امدادی ٹرکوں کو لوٹنے اور نذر آتش کرنے کے واقعات: وہ اسرائیلی رضا کار جو غزہ کے لیے امداد کی ’جنگ‘ لڑ رہے ہیں
- مصنف, پال ایڈمز
- عہدہ, بی بی سی نامہ نگار برائے سفارتی امور
- ایک گھنٹہ قبل
غزہ میں جنگ کئی محاذوں پر لڑی جا رہی ہے۔ ان میں سے ایک ’مدد‘ پہنچانے کی صورت میں بھی ہے۔پہلے پہل کچھ اسرائیلی شہریوں کی جانب سے غزہ کے لیے امدادی سامان سے لدی گاڑیوں کے کریم شالوم کراسنگ سے داخل ہونے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ چند ہی مہینوں میں یہ لڑائی دوسرے علاقوں تک پھیل گئی، جہاں حریف گروپوں کے درمیان امداد کو روکنے اور اس کی غزہ تک فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔حالیہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امداد لے کر جانے والی گاڑیوں کو روک کر لوٹ مار کی جا رہی ہے۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن بشمول مقبوضہ غرب اردن میں رہائش پذیر یہودی آباد کاروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر درجنوں ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں۔ ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ امدادی ٹرکوں سے سامان کو زمین پر پھینک رہے ہیں۔ ایسا کرنے والوں میں کئی کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ایک کارکن کا کہنا تھا کہ ’اس امداد کو روکنا بہت ضروری ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں اور یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہم اپنے (سات اکتوبر 2023 کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں) یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کو واپس لا سکتے ہیں۔‘کچھ کارکنان اس کے لیے یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ غزہ میں رہنے والوں کو اس وقت تک کچھ نہیں ملنا چاہیے جب تک اسرائیلی یرغمالی ان کے پاس ہیں اور امداد بھیجنے کا صاف مطلب اس جنگ کو طول دینا ہے۔ایک ویڈیو میں اسرائیلی شہریوں کے ایک گروپ کو لوٹی جانے والی لاری کے اوپر جشن مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ایک اور ویڈیو میں امداد لے جانے والی ایک لاری کو نذرِ آتش کیا جا رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہAFPدیگر ویڈیوز میں یروشلم میں قانون کو ہاتھ لینے والے اسرائیلی گروپ امداد لے جانے والی گاڑیوں کو روک کر ڈرائیورز سے دستاویزات دکھانے کے مطالبات کر رہے ہیں تاکہ تسلی کی جا سکے کہ امداد غزہ تو نہیں جا رہی۔ویڈیوز میں ان افراد کے چہرے صاف نظر آ رہے ہیں یعنی انھوں نے اپنے چہروں کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ یہ سب پوری آزادی کے ساتھ کر رہے تھے۔حتیٰ کہ مقبوضہ غربِ اردن میں دو ایسے ڈرائیورز کو بھی گاڑیوں سے نکال کر مارا پیٹا گیا جو غزہ کے لیے سامان نہیں لے جا رہے تھے۔فلسطینی ٹرک ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ وہ خوفزدہ ہیں۔عادل امرو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں کراسنگ پوائنٹ پہنچنے سے خوفزدہ رہتا ہوں۔ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔‘عادل امرو و تجارتی طور پر خریدا گیا سامان غربِ ادن سے غزہ لے کر جا رہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔دیگر ڈرائیور جنھیں نشانہ بنایا گیا، وہ اردن سے امدادی سامان لے کر غزہ جا رہے تھے۔ غزہ تک امداد پہنچانے کے لیے انھیں غربِ اردن اور اسرائیل سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آباد کاروں کی جانب سے جارحیت کے خوف سے وہ اب مرکزی راستوں کی جگہ سائیڈ کی سڑکیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔لیکن اب کچھ اسرائیلی ان حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔امن کے لیے کام کرنے والے یہ رضا کار سوشل میڈیا پر نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اہم کراسنگ پوائنٹس پر موجود رہیں۔ترقوميا چوکی پر لاریاں جنوبی غربِ اردن سے اسرائیل میں داخل ہوتی ہیں۔ گروپ ’سٹینڈنگ ٹوگیدر‘ (Standing Together) کے ارکان باقاعدگی سے اب نگرانی کرتے ہیں۔حالیہ حملوں میں ترقوميا کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔سُف پتیشی اس گروپ کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’غزہ کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور امداد غزہ پہنچنی چاہیے۔‘قافلوں پر حالیہ حملوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی معاشرے کو بلند اور واضح الفاظ میں کہنا چاہیے کہ ہم ان کارروائیوں کے خلاف ہیں۔‘’بھوک سے نہ مرنے کی خواہش کرنا بہت زیادہ تو نہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.