امریکہ اسرائیل کو امداد اتنی کیوں دیتا ہے اور یہ پیسے کہاں استعمال ہوتے ہیں؟
- جیک ہورٹن
- بی بی سی ریئلٹی چیک
امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنی ہی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی میں سے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو امداد کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہے۔
سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس پر ‘سخت نظرِثانی’ کرنی چاہیے کہ یہ پیسہ کیسے استعمال ہو رہا ہے۔
تو اسرائیل کو امریکہ سے کیا ملتا ہے اور یہ پیسہ کس لیے استعمال ہوتا ہے؟
اسرائیل کے لیے امریکی امداد
سنہ 2020 میں امریکہ نے اسرائیل کو اوباما دور میں کیے گئے ایک طویل مدتی سالانہ وعدے کے تحت 3.8 ارب ڈالر کی امداد دی۔ یہ امداد تقریباً مکمل طور پر عسکری مقاصد کے لیے تھی۔
سابق صدر باراک اوباما نے سنہ 2016 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت اسرائیل کو 2017 سے 2028 کے درمیان کُل 38 ارب ڈالر کی امداد دی جانی تھی۔
اگر افراطِ زر کو مدِنظر رکھا جائے تو یہ امداد گذشتہ دہائی کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ تھی۔ اگر سنہ 1999 سے لے کر 2028 تک ہر دہائی کے حساب سے دیکھا جائے تو امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے لیے امداد میں اضافہ ہی ہوا ہے اور ان پیسوں میں میزائل ڈیفینس کے فنڈز شامل نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ گذشتہ سال امریکہ نے اسرائیل میں تارکینِ وطن کو بسانے کے لیے 50 لاکھ ڈالر مزید دیے۔
اسرائیل ایک طویل عرصے سے دنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے کی پالیسی رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل نے امریکی امداد کیسے استعمال کی ہے؟
گذشتہ چند برس میں امریکی امداد نے اسرائیل کو دنیا کی سب سے ترقی یافتہ افواج کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے اور امریکی امداد کے باعث وہ امریکہ سے جدید ترین فوجی ساز و سامان خرید سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اسرائیل نے 50 ایف 35 لڑاکا طیارے خریدے ہیں جو میزائل حملوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے 27 طیارے اسرائیل کو پہنچا دیے گئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی لاگت دس کروڑ ڈالر ہے۔
اس کے علاوہ گذشتہ سال اسرائیل نے آٹھ کے سی 46 اے بوئینگ پیگاسس طیارے بھی خریدے جن کی لاگت اندازاً 2.4 ارب ڈالر تھی۔ یہ طیارے ایف 35 جیسے لڑاکا طیاروں کو فضا میں ہی ایندھن دوبارہ فراہم کر سکتے ہیں۔
سنہ 2020 میں اسرائیل کو دیے گئے 3.8 ارب ڈالر میں سے 50 کروڑ ڈالر میزائل ڈیفینس کے لیے دیے گئے جس میں اسرائیل کے آئرن ڈوم نظام اور دیگر سسٹم شامل ہیں جو اسرائیل پر فائر کیے گئے راکٹس کو فضا میں ہی روک دیتے ہیں۔
سنہ 2011 سے اب تک امریکہ نے آئرن ڈوم دفاعی نظام کے لیے 1.6 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ عسکری ٹیکنالوجی پر مل کر کام کرتے ہوئے کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں جس میں اسرائیل میں غیر قانونی داخلے کے لیے زیرِ زمین سرنگوں کا سراغ لگانے والی ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔
اسرائیلی حکومت عسکری ساز و سامان اور تربیت میں بے پناہ سرمایہ کاری کرتی ہے۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کی دیگر طاقتوں سے کہیں چھوٹا ملک ہے اور یہ امریکی امداد کو اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
دیگر ممالک سے موازنہ
دوسری عالمی جنگ سے اب تک اسرائیل امریکی بیرونی امداد کا سب سے بڑا وصول کنندہ رہا ہے۔
یو ایس ایڈ کے مطابق سنہ 2019 میں اسرائیل افغانستان کے بعد سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک تھا۔
اس کے بعد اردن، مصر اور عراق کا نمبر آتا ہے اور اس رقم میں اسرائیل کو میزائل ڈیفینس کے لیے دیے گئے 50 کروڑ ڈالر شامل نہیں ہیں۔
افغانستان کو دیا گیا بہت سا پیسہ ملک میں استحکام لانے کی امریکی فوج کی کوششوں پر استعمال ہوا ہے جو سنہ 2001 میں امریکہ کے حملے کے بعد سے جنگ کا شکار ہے۔
مگر اب اس سال ستمبر میں امریکی فوجی افغانستان چھوڑنے والے ہیں، اس لیے سنہ 2021 کے لیے صرف 37 کروڑ ڈالر رقم طلب کی گئی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کو ہی سب سے زیادہ امریکی امداد ملتی ہے۔
صدر بائیڈن کو رشیدہ طلیب (بائیں) جیسے ڈیموکریٹس کی جانب سے اس معاملے پر دباؤ کا سامنا ہے
مصر اور اُردن بھی سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والوں میں سے ہیں۔ دونوں ہی ممالک اسرائیل سے ایک مرتبہ جنگ لڑنے کے بعد اب امن معاہدے کر چکے ہیں۔
دونوں ہی ممالک کو سنہ 2019 میں امریکی امداد کی مد میں 1.5 ارب ڈالر ملے۔
اس کے علاوہ امریکی صدر جو بائیڈن نے فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے کے لیے 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی کچھ فنڈنگ بحال کر دی ہے۔ یہ فنڈنگ سنہ 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے روک دی تھی۔
امریکہ اسرائیل کو اتنی امداد کیوں دیتا ہے؟
امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے لیے عسکری امداد کی کئی وجوہات ہیں جس میں سنہ 1948 میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے امریکی حمایت کے وقت تک کے وعدے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کے نزدیک دونوں ممالک کے مشترکہ مقاصد اور جمہوری روایات کے لیے مشترکہ عزائم ہیں۔
امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق: امریکی خارجہ امداد ان روابط کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ امریکی حکام اور کئی قانون سازوں نے اسرائیل کو طویل عرصے سے خطے میں ایک اہم شراکت دار تصور کر رکھا ہے۔’
امریکی حکومت کے ادارہ برائے خارجہ امداد کے مطابق: ‘امریکی امداد یہ یقینی بناتی ہے کہ اسرائیل دیگر ممکنہ علاقائی خطروں پر اپنی عسکری برتری برقرار رکھے۔’
اس کے مطابق: ‘امریکی امداد کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل اتنا محفوظ ہو کہ وہ تاریخی اقدامات اٹھا سکے جو فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے اور جامع علاقائی امن کے لیے ضروری ہیں۔’
کئی دہائیوں سے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں ہی جماعتوں کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے کہ اسرائیل خود کو خطے میں بیرونی خطرات سے بچا سکے۔
سنہ 2020 میں ڈیموکریٹ جماعت کے الیکشن پلیٹ فارم نے اسرائیل کے لیے ’آہنی امداد‘ کا وعدہ کیا مگر پارٹی میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے کچھ لوگ اب اسرائیل کے لیے امداد کے امریکی عہد پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
برنی سینڈرز اور دیگر ڈیموکریٹس نے اسرائیل کو 73 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے گائیڈڈ ہتھیاروں کی طے شدہ فروخت روکنے کے لیے کوششیں کی ہیں۔
Comments are closed.