مودی کا دورۂ امریکہ: وائٹ ہاؤس اور انڈیا کا پاکستان سے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
امریکہ کے ریاستی دورے پر آئے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے وائٹ ہاؤس میں تقریب کا انعقاد کیا گیا
انڈیا اور امریکہ نے ایک مشترکہ بیان میں سرحد پار دہشتگردی اور ’پراکسی گروہوں‘ کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔ ‘
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں سرحد پار دہشتگردی اور ’پراکسی گروہوں‘ کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔ ‘
اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکہ اور انڈیا کے تعلقات کو سراہتے ہوئے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ دورے کے دوران وائٹ ہاؤس میں ان کا پُرتپاک استقبال کیا ہے۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس میں مودی کے استقبال کے دوران 21 توپوں کی سلامی دی گئی اور رات کے عشائیے میں صرف سبزیوں پر مشتمل کھانے رکھے گئے۔
اس ریاستی دورے پر مودی نے امریکی کانگریس سے بھی خطاب کیا جہاں ارکان نے نشستوں سے اُٹھ کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔
واضح رہے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی چار روزہ دورے پر امریکہ میں ہیں۔
’پاکستان یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو‘
مودی کی امریکہ آمد پر وائٹ ہاؤس نے اپنی ویب سائٹ پر انڈیا اور امریکہ کا ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں پاکستان کا ذکر بھی ملتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ اور انڈیا عالمی دہشتگردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ہر صورت میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔‘
اس اعلامیے میں کالعدم تنظیموں القاعدہ، دولت اسلامیہ (داعش)، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
’سرحد پار دہشتگردی‘ کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ اور انڈیا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ’فوری اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا جائے کہ اس کی سرزمین دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔‘
اعلامیے میں ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
انڈیا اور امریکہ نے عالمی سطح پر دہشتگردی کے مقاصد کے لیے ڈرون (یو اے ویز) کے استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے۔
اس اعلامیے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے خلاف عالمی سطح پر عملداری کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
مودی کا دورہ جو انڈیا-امریکہ تعلقات کے لیے معنی خیز ثابت ہو رہا ہے
مودی کے وزیر اعظم بننے سے قبل امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر انھیں ویزا دینے سے انکار کیا تھا۔ تاہم اب امریکہ کے لیے وہ ایک اہم اتحادی ہیں۔
انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن نے تاریخی اعتبار سے انڈیا کے ساتھ قربتیں بڑھائی ہیں۔ تاہم دلی امریکہ سے تعلقات کو اس تناظر میں نہیں دیکھتا ہے۔
کانگریس سے خطاب کے دوران اگرچہ مودی نے چین کا نام نہیں لیا تاہم یہ ضرور کہا کہ ’دباؤ اور جھگڑے کے کالی بادل انڈو پیسیفک میں اپنے سائے چھوڑ رہے ہیں۔‘
مودی نے روس کا نام بھی نہیں لیا جس نے یوکرین کے ساتھ جنگ شروع کی مگر یہ کہا کہ ’یوکرین تنازع کے ساتھ یورپ میں جنگ لوٹ آئی ہے۔‘
انڈیا نے اب تک اس جنگ پر روس پر تنقید نہیں کی۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس کی وجہ روسی دفاعی درآمدات پر انحصار ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔
اس جنگ نے واشنگٹن اور دلی کے درمیان تعلقات کو ضرور متاثر کیا ہے۔ لیکن بائیڈن نے اس دورے پر صرف مثبت پہلوؤں پر توجہ دی ہے اور کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اب تک کی سب سے مضبوط سطح پر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ ’21ویں صدی کے سب سے معنی خیز رشتوں میں سے ایک ہے۔‘
مودی نے ان سے اتفاق کیا اور کانگریس کو بتایا کہ یہ دو عظیم جمہوریتوں کا اتحاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی دوستی پوری دنیا میں مضبوطی بڑھانے کا سبب بنے گی۔
انڈین وزیر اعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کی عالمی و علاقائی شراکت کے لیے یہ ایک نیا موڑ ہے۔
وائٹ ہاؤس کے باہر مودی مخالف مظاہرے
مودی کا صحافی کو جواب اور دورے پر اوبامہ کا تبصرہ
تاہم ہر کسی نے اس دورے کا اسی جذبے سے جشن نہیں منایا ہے۔
ناقدین کے خلاف کارروائیوں کی بنا پر انڈین وزیر اعظم تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ ان کی ہندو قوم پرست حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے اقلیتوں کے خلاف پُرتشدد واقعات اور استحصال روکنے کے لیے ناکافی اقدام کیے ہیں۔
مودی کے دورے کے دوران امریکہ میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے باہر ایک احتجاج میں شرکا نے ان کی امریکی آمد اور ریاستی پروٹوکول ملنے کی مخالفت کی۔
دوسری طرف سیلیکون ویلی میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان نے مودی کو خوش آمدید کہا ہے جو اس شعبے میں اب عالمی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے کئی آزاد خیال ارکان نے کانگریس میں ان کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔ ان میں الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز شامل تھیں جنھوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ امریکہ میں اعلیٰ سفارتی پروٹوکول پر مبنی ریاستی دورے کی دعوت ایسے افراد کو نہیں دی جانی چاہیے جن ’انسانی حقوق کے اعتبار سے پریشان کن ریکارڈ‘ ہے۔
تقاریر اور پریڈ کے علاوہ تجارتی میدان میں پیشرفت ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنازیشن میں جاری چھ مقدمات ختم کرنے پر اتفاق کیا جبکہ جنرل الیکٹ اور مکرون کے ساتھ معاہدوں کا اعلان کیا گیا۔
مودی، جو کہ 2014 میں انڈیا کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے پریس کانفرنس نہیں کرتے، نے صحافیوں سے سوال جواب میں حصہ لے کر لوگوں کو حیران بھی کیا۔
جب ان سے انڈیا میں انسانی حقوق کی پامالی پر پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ حیران ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے۔۔۔ جمہوریت ہماری رگوں میں بستی ہے‘ اور ملک میں ’امتیازی سلوک کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘
مودی کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے کہا کہ ’ہندو اکثریتی انڈیا میں مسلم اقلیت کی سکیورٹی قابل ذکر ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اس وقت صدر ہوتے تو ’مودی سے بات کرتے‘ اور انھیں سمجھاتے کہ ’اگر آپ نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ کیا تو مستقبل میں انڈیا میں تقسیم پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ انڈیا کے مفاد میں نہیں۔‘
Comments are closed.