جوہری معاہدہ: کیا امریکہ، ایران جوہری مذاکرات میں اصل رکاوٹ حوثی باغیوں اور ملیشیا کے حملے ہیں؟
امریکہ اور ایران کے مابین بلواسطہ بات چیت کا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے ہی مسائل کا شکار ہو گیا ہے۔ ان بلواسطہ مذاکرات کا مقصد ایران اور امریکہ کے درمیان سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کو دوبارہ زندہ کرنا ہے لیکن خطے میں کشیدگی اور ایران کی پراکسی قوتوں کے اس کے ہمسائیوں پر حملوں کے واقعات نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے ویانا میں ہونے والے مذاکرات کا دفاع کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ رہبرا اعلیٰ کے ’مشورے‘ ان مذاکرات میں ایران کی رہنمائی کریں گے۔
پندرہ اپریل کو اپنی ایک انسٹا گرام پوسٹ میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ناقدین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ یہ امید نہ رکھیں‘ کہ مذاکرات ناکام ہوں گے۔
ظریف نے فارسی زبان میں پیغام میں لکھا کہ ’ہمارے رہبر اعلیٰ کی نصیحت نے ہمیشہ ہمیں ناکام مذاکرات سے بچنے میں رہنمائی کی ہے۔ ہم نے ہمیشہ مثبت مذاکرات کی غرض سے ہی مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے اور ہم نے صرف قومی مقاصد کے لیے ہی مذاکرات کیے ہیں۔‘
اس ہفتے کے شروع میں، ایران کے رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے ویانا میں مذاکراتی ٹیم کو متنبہ کیا تھا کہ وہ جوہری معاہدے کی بحالی کے سلسلے میں طویل مذاکرات سے گریز کریں۔
ان مذاکرات کے بارے میں ایران کے عزائم اور قدامت پسند مقامی میڈیا میں اس کے پراکیسوں کے بارے میں متعدد خبروں سے بہت سی چیزوں کا اندازہ ہو رہا ہے۔
یہ مذاکرات آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے ہیں لیکن ان مذاکرات سے پہلے سعودی عرب میں حوثی باغیوں کی جانب سے مسلسل حملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ عراق میں بھی مقامی ملیشیا نے امریکی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
واضح رہے کہ حوثی باغیوں اور امریکی تنصیبات پر حملہ کرنے والے جنگجوؤں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیے
حالانکہ حوثی باغیوں اور سعودی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپیں، عراق میں جاری صورتحال سے مختلف ہیں لیکن عراق میں ہونے والے حملوں سے جنگ چھڑنے کے امکانات ہیں۔ حوثی باغیوں کے حملوں میں تیزی سے اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایران انھیں روکنا نہیں چاہتا یا پھر یہ کہ یہ ایران کے کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں۔
ایران کے پراکسیوں کی طرف سے حملے اور ایرانی حکام کا بار بار اس بات پر زور دینا کہ جب تک اقتصادی پابندیاں نہیں ہٹائی جائیں گی تب تک وہ کچھ نہیں کریں گے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایران نیوکلیئر ڈیل کو دوبارہ زندہ کرنے کی خاطر ایک خفیہ منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کے لیڈر ابو مہدی الموہاندس کی سنہ 2020 میں ہلاکت کے بعد جنوری اور فروری کے درمیان عراق میں ہونے والے حملوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ مقامی ملیشا جنھیں ایران کی پیشت پناہی حاصل ہے اور سامنے آنے والی نئی ملیشیا نے ان حملوں کی ذمہ داری لی ہے۔
لیکن آہستہ آہستہ ان حملوں میں کمی آئی اور امریکی سکیورٹی فوسز کا عراق سے بڑی تعداد میں انخلا ہوا۔
بی بی سی مانیٹرنگ نے دسمبر 2020 اور مارچ کے درمیان ہونے والے ان حملوں کی تعداد کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بغداد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ہونے والا حملہ اور ان مقامات پر ہونے والے حملے شامل ہیں جہاں پر امریکی سکیورٹی فوسرز تعینات تھیں۔
ان میں ایسے حملے بھی شامل ہیں جن میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا لیکن اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
عراق میں ہونے والے حملوں میں سب سے زیادہ تعداد فوجی ساز و سامان لے جانے والے گاڑیوں کے قافلوں پر تھی۔ یہ گاڑیاں ملک میں موجود مختلف فوجی اڈوں سے سامان ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کر رہی تھیں۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جو کہ مقامی ملیشیا، عراقی حکام کو ناراض کیے بغیر ایک پیغام کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
فوجی ساز و سامان لے جانے والے قافلوں پر حملے کے واقعات میں اضافہ پہلے ہی ہو رہا تھا تاہم نومبر میں ایرانی ایٹمی سائنسدان محسن فخر زادے کے قتل کے بعد دسمبر کے مہینے میں ان واقعات کے رونما ہونے میں مزید تیزی دیکھنے میں آئی لیکن جنوری میں ان حملوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی۔
فروری میں ایک بار پھر ان حملوں کی تعداد اور ان کی شدت میں اضافہ ہوا۔ پندرہ فروری کو اربل میں امریکی فوجی اڈے پر حملہ ہوا جس میں ایک شہری کی ہلاکت، نو شہری جو کہ کنٹریکٹر تھے اور ایک امریکی فوجی زخمی ہوئے۔
اس حملے کی نوعیت اس لحاظ سے بھی مختلف تھی کیونکہ یہ کردستان کے علاقے میں ہوا جہاں ایرانی پراکسیوں کا اثرورسوخ کم ہے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب امریکہ اور یورپ نے سنہ 2015 میں ہونے والے معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان حملوں کے پیچھے ایک اور وجہ امریکی افواج کا عراق سے انخلا کا مطالبہ تھا اور اسے حاصل کرنے کے لیے عراق میں جاری نام نہاد ’اسلامی مزاحمت‘ انھیں ایک ہتھیار کے طور پر نظر آتی ہے۔
امریکی افواج کے انخلا کے مطالبے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان امریکی اڈوں کو ایران اور اس کے حامی ملیشیا کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایک اور بات جو قابلِ فکر ہے وہ یہ کہ 26 جنوری کو شام پر امریکی فضائی حملے کے بعد اس کا کوئی فوری ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ یہ حملہ اربل پر ہونے والے حملے کا جواب تھا اور اس میں 17 ایسے جنگجو ہلاک ہوئے جنھیں ایران کی پشت پناہی حاصل تھی۔
اس امریکی حملے کے بعد فروری کے آخر میں فوجی قافلوں پر دو چھوٹے حملے ہوئے۔ اس کے بعد 15 مارچ کو بالاد ائیربیس کو، جہاں امریکی کنٹریکٹر اور عراقی افواج موجود تھیں، نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یہ حملہ پہلے ہونے والے حملوں سے مختلف تھا اور اس کی شدت سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ایران کے حامیوں نے حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔
دسمبر اور جنوری کے مقابلے میں فروری اور مارچ میں ہونے والے حملوں میں زبردست کمی آئی ہے۔ ایران نواز حوثی باغیوں نے یمن پر سعودی عرب کی بمباری کے بعد حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
سعودی عرب، اس کے حامیوں اور یمن کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے والے صدر منصور الہادی کی منظوری سے مارچ 2015 میں ان حملوں کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے ستمبر 2014 میں ہوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اس طویل جنگ میں کچھ عرصہ امن رہا لیکن پھر کچھ ہی عرصے بعد سعودی عرب پر حوثی باغیوں کے حملے بھی شروع ہوئے، جس کے باعث اتحادی افواج نے فضائی حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی۔
بی بی سی مانیٹرنگ نے دسمبر 2020 سے ہونے والے ان حملوں کی نوعیت اور تعداد پر تحقیق کی ہے۔ دسمبر اور جنوری میں سعودی سرزمین پر چھوٹے ڈرون حملے دیکھنے میں آئے لیکن ان میں سے کسی بھی حملے کی ذمہ داری حوثی باغیوں نے قبول نہیں کی۔
حوثی باغیوں اور سعودی اتحادی افواج کے مطابق ان حملوں کی تعداد اور شدت میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔
مزید یہ کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن میں امن کے حوالے سے تجویز دیے جانے کے بعد بھی سرحد پار سے حملے جاری رہے۔ امن کی اس تجویز کو سعودی حمایت یافتہ حکومت نے خوش آمدید کہا لیکن حوثی تحریک کے رہنماؤں نے اسے مسترد کر دیا۔
حوثیوں کا کہنا تھا کہ جب تک یمن کا محاصرہ ختم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک امن کی کسی بھی پیشکش پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جا سکتا۔
اس اعلان کے صرف ایک دن بعد باغیوں نے دعویٰ کیا کہ ابہا ایئرپورٹ پر ڈرون حملہ انھوں نے کیا تھا اور پھر تین بعد انھوں نے سعودی عرب پر ایک اور حملہ کیا جو کہ حالیہ مہینوں میں ان کے سب سے بڑے حملوں میں سے ایک تھا۔ حوثیوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس حملے میں سعودی عرب کی اہم تنصیبات پر 18 ڈرون اور آٹھ بیلسٹک میزائل داغے تھے۔
یوں ایک مرتبہ پھر یہ دیکھا گیا کہ سعودی اتحاد کی سرگرمیوں میں کمی کے باوجود سرحد پار سے حملوں میں بہت تیزی آئی، نہ کہ اس کے جواب میں۔
ایران نے کیا کہا؟
ایرانی ذرائع ابلاغ امریکی سفارتخانے اور عراق میں امریکی اتحادیوں کے قافلوں پر حملے پر مسلسل خبریں نشر کر رہا ہے۔ عراقی میڈیا پر خبر آنے کے چند ہی منٹ کے اندر اندر ایران کے ٹیلی گرام پر چلنے والے چینلز پر تازہ ترین خبریں آ رہی ہیں۔
سرکاری طور پر ایران نے سفارتخانے پر حملے کی مذمت کی ہے بلکہ یہاں تک کہ ایران نے بغداد سے کہا کہ وہ اس حملے کے ذمہ داروں کی شناخت کرے۔ ایران ایک عرصے سے انکار کر رہا ہے کہ عراق میں ہونے والے حملوں میں وہ ملوث ہے۔
ایران اور اس کا میڈیا ’پراکسی‘ کی اصطلاح کو رد کرتا ہے جن سے ایسے گروہ کی مراد لی جاتی ہے جنھیں ایران کا حمایت یافتہ کہا جاتا ہے۔ ایران بہت کم ہی ان گروہوں کے ساتھ اپنے رابطوں کو تسلیم کرتا ہے۔
ایران میں میڈیا القدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قانی کی ملیشیا رہنماؤں سے ملاقاتوں کی خبریں بھی بہت کم ہی دیتا ہے۔ ایرانی میڈیا اور ایران خود ان گروہوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ملیشیا عراق کے اندر سے پیدا ہونے والے ’مزاحمتی‘ گروہ ہیں جو ہو سکتا ہے کہ ایران کی اقدار کی ترجمانی کرتے ہوں لیکن وہ ایران کے پروردہ نہیں ہیں۔
اگرچہ ایران سرکاری طور پر اتحادی قافلوں پر ڈرون حملوں کی حمایت نہیں کرتا لیکن ایتان میں سخت گیر میڈیا ان حملوں کی کھل کر حمایت کرتا ہے اور ان حملوں کو عراق کی پاپولر فورس یا ’مقبول دستوں‘ کی جانب سے اپنے ہاں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کے خلاف حق پر مبنی جواب قرار دیتا ہے۔
اس دوران یمن میں سرکاری اور نجی میڈیا حوثیوں کی کھلے عام حمایت کر رہا ہے۔ ایران حوثیوں کو یمن کا جائز حکمران سمجھتا ہے اور جب میڈیا ’یمنی مسلح افواج‘ کہتا ہے تو اس سے اُس کی مراد حوثی باغی ہوتی ہے۔
ایران کے سرکاری حکام سعودی عرب میں حوثیوں کے حملوں کو جائز قرار دے چکے ہے، اور جب بھی حوثی سعودی عرب میں کسی مقام کو نشانہ بناتے ہیں یا یمن سعودی اتحاد کے خلاف کوئی بڑی پیش قدمی کرتا ہے تو ایران کا سخت گیر میڈیا کھلے عام اس کا جشن مناتا ہے۔
ایران کی جانب سے عراق میں اپنے حمایت یافتہ گروہوں کی کارروائیوں کی واضح حمایت سے ان افواہوں کو تقویت ملی ہے کہ ایران، امریکی صدر جو بائیڈن پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے کہ وہ مذاکرات کی جانب لوٹ آئیں اور ان پابندیوں کو اٹھا لیں جن کی وجہ سے سنہ 2018 سے ایران کی معیشت بدحالی کا شکار ہے تاہم امریکہ کا اصرار ہے کہ ایران کی یہ حمکت عملی کامیاب نہیں ہو گی۔
یہاں تک کہ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایرانی رہنما اصل میں جو بائیڈن کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران عراق میں موجود اپنے حمایت یافتہ گروہوں کو قابو میں لانے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر امریکہ پابندیاں اٹھا لیتا ہے تو یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.