ان میں کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔‘
داؤد نے پیر کو بتایا کہ وہ اب پھر ایئر پورٹ کی جانب جا رہے ہیں لیکن یہ مشکل نظر آتا ہے کہ وہ ایئر پورٹ کے اندر داخل ہو سکیں گے یا ان کی قسمت ایسی بدلے گی کہ وہ بھی کسی جہاز میں بیٹھ کر امریکہ جا سکیں گے۔
داؤد نے بتایا کہ امید پر دنیا قائم ہے لیکن اب امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔
بلکہ اب تو انھیں لگتا ہے کہ وہ واپس پاکستان ہی آئیں گے کیونکہ ’باہر ملک جانا اب بھی شاید خواب بن کر رہ جائے گا۔‘
’افغان پناہ گزین پاکستان میں اپنے اپنے کاروبار پر توجہ دیں‘
پشاور میں افغان پناہ گزینوں کی تنظیم کے سربراہ حاجی عصمت اللہ طوخی اس بارے میں پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک افواہ ایسی اُڑی ہے کہ اتنی تعداد میں ایسے لوگ جا رہے ہیں جن کے یہاں چلتے کاروبار ہیں اور وہ کاروبار چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
عصمت اللہ نے کہا کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے چلتے ہوئے کاروبار چھوڑ کر باہر ملک جائیں بلکہ یہاں اپنے کاربار کو چمکانے کی کوششیں کریں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دو روز پہلے پاک افغان سرحد پر طورخم کے مقام پر اتنا ہجوم تھا کہ بیان سے باہر ہے۔
’یہاں افغان پناہ گزینوں کو یہ خبر جانے کہاں سے ملی ہے اور خبر یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک بیس بیس ہزار افغان پناہ گزینوں کو پناہ دیں گے۔ اب یہاں مقیم افغان پناہ گزینوں نے کوئی معلومات حاصل نہیں کیں اور کابل ایئر پورٹ کی جانب چل پڑے۔‘
حاجی عصمت اللہ نے بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق دو روز پہلے طورخم کے مقام پر سرحد پر کوئی تین ہزار افغان پناہ گزین پہنچے تھے جبکہ کابل ایئر پورٹ پر تو لوگ دیواریں پھلانگنیں کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ خاندان شاید اس بنیاد پر گئے ہیں جن کے رشتہ دار باہر ممالک میں رہتے ہیں اور انھوں نے وہاں سے حکومت کے ذریعے ای میل بھیجے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان کے رشتہ داروں کا خطرہ لاحق ہے۔ اس کی بنیاد پر کابل ائیر پورٹ پر ان کے کاغذات کی تصدیق کے بعد ان کے باہر جانے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
’ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہر کوئی جا رہا ہے بلکہ جن کے کاغذات نہیں ہیں انھیں قطر اور دیگر ممالک سے بھی واپس بھیج دیا جاتا ہے۔‘
افغانستان سے واپسی بھی مشکل
اس وقت ضلع خیبر میں طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحد سے صرف پاکستان سے افغان شہریوں کو افغانستان جانے کی اجازت ہے جبکہ افغانستان سے صرف پاکستانی شہریوں کو آنے کی اجازت ہے۔
سرحد پر تعینات اہلکاروں نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے چند روز بعد سے واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ جانے والوں کا مقصد کیا ہے لیکن بظاہر لوگوں کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید وہ کابل ایئر پورٹ کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے کہ لوگوں کو بغیر دستاویز کے باہر ملک جانے دیا جا رہا ہے۔
یہاں افغان پناہ گزینوں میں اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ اگر جانے میں ناکامی ہوتی ہے تو واپسی کیسے ہو سکے گی۔
اس وقت طور خم سرحد پر سختی ہے اور افغان شہریوں کو پاکستان نہیں آنے دیا جار ہا اور جو لوگ ابھی چلے گئے ہیں ان کی واپسی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
پشاور میں داؤد کے ساتھی بھی پریشان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیلیفون پر آخری مرتبہ جب بات ہوئی تو داؤد واپس آنے کا عندیہ دے رہے تھے لیکن اب ان کے لیے واپس پشاور آنا مشکل ہوگا۔
ان کے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ داؤد تو ’اپنی کشتیاں جلا کر گئے ہیں۔‘
Comments are closed.