امریکہ اور یورپ کی مخالفت کے باوجود عرب ممالک شام سے تعلقات کیوں بحال کر رہے ہیں؟

شام

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, یولاندے نیل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، یروشلم

بدھ کے دن جب شام کے سیکیولر صدر بشار الاسد ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا استقبال کریں گے تو کسی ایرانی رہنما کا 2010 کی عرب سپرنگ کے بعد شام کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔

اس وقت سے ایران نے شام کا سب سے قریبی دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے اور روس کے ساتھ مل کر بشار الاسد کی حکومت کو ایک خونی خانہ جنگی کے دوران بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تاہم حالیہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خطے میں نمایاں اور ڈرامائی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جن کے دوران عرب دنیا میں تنہائی کا شکار ہونے والے بشار الاسد کو ان کے ہمسائے گلے لگا رہے ہیں۔

امریکی اور یورپی مخالفت کے باوجود عرب ریاستوں کی جانب سے شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا سلسلہ معمول بنتا جا رہا ہے۔ شام کو اب یہ امید بھی ہے کہ 19 مئی کو سعودی عرب میں عرب لیگ سمٹ سے پہلے اسے آبزرور سٹیٹس مل جائے گا جو رکنیت کی بحالی کی جانب پہلا قدم ثابت ہو گا۔

کرس ڈوئل کونسل فار عرب برٹش انڈرسٹینڈنگ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’روس کے علاقہ سے باہر کی تمام بین الاقوامی برادری نے شام میں پیش آنے والے واقعات کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔‘

’ایک خلا پیدا ہوا جس کو علاقائی طاقتیں پر کر رہی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر حالات بدلنے ہیں تو شام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بہت بڑا اور اہم ملک ہے۔‘

تعلقات میں گرمجوشی

حالات واقعی حیران کن طور پر بدلے ہیں۔ 2011 میں عرب دنیا کی زیادہ تر ریاستیں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی توقع کر رہی تھیں جب 22 رکنی عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی تھی۔

اس وقت میں نے بھی مصر میں قاہرہ کے تحریر چوک کے قریب واقع عرب لیگ کے ہیڈ کوارٹر کے باہر سینکڑوں شامی باشندوں کو اس فیصلے کی حمایت میں نعرے لگاتے اور جھنڈے لہراتے ہوئے دیکھا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب شام میں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا اور لوگ ملک چھوڑ کر فرار ہوئے۔ شامی حکومت کی جانب سے بمباری اور مبینہ گیس حملے ابھی نہیں ہوئے تھے۔

تقریبا ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اعداد و شمار آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ شام کی تقریبا آدھی آبادی ملک بدر ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ خانہ جنگی میں تین لاکھ عام شہری ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ گرفتار یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔

شام

،تصویر کا ذریعہEPA

2015 میں روس کی عسکری مداخلت نے اس خونی خانہ جنگی کا رخ موڑ دیا تھا جس کے بعد شام کے ہمسائے بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ شام کا مستقبل بھی بشار الاسد سے ہی جڑا ہو سکتا ہے۔

اسامہ الشریف عمان میں موجود ممتاز صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی سلامتی کے خطرے کے پیش نظر شام نے روس کا رخ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف بھی جنگ جاری تھی جبکہ حزب اللہ سمیت دیگر ایران نواز گروہ سرحدوں کے قریب ہی موجود تھے۔

بشار الاسد کی حکومت نے شام کے زیادہ تر رقبے پر اپنا اثرورسوخ بحال کر لیا لیکن عرب دنیا کی جانب سے تعلقات کی بحالی کی کوششوں میں حال ہی میں اس وقت اضافہ ہوا جب ترکی اور شام میں فروری میں ایک زلزلے نے تباہی مچا دی تھی۔

اس کے بعد ایک اور اہم پیش رفت چین کی مدد سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ تھا۔ دونوں ملک شام کی خانہ جنگی میں بھی مخالف دھڑوں کی حمایت کر رہے تھے۔

گذشتہ چند ہفتوں میں بشار الاسد عمان اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کر چکے ہیں۔ ابوظہبی میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں جن کا 10 سال بعد یہ پہلا بیرون ملک دورہ تھا۔ ابوظہبی آمد پر متحدہ عرب امارات کے صدر کی اہلیہ نے ایئرپورٹ پر بشار الاسد کی اہلیہ کا استقبال کیا۔

دوسری جانب شامی وزیر خارجہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، تیونس اور اردن کا دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس دورے میں شام کی عرب دنیا میں واپسی پر تبادلہ خیال ہوا۔

’غلط پیغام‘

عرب دنیا میں بظاہر اس سوال پر اختلافات ہیں کہ شام کی واپسی کیسے اور کب ہونی چاہیے۔ قطر، کویت، مصر اور اردن نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے کہ یہ کام جلد از جلد کیا جائے۔

خطے کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس وقت شام سے تعلقات بحال کرنے کی جلدی نظر آ رہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کے بدلے کیا گارنٹی مانگی گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے غلط پیغام جاتا ہے۔‘ اس عہدیدار کے مطابق شامی حکام کا رویہ ’مغرورانہ ہے جیسے ان سے ملنا ہماری خوش قسمتی ہے۔‘

امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ شام سے تعلقات کی بحالی کا حامی نہیں ہے اور نہ ہی شام پر سخت معاشی پابندیاں اٹھانے کے حق میں ہے۔

مارچ میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ باربرا لیف نے کہا تھا کہ ’جو عرب ممالک بشار الاسد کی تنہائی ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ اس بات کو یقنی بنائیں کہ بدلے میں ان کو بھی کچھ ملے۔‘

انھوں نے تجویز دی تھی کہ ’کیپٹاگون‘ نامی ڈرگ (منشیات) کی تجارت ختم کروانے کی کوشش کرنی چاہیے جو شام میں تیار ہو کر سمگل کی جاتی ہے۔

شام

،تصویر کا ذریعہReuters

میں نے اردن اور مشرق وسطی کے مختلف ہسپتالوں میں ’غریب آدمی کی کوکین‘ نامی اس ڈرگ کے اثرات دیکھے ہیں جس کی وجہ سے شام خود تو پیسے کما رہا ہے لیکن عرب دنیا میں مصیبت کے بیج بو رہا ہے۔

دیگر مطالبات میں شام میں ایرانی عسکری موجودگی میں کمی اور ایسی شرائط شامل ہو سکتی ہیں جن کے تحت ملک چھوڑنے والے افراد کی واپسی یا ایسے علاقوں میں محفوظ رہائش کو یقنی بنایا جا سکے جہاں اب بھی بشار الاسد مخالف قوتوں کا قبضہ ہے۔

خوف اور مایوسی

بہت سے شامی شہری عرب دنیا کی ان کوششوں سے مایوس نظر آتے ہیں جو اب تک بشار الاسد مخالف علاقوں یا ملک سے باہر مقیم ہیں اور حکومت کے خلاف عرب ممالک کو اپنا اتحادی سمجھتے تھے۔ اب وہ خود کو تنہا دیکھ رہے ہیں۔

لبنان اور ترکی میں موجود شامی تارکین وطن جبری واپسی کے امکانات کی وجہ سے زیادہ پریشان ہیں۔

واضح رہے کہ شام میں مسلح حکومت مخالف گروہوں کی سرپرستی کرنے والا ترکی بھی اب بشار الاسد حکومت سے بات چیت کر رہا ہے۔ ترکی میں انتخابات میں حصہ لینے والی تقریبا تمام جماعتیں شامی شہریوں کو ان کے ملک واپس بھجوانا چاہتی ہیں۔

استنبول کی ایک کافی کی دکان پر بات کرتے ہوئے محمد نے مجھ سے کہا کہ ’ہم الیکشن کے نتائج سے خوفزدہ ہیں۔ وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیں نکالنا چاہتے ہیں۔‘

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ شام سے تعلقات کی بحالی کے دوران ماضی کی بربریت کا کوئی ذکر نہیں ہو رہا۔

ڈیانا سیمان ایمنسٹی انٹڑنیشنل میں شام پر تحقیق کا کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم جو کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں اس میں شامی حکومت کے بدترین انسانی حقوق کے ریکارڈ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جو ہوا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

شام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایمنسٹی نے عرب دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ شام کو عام شہریوں پر مزید حملوں یا ان کو گرفتار کرنے یا تشدد کا نشانہ بنانے سے روکے۔

دوسری جانب جینیوا میں وکلا کی ایک ٹیم شام کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات پر کام کر رہی ہے جس میں اقوام متحدہ بھی مدد کر ہی ہے۔

اقوام متحدہ کا بین الاقوامی، غیر جانب دار اور آزادانہ میکانیزم برائے شام اب تک 267 مقدمات میں مدد فراہم کر چکا ہے۔

اس میکانیزم کی سربراہ کیتھرین کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ جنگ جاری رکھیں گے۔‘

چند شامی شہریوں کو امید ہے کہ خطے میں حالات کی بہتری ان کو گھر واپس جا کر اپنی زندگی شروع کرنے میں مدد دے گی۔

تاہم حکومتی علاقوں میں مہنگائی اور شدید لوڈشیڈنگ ایک عام مسئلہ بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق فروری کے زلزلے سے پہلے بھی ملک کی 70 فیصد آبادی کو امداد کی ضرورت تھی۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ہیکو ویمین کا کہنا ہے کہ اس وقت عرب ممالک شام کے تباہ حال شہروں کی بحالی کے لیے درکار اربوں ڈالر فراہم کرتے نظر نہیں آتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’امریکی پابندیاں ایک مسئلہ ہیں لیکن یہ معاشی اعتبار سے مشکل صورت حال ہے۔ اس کے لیے فعال حکومت اور گورننس درکار ہو گی اور تھوڑا ہی سہی، بنیادی احتساب بھی ضروری ہے۔‘

ایسے حالات میں شام کی حکومت نے معاشی طور پر زندہ رہنے کے لیے متعدد نجی کاروبار اپنے کنٹرول میں لے لیے ہیں اور الزام ہے کہ شامی حکومت نے لاکھوں ڈالر مالیت کی انسانی امداد بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کی ہے۔ منشیات کی سمگلنگ کا الزام بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ شامی حکومت کے پیدا کردہ مسائل ہی کی وجہ سے اب اس کے ہمسائے اسے مزید تنہا نہیں رکھنا چاہتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب شام کی خانہ جنگی باقی دنیا کے لیے خبر نہیں رہی۔

BBCUrdu.com بشکریہ