امریکہ ایک ایسے خطے کو اپنے خرچ پر مسلح کیوں کر رہا جسے وہ سرکاری سطح پر تسلیم تک نہیں کرتا؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, روپرٹ ونگفیلڈ
  • عہدہ, بی بی سی، تائیوان

جب امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں تائیوان کو امریکی فوجی سازوسامان کی فراہمی کے لیے درکار 8 کروڑ ڈالر کی گرانٹ پر دستخط کیے تو چین نے اس امریکی اقدام پر شدید ردعمل دیا۔

اگر آپ فوجی ساز و سامان کی بات کریں تو شاید 8 کروڑ ڈالر کوئی اتنی بڑی رقم نہیں ہے، اتنے میں تو ایک جدید لڑاکا طیارہ بھی نہیں ملتا۔ امریکہ کے پاس پہلے ہی تائیوان کی جانب سے دیے گئے 14 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے امریکی فوجی سازوسامان کا آرڈر ہے۔ تو ایسی صورتحال میں 8 کروڑ ڈالر کیا اہمیت رکھتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ اس بار معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔

8 کروڑ ڈالر کی گرانٹ کوئی قرض نہیں ہے بلکہ یہ رقم امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے آئے گی۔ 40 سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار، امریکہ اپنی ہی رقم کا استعمال کر کے ایک ایسی جگہ پر ہتھیار بھیج رہا ہے جسے وہ سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اور یہ سب فارن ملٹری فنانس نامی پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔

گذشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے فارن ملٹری فنانس پروگرام کے تحت تقریباً 4 ارب ڈالر کی فوجی امداد یوکرین بھیجی جا چکی ہے۔

ماضی میں فارن ملٹری فنانس پروگرام کو افغانستان، عراق، اسرائیل اور مصر وغیرہ میں اربوں ڈالر کا اسلحہ بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس پروگرام کے تحت اب تک یہ صرف اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ ممالک یا تنظیموں کو دیا گیا ہے، تائیوان جس میں شامل نہیں ہے۔

سنہ 1979 کے بعد سے امریکہ تائیوان کو ’تائیوان ریلیشنز ایکٹ‘ کی شرائط کے تحت ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اس ایکٹ کے تحت امریکہ صرف اتنے ہی ہتھیار تائیوان کو فروخت کر سکتا ہے جس کی مدد سے تائیوان ممکنہ چینی حملے کے خلاف اپنا دفاع کر سکے۔

اسی ایکٹ کے تحت امریکہ تائیوان کو اس حد تک ہتھیار فروخت نہیں کر سکتا جو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو غیر مستحکم کر دیں۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے، امریکہ تائیوان کا پکا اتحادی رہتے ہوئے اس نام نہاد سٹریٹجک ابہام پر انحصار کرتا رہا ہے۔

لیکن گذشتہ دہائی کے دوران آبنائے تائیوان میں ڈرامائی حد تک فوجی برتری حاصل ہوئی ہے۔ اور اس صورتحال میں امریکہ کے لیے اب پرانا فارمولا کام نہیں کر رہا۔ واشنگٹن کا اصرار ہے کہ اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے فوری طور پر تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تائیوان کو فارن ملٹری فنانس پروگرام کے تحت گرانٹ دینے کا مقصد امریکہ کی جانب سے اسے تسلیم کرنا نہیں ہے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن تائیوان میں کچھ ایسے اشارے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ تائیوان کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کی نئی وضاحت کر رہا ہے، خاص طور پر اس عجلت کو دیکھتے ہوئے جس کے ساتھ واشنگٹن تائیوان کو ہتھیاروں سے لیس کرنے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔ اور تائیوان، جو چین کے مقابلے میں عسکری لحاظ سے کچھ نہیں ہے، کو مدد کی ضرورت ہے۔

تائیوان کے صدر تسائی انگ سے قریبی تعلقات رکھنے والی حکمران جماعت کے قانون ساز وانگ ٹنگ یو کا کہنا ہے کہ ’امریکہ ہماری (تائیوان) فوجی صلاحیت کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت پر زور دے رہا ہے۔ یہ بیجنگ کے لیے واضح سٹریٹجک پیغام ہے کہ ہم ایک ساتھ کھڑے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ 8 کروڑ ڈالر ایک غیرمعمولی واقعے کی ابتدائی جھلک ہو سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ جولائی میں صدر بائیڈن نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تائیوان کو 500 ملین ڈالر مالیت کے فوجی ساز و سامان کی فروخت کی منظوری دی تھی۔

مسٹر وانگ کا کہنا ہے کہ تائیوان بری فوج کی دو بٹالین کو تربیت کے لیے امریکہ بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے، اور یہ 1970 کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لیکن ان تمام معاملات میں بنیادی چیز پیسہ ہے، اور 8 کروڑ ڈالر کی گرانٹ اس بڑی رقم کا آغاز ہو سکتا ہے جو آئندہ پانچ سال میں تائیوان کو ملنی ہے اور جس کا حجم 10 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔

تائی پے میں قائم تھنک ٹینک پراسپیکٹ فاؤنڈیشن کے صدر لائ آئی چنگ کا کہنا ہے کہ فوجی سازوسامان سے متعلق سودوں کی تکمیل اور ہتھیاروں کے حصول میں 10 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے لیکن ’ فارن ملٹری فنانس پروگرام کے تحت امریکہ اپنے ہتھیاروں کے سٹاک سے براہ راست ہتھیار بھیج رہا ہے اور یہ امریکی پیسے کی مدد سے ممکن ہے، لہذا ہمیں سودوں کی منظوری کے پورے عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ امریکہ کی منقسم کانگریس نے یوکرین کے لیے اربوں ڈالر کی امداد روک رکھی ہے، تاہم تائیوان میں معاملے میں کانگریس کے تمام اراکین ایک صفحے پر ہیں۔

لیکن غزہ کی جنگ بلاشبہ تائیوان کو امریکی ہتھیاروں کی سپلائی کو محدود کر دے گی بالکل ویسے ہی جیسا یوکرین جنگ کے دوران دیکھا گیا۔ صدر بائیڈن یوکرین اور اسرائیل کے لیے جنگی امداد کے حصول کے خواہاں ہیں، جس میں تائیوان کے لیے بھی زیادہ رقم شامل ہے۔

تائیوان میں اگر آپ وزارتِ قومی دفاع سے پوچھیں کہ امریکی رقم کس کام کے لیے استعمال کی جائے گی، تو ممکنہ جواب ایک مسکراہٹ اور خاموشی کی صورت میں ملے گا۔

لیکن ڈاکٹر لائی کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں اندازے لگانا ممکن ہے: جیولن اور سٹنگر اینٹی ایئر کرافٹ میزائل، جو انتہائی موثر ہتھیار ہیں اور جن کا استعمال کوئی بھی فورس تیزی سے سیکھ سکتی ہیں۔

’ہمارے (تائیوان) پاس جیولن اور سٹنگر اینٹی ایئر کرافٹ میزائل کافی تعداد میں نہیں ہیں اور ہمیں ان کی اشد ضرورت ہے۔ یوکرین کی جنگ کے دوران سٹنگر میزائل بہت تیزی سے استعمال ہوئے، اور اب جس طرح سے یوکرین ان کا روس کے خلاف استعمال کر رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ان سے 10 گنا زیادہ سٹنگرز کی ضرورت ہے۔‘

طویل عرصے سے مبصرین کا اندازہ دو ٹوک ہے اور وہ یہ ہے یہ جزیرہ (تائیوان) چینی حملے کا کسی بھی وقت نشانہ بن سکتا ہے۔

مسائل کی فہرست طویل ہے۔ تائیوان کی فوج کے پاس سینکڑوں پرانے جنگی ٹینک ہیں، لیکن بہت کم جدید اور ہلکے میزائل سسٹم ہیں۔ اس کی فوج کی کمان کا ڈھانچہ، حکمت عملی اور نظریے کو گذشتہ نصف صدی کے دوران اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ بہت سے فرنٹ لائن یونٹوں کے پاس فوجیوں یعنی افرادی قوت کی کمی ہے جبکہ ان کا فوجی بھرتی کا نظام بھی مؤثر نہیں ہے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سنہ2013 میں تائیوان نے شہریوں کے لیے ضروری فوجی تربیت کے عرصے کو ایک سال سے کم کر کے صرف چار ماہ کر دیا تھا تاہم بعد ازاں اسے بڑھا کر 12 ماہ تک کر دیا گیا اور یہ فوجی تربیت کا عرصہ بھی ایک مذاق ہے اور اس کا حصہ بننے والے نوجوان اکثر اسے ’سمر کیمپ‘ کہتے ہیں۔

فوجی تربیت سے گزرنے والے ایک گریجوئیٹ کا کہنا ہے کہ ’وہاں کوئی باقاعدہ تربیت نہیں دی جاتی، ہم ہر دو ہفتوں میں ایک بار شوٹنگ رینج میں جاتے تھے، اور ہم 1970 کی دہائی کی پرانی بندوقیں استعمال کرتے تھے۔ ہدف کو نشانہ بنانے کے بارے میں درست تعلیم اور تربیت کا فقدان تھا اور بہت سے کیڈٹ تربیت کے دوران غائب رہے۔ ہم نے کیمپ میں رہنے کے دوران کوئی ورزش نہیں کی، اگرچہ ایک فٹنس ٹیسٹ ہوتا ہے، لیکن ہم نے اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔‘

اس کیڈٹ نے ایک ایسے نظام کی تصویر کشی کی جو ظاہر کرتی ہے کہ فوج کے سینئر کمانڈر ان جوانوں کو بالکل بے حسی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی تربیت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

واشنگٹن میں ایک مضبوط احساس ہے کہ تائیوان کے پاس اپنی فوج کی اصلاح اور تعمیر نو کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر امریکہ تائیوان کی فوج کو دوبارہ تربیت دینا شروع کر رہا ہے۔

گذشتہ کچھ عرصے سے تائیوان کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں میں یہ یقین پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ تائیوان پر حملہ کرنا چین کے لیے بہت مشکل اور خطرناک کام ہو گا۔ اور اسی صورتحال کے باعث تائیوان نے ماضی قریب میں اپنی بری فوج کے بجائے بحریہ اور فضائیہ کو ترجیح دی ہے۔

لیکن اب چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بحریہ اور کہیں زیادہ اعلیٰ پائے کی فضائیہ ہے۔ پچھلے سال ایک تھنک ٹینک کی طرف سے کی جانے والی جنگی مشقوں سے پتا چلا کہ چین کے ساتھ تنازع میں تائیوان کی بحریہ اور فضائیہ جنگ کے پہلے 96 گھنٹوں میں ہی ختم ہو جائیں گی۔

واشنگٹن کے شدید دباؤ کے تحت، تائیوان اب ایک ایسی حکمت عملی اپنانے کی طرف جا رہا ہے کہ جو اس جزیرے کو چین کے لیے فتح کرنا انتہائی مشکل بنا دے گا۔

تائیوان کی کمزوری واشنگٹن کو کام کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تائیوان کے زمینی دستوں کو تربیت کے لیے امریکہ بھیجا جا رہا ہے اور امریکی ٹرینرز تائیوان کی میرینز اور خصوصی افواج کی تربیت کے لیے تائی پے آ رہے ہیں۔

اب واشنگٹن میں اس بات پر شدید بحث جاری ہے کہ امریکہ کو تائیوان کی حمایت میں کس حد تک جانا چاہیے۔ طویل عرصے سے چین کے معاملات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے کوئی بھی عوامی عزم بیجنگ کو روکنے کے بجائے مشتعل کرے گا۔ لیکن واشنگٹن یہ بھی جانتا ہے کہ تائیوان تنہا اپنے دفاع کی امید نہیں کر سکتا۔

جیسا کہ ایک طویل عرصے سے چین پر نظر رکھنے والے نے کہا: ’ہمیں تائیوان کو مسلح کرتے ہوئے، تزویراتی ابہام کے پورے معاملے پر خاموش رہنے کی ضرورت ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ