بحری بیڑہ، میزائل دفاعی نظام اور اسلحے کی فراہمی: امریکہ اپنے ’نظریاتی ساتھی‘ اسرائیل کے دفاع کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے؟
،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, جوناتھن بیل
- عہدہ, دفاعی نامہ نگار، ایشکلون، اسرائیل
امریکہ نے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کا اعادہ کیا ہے اور اسے عسکری مدد بھی فراہم کر رہا ہے لیکن خطے میں ماضی کے تنازعات کے زخم آج بھی ہرے ہیں۔ ایسے میں امریکہ کی اس معاملے میں مداخلت کی حد کیا ہے؟
اسرائیل پر حماس کے حملے کے فوراً بعد امریکی صدر بائیڈن نے جو پہلا ردعمل دیا تھا اس نے واضح کر دیا تھا کہ کون کس کی طرف ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’اسرائیل کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ موقع کا فائدہ اٹھا لے گا تو میں صرف یہ ہی کہوں گا کہ ایسا سوچنا بھی مت۔‘
یہ دھمکی واضح طور پر ایران اور اس کے اتحادیوں کے لیے تھی۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں عراق اور شام میں امریکی فوجیوں پر کئی بار حملے کیے گئے ہیں اور بحیرۂ احمر میں موجود ایک امریکی جنگی بحری بیڑے نے یمن سے داغے گئے میزائلوں کو روکا ہے جن کا ہدف ’ممکنہ طور پر‘ اسرائیل تھا۔
مشرقی بحیرۂ روم میں امریکہ کے پاس پہلے سے ہی جنگی بحری بیڑہ موجود ہے اور جلد ہی اس خطے میں ایک دوسرا بحری بیڑہ اس کے ساتھ شامل ہونے والا ہے۔
ہر طیارہ بردار بحری بیڑے میں 70 سے زیادہ جبگی طیارے موجود ہوتے ہیں یعنی کافی گولہ بارود موجود ہوتا ہے۔ صدر بائیڈن نے ضرورت پڑنے پر خطے میں منتقل ہونے کے لیے ہزاروں امریکی فوجیوں کو بھی تیار رکھا ہے۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا عسکری معاون ہے اور اسے سالانہ 3.8 ارب ڈالرز کی امداد دیتا ہے۔
غزہ پر بمباری کرنے والے لڑاکا طیارے امریکی ساختہ ہے اور ان میں سے زیادہ تر جو اس وقت استعمال ہو رہے ہیں وہ جدید اسلحے سے لیس ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے میزائل دفاعی نظام آئرن ڈوم میں جو میزائل استعمال ہو رہے ہیں وہ بھی امریکی ساختہ ہیں۔
امریکہ اسرائیل کی جانب سے مزید گولہ بارود اور اسلحے کی درخواست سے پہلے ہی مزید سپلائی بھیج چکا ہے۔ جمعے کو بھی صدر بائیڈن نے کانگریس سے کہا ہے کہ وہ مشرقی وسطیٰ کے اتحادی کے لیے مختص 105 ارب ڈالر کی فوجی امداد میں سے 14 ارب ڈالرز کی منظوری دے۔
اگلے ہی روز پینٹاگون نے اعلان کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے دو طاقتور ترین میزائل دفاعی نظام بھیجے گا جن میں سے ایک ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس (تھاڈ) بیٹری اور دوسرا پیٹریاٹ شامل ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن کیا امریکی صدر واقعی ایک اور جنگ میں الجھنے کے لیے تیار ہوں گے، خاص طور پر امریکی صدارت کے انتخابی سال میں؟ خطے میں حالیہ فوجی مہم جوئی سیاسی، اقتصادی اور امریکی زندگیوں کے لحاظ سے امریکہ کو مہنگی ثابت ہوئی ہے۔
امریکہ میں اسرائیل کے سابق سفیر مائیکل اورین کا خیال ہے کہ صدر بائیڈن نے پہلے ہی خطے میں امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو منتقل کر کے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ اس قسم کا ہتھیار اس وقت تک نہیں نکالتے جب تک کہ آپ اسے استعمال کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔‘
لیکن واشنگٹن میں سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے انٹرنیشنل سکیورٹی کے ڈائریکٹر سیتھ جی جونز کا کہنا ہے کہ امریکہ غزہ میں جنگ میں براہ راست عسکری طور پر ملوث ہونے سے بہت گریزاں ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ طیارہ بردار بحری بیڑوں کی موجودگی انٹیلی جنس جمع کرنے اور فضائی دفاع فراہم کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ’بغیر گولی چلائے‘ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی براہ راست مداخلت امریکہ کا ’آخری حربہ‘ ہو گی۔
بنیادی طور پر اسرائیل کے شمال سے خطرہ ہے اور خصوصاً عسکریت پسند گروپ حزب اللہ سے جو اب اسرائیل اور امریکہ دونوں کو پریشان کر رہا ہے۔
ایرانی حمایت یافتہ گروپ غزہ میں حماس کے مقابلے میں بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس کے پاس تقریباً ڈیڑھ لاکھ راکٹوں کا ذخیرہ ہے جو حماس کے زیر استعمال راکٹوں سے زیادہ طاقتور اور ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اس نے اپنے دشمن اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی فائرنگ کا تبادلہ کیا ہے۔
اورین کو خدشہ ہے کہ حزب اللہ اس وقت مداخلت کر سکتی ہے جب اسرائیل ’پہلے ہی غزہ میں الجھا ہوا ہے اور پہلے ہی وہاں پر مصروف اور تھکا ہوا ہے۔‘
اگر ایسا ہوتا ہے، تو اورین کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ لبنان کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی بڑی فضائی طاقت کا استعمال کرے گا۔
البتہ اورین ایسی صورتحال نہیں دیکھ رہے ہیں جس میں امریکہ اسرائیل میں اپنے فوجیوں کو بھیجے گا۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن نے یہ بات باور کروائی ہے کہ امریکہ ایسی صورتحال میں ردِ عمل دے گا اگر صورتحال کشیدہ ہوتی ہے یا امریکی افواج یا شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
لائڈ آسٹن نے اتوار کو بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے پاس اپنا دفاع کرنے کا حق موجود ہے اور وہ اس حوالے سے ’مناسب کارروائی‘ کرنے میں ’بالکل بھی نہیں ہچکچائے گا۔‘
جونز نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس تنازع میں توسیع کا خطرہ موجود ہے لیکن ان کا ماننا ہے کہ امریکہ کی جانب سے خطے میں موجودگی ’ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروپس کے لیے خطرہ بڑھا دیتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر لبنان سے حزب اللہ شمالی اسرائیل پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے ’انتہائی سنگین ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ ان کا ماننا ہے کہ امریکی فوج کو ماضی میں ایران میں حمایتِ یافتہ گروپس کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
تاہم اسرائیل امریکہ سے حماس کے خلاف لڑائی میں براہِ راست مدد نہیں مانگ رہا۔ یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں فوجی تاریخ کے پروفیسر ڈینی اوربیک کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا فوجی نظریہ یہ ہے کہ اس میں اپنی حفاظت خود کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کے دورے سے یہ بات عیاں ہوئی کہ امریکہ کی اسرائیل کے حمایت مشروط ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کو داخل ہونے کی اجازت دے اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر طویل عرصے تک قابض رہے۔ انھوں نے سی بی ایس نیوز کے پروگرام 60 منٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا ’بڑی غلطی‘ ہو گی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ کی حمایت شاید وقت کے اعتبار سے بھی محدود ہو۔ یروشلم پوسٹ کے لیے کالم لکھنے والے دفاعی تجزیہ کار یاکوو کیٹز کا ماننا ہے کہ امریکی کی اسرائیل کے لیے حمایت غزہ میں اسرائیل کے فوجی آپریشن کے شروع ہوتے ہی دباؤ میں آنے لگے گی جب عام شہریوں کی اموات میں اضافہ ہونے لگے گا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ حمایت میں چند ہفتوں کے اندر نرمی آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اسرائیل کو امریکہ یا باقی دنیا سے ایسے زمینی حملے کے بارے میں زیادہ چھوٹ ملے گی جو زیادہ دیر تک چلے۔‘
امریکہ کو امید ہے کہ اس کی اسرائیل کے لیے فوجی حمایت اور اس کی خطے میں عسکری موجودگی میں اضافہ ہی اس تنازع کو محدود رکھنے میں اہم ثابت ہو گا۔
Comments are closed.