امریکہ اور چین کے صدور کی ’خوشگوار‘ ملاقات: ’فوجی سطح پر رابطے بحال کرنے پر اتفاق‘

بائیڈن، شی، امریکہ، چین

،تصویر کا ذریعہReuters

امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی ہم منصب شی جن پنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کم کرنے کے لیے فوجی سطح پر رابطوں کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ مذاکرات امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سان فرانسسکو کے قریب ایک تاریخی مقام پر ہوئے۔ ایک سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار دونوں حریف رہنماؤں کے درمیان بدھ کو بات چیت ہوئی۔

شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں گے۔ چینی سرکاری میڈیا نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

بائیڈن اور شی نے لنچ کے بعد بے ایریا کے باغ میں چہل قدمی کی۔ ایک رپورٹر کے سوال پر بائیڈن نے اس ملاقات کو ’خوشگوار‘ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ وہ اور شی جن پنگ براہ راست رابطے برقرار رکھیں گے۔ بائیڈن کے مطابق امریکہ میں دوا فنٹانائل کے اجزا کی منتقلی روکنے کے لیے دونوں ملکوں نے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

ایک صحافی کے سوال کے جواب میں بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ غزہ کے الشفا ہسپتال میں حماس کے جنگجوؤں اور ہتھیاروں کی موجودگی ’جنگی جرائم‘ کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس ’ہسپتال کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ یہی ہوا ہے۔‘

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ حماس دوبارہ اسرائیل پر حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ’یہ خیال کہ وہ رُک جائیں گے اور کچھ نہیں کریں گے، حقیقت سے تعلق نہیں رکھتا۔‘

انھوں نے اسرائیل کے دفاع میں کہا کہ عسکریت پسندوں کو دھیان سے کلیئر کیا جا رہا ہے جبکہ مریضوں کو محفوظ رکھا جا رہا ہے۔

دریں اثنا بائیڈن نے اپنا ماضی کا بیان دہرایا جس میں انھوں نے شی کو ایک ’ڈکٹیٹر‘ کہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ ایک آمر ہی ہیں کیونکہ وہ ایک کمیونسٹ ملک چلاتے ہیں۔ یہ وہ طرز حکومت ہے جو ہم سے بہت مختلف ہے۔‘

بائیڈن کے مطابق انھوں نے چینی صدر سے صدارتی الیکشن میں مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تجارت، ماحول اور فوجی سرگرمیاں، ان تمام امور پر بات چیت متوقع تھی۔ امریکہ-چین تعلقات فروری میں خراب ہوئے جب امریکہ نے اپنی فضائی حدود میں ایک مبینہ جاسوس چینی غبارہ مار گرایا۔

سابق ہاؤس سپیکر نینسی پلوسی نے گذشتہ سال تائیوان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد سے چین نے امریکہ سے فوجی قیادت کی سطح پر رابطے معطل کر دیے تھے۔

بائیڈن، امریکہ

،تصویر کا ذریعہReuters

’الیکشن سے قبل بائیڈن انتظامیہ کی فتح‘

دونوں سپر پاورز کے درمیان کئی معاملات پر اختلاف ہے، جیسے فنٹانائل کی پیداوار، ساؤتھ چائنہ سی میں فوجی سرگرمیاں، اسرائیل-حماس جنگ، تائیوان، یوکرین جنگ اور انتخابات میں مبینہ مداخلت۔

بائیڈن نے اس ملاقات کے آغاز میں بیان دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مقابلہ ’لڑائی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔‘

’مجھے ہماری بات چیت کی قدر ہے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ میں اور آپ ایک دوسرے کو واضح طور پر سمجھ سکیں، رہنماؤں کی سطح پر، تاکہ کوئی غلط فہمی ہو نہ گمراہی۔‘

پھر شی جن پنگ نے کہا کہ ’ایک دوسرے سے منھ موڑ لینا کوئی راستہ نہیں۔‘

’کرۂ ارض میں اتنی جگہ ہے کہ دونوں ملک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ایک ملک کی کامیابی، دوسرے کے لیے موقع پیدا کرتی ہے۔ لڑائی کے دونوں فریقین کے لیے ناقابل برداشت نتائج ہوتے ہیں۔‘

یہ ملاقات ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن تقریب کے دوران ہوئی جس کا بڑی دیر سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ دونوں طرف کے حکام نے خبردار کیا تھا کہ کسی بڑی پیشرفت کی توقع نہ کی جائے۔

امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا تھا کہ ’یہاں یہ مقصد ہے کہ مقابلے کو کیسے منظّم کیا جائے اور کسی لڑائی کا خطرہ کم کیا جائے۔ اور یہ یقینی بنایا جائے کہ رابطوں کے راستے کھلے ہیں۔‘

یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ بائیڈن چین سے مطالبہ کریں گے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ مشرق وسطیٰ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کے دوران پُرتشدد واقعات کو روکا جاسکے۔

سان فرانسسکو میں بی بی سی کے نامہ نگار گیری اوڈانوہیو کے مطابق بائیڈن انتظامیہ اس اجلاس کے نتائج سے خوش ہوگی اور یہ بظاہر بائیڈن کے لیے مقامی سطح پر اہم فتح ہے۔

’فوجی سطح پر بات چیت بحال ہونے سے جنوبی اور مشرقی بحیرۂ چین میں تائیوان کے مسئلے پر لڑائی کا خطرہ کم ہوتا ہے جہاں امریکی اور چینی مسلح افواج کا باقاعدگی کے ساتھ اور ممکنہ طور پر خطرناک آمنا سامنا رہا ہے۔‘

بائیڈن نے فنٹانائل کی پیداوار روکنے کا بھی معاہدہ کیا ہے جس سے کئی نوجوان امریکیوں کی موت ہوئی ہے۔ آئندہ سال صدارتی الیکشن میں یہ فتوحات اہم ہوں گی۔ یہ ملاقات ہونا بھی پیشرفت کی علامت ہے۔ مگر ہم یہ سب پہلے بھی دیکھ چکے ہیں لہذا کوئی بھی ناقابل تصور سرگرمی ایسی پیشرفت کو روک سکتی ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار روپرٹ ونگفیلڈ ہیز کے مطابق امریکہ اور چین کے درمیان فوجی سطح پر رابطوں کی بحالی کا تائیوان میں خیر مقدم کیا جائے گا۔

ان کے مطابق خود مختار جزیرے تائیوان میں واشنگٹن اور بیجنگ کے ساتھ تعلق کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بیجنگ تائیوان پر دعویٰ رکھتا ہے اور اس نے گذشتہ سال وہاں جنگی طیارے اور بحری جہازوں سے گھیراؤ کیا تھا۔ 2024 کے تائیوان الیکشن سے قبل چین نے اس سے متعلق جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ فوجی رابطوں کی بحالی سے امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ کم ہوسکتا ہے۔ یہ اہم ہے کہ تائیوان کے معاملے پر چین کے امریکہ کے ساتھ لہجے میں نرمی آئی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ