- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق
- 2 گھنٹے قبل
اگست 1988 کی اُس صبح سوویت جنگی طیارے کا ملبہ تو پاکستانی علاقے میران شاہ کے قریب مل گیا لیکن اس کا کاک پٹ خالی تھا۔ملبے کے مقام پر پہنچنے والے پاکستانی اہل کاروں کا خیال تھا کہ شاید یہ پائلٹ پیدل ہی افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا ہو۔حقیقت میں طیارے کا پائلٹ اسی کوشش میں تھا لیکن اسی دوران میں قریبی گاؤں کی ایک خاتون، جو گھر سے رفع حاجت کے لیے باہر نکلی تھیں، نے جب صرف زیرجامہ میں ملبوس ایک چھ فٹ لمبے خوبصورت شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں گہری سبز اور مونچھیں بھوری تھیں تو فورا گھر لوٹ کر اجنبی کی موجودگی کی اطلاع دی۔کچھ ہی دیر میں قبائلیوں کا ایک گروہ اس پائلٹ کو شلوار قمیض پہنا کر پاکستانی حکام کے سامنے کھڑا تھا۔ آٹھ دن تک پاکستان میں قیدی رہے اس پائلٹ کا نام کرنل الیگزینڈر رٹسکوئی تھا جو تین سال بعد سوویت یونین کے نائب صدر بنے۔
لیکن ان کا جنگی طیارہ پاکستان میں کیسے گرایا گیا اور آخر ایک سوویت پائلٹ پاکستان آیا ہی کیوں؟
سوویت یونین اور افغانستان
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر محمد اویس کے مطابق سوویت یونین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات تب مخالفانہ ہو گئے تھے جب دسمبر 1979 میں افغانستان میں سوویت افواج داخل ہونے کے بعد پاکستان امریکہ کی ظاہری اور خفیہ امداد کا ایک راستہ اور لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی پناہ گاہ بن گیا۔سکیورٹی امور کے ماہر سیباسچیئن روبلن اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’سوویت اور افغان بمبار طیاروں نے مہاجر کیمپوں کو تباہ کرنے کے لیے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہونا شروع کر دیا۔‘صحافی سٹیون آر ویزمین کے مطابق 1300 سے زائد بار دراندازی میں مہاجر کیمپوں پر بمباری کی ان مہمات کے نتیجے میں 300 سے زیادہ افغان مہاجرین ہلاک ہوئے۔’اسی تناظر میں پاکستان کے تب فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نےامریکی صدر ریگن کی انتظامیہ کو 40 ایف 16 طیاروں کی فروخت کی اجازت دینے پر قائل کیا اور یہ طیارے 1983 سے 1986 کے درمیان ملے۔‘رابن ہائیم، ایئر مارشل اے راشد شیخ (ریٹائرڈ) کی کتاب ’پاک فضائیہ کی کہانی، 1988-1998: مشکلات کے خلاف جنگ‘ کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دشمن طیاروں کی دراندازی سے نمٹنا خاص طور پر مشکل تھا۔’پاکستان امن کی حالت میں تھا اور تنبیہی نظام اواکس کی عدم موجودگی میں پہاڑ ریڈار کو مسدود کر رہے تھے۔ اس لیے جلد وارننگ کا وقت تقریباً صفر تھا۔ ایف سولہ طیاروں کو گشت میں بہت زیادہ گھنٹے لگانے پڑتے۔‘سنہ 1986 کے وسط سے پاکستانی فضائیہ کی توجہ زیادہ تر حملہ آور طیاروں کو ڈرا کر بھگانے پر رہی لیکن بعض اوقات مُڈ بھیڑ بھی ہوئی۔سباسچیئن روبلن کے نیشنل انٹرسٹ کے لیے تحریر کردہ مضمون کے مطابق سنہ 1988 میں جب سوویت زمینی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو رہا تھا تو سوویت اور افغان فضائیہ نے تباہ ہوتی افغان کمیونسٹ حکومت کو بچانے کی آخری کوشش میں ایک زبردست بمباری مہم شروع کر دی۔
میران شاہ پر حملہ اور پاکستانی فضائیہ سے لڑائی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
رٹسکوئی کی تلاش اور گرفتاری
جہاز کا ملبہ اٹھانے جانے والی ٹیم کے ایک رکن نے ایوی ایشن فورم کے اس واقعے سے متعلق تھریڈ میں اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بعد میں گرو کے عرفی نام سے لکھا کہ ملبہ بویا کے نام سے مشہور جگہ پر پڑا تھا۔’بویا تک پہنچنے میں ہمیں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگا۔ ملبہ سڑک کے بالکل ساتھ پڑا تھا۔ بائیں بازو کا آؤٹ بورڈ آدھا غائب تھا۔ چونکہ میزائل مارا گیا تھا، شاید بازو پر، اس کا ایک حصہ ہوا میں ٹوٹ گیا تھا۔ یہ ایک کلومیٹر سے بھی کم دور ایک تنگ گھاٹی کے اس پار پڑا مل گیا۔‘’ملبے کا معائنہ کرتے ہوئے، ہم نے پائلٹ کی باقیات کی تلاش کی لیکن کچھ بھی نہیں ملا۔ شام تک، میں نے سوچا کہ حادثے کو 24 گھنٹے ہو چکے ہیں، پائلٹ اب تک افغانستان سے فرار ہو چکا ہو گا۔‘
لیکن ’میں صبح سات بجے کے قریب بیدار ہوا اور جب ہم ناشتہ ختم کر رہے تھے تو میں نے باہر میس کے لان میں بہت ہلچل دیکھی۔ باہر نکل کر ہم نے دیکھا کہ تقریباً 30 قبائلیوں کا ایک گروپ ایک شخص کو گھیرے ہوئے ہے جس نے پیوند لگی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ پاؤں میں جوتے تھے جنھوں نے برسوں سے پالش نہیں دیکھی تھی، بغیر جرابوں کے۔‘’وہ 30 کی دہائی کے اواخر یا 40 کی دہائی کے اوائل کی عمر کا ایک خوبصورت آدمی تھا، تقریباً چھ فٹ لمبا، چوڑا سینہ اور چپٹا پیٹ تھا۔ گہری سبز آنکھیں، بڑی اور اچھی طرح سے کٹی ہوئی، بھوری بھوری مونچھیں تھیں۔‘وہ گرائے گئے جہاز کا سوویت پائلٹ تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
قید اور رہائی
اس سے پہلے افغانستان میں بھی جنگ کے دوران میں رٹسکوئی کے طیارے کو دو بار مار گرایا گیا تھا لیکن وہ دونوں موقعوں پر بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب رہے تھے۔ یہ تیسرا موقع تھا۔گرو لکھتے ہیں کہ ’وہ بحفاظت جہاز سے باہر نکلا تھا اور دو راتوں اور ایک دن تک گرفتاری سے بچا رہا۔ شاید دن میں چھپتا تھا اور رات کو سرحد کی طرف بڑھتا تھا۔ صبح سویرے اپنے زیر جامے میں ایک کھیت میں سوتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔‘’اس جگہ کے قریب ایک گاؤں تھا جہاں اسے پکڑا گیا تھا۔ اسے گاؤں کی ایک عورت نے دیکھا جو صبح کے وقت کھیتوں میں رفع حاجت کے لیے نکلی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی واپس آئی اور گاؤں کے لوگوں کو اطلاع دی جنھوں نے جا کر اسے پکڑ لیا اور اسے وہ پرانی شلوار قمیض پہنا کر میس میں لے آئے۔‘’غیر سرکاری تفتیش میں اس نے ایسے برتاؤ کیا جیسے وہ انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھ سکتا ۔ ہم نے جاناکہ وہ 40 سال کا تھا اور سوویت لڑاکا طیارے کے ایک ونگ کی کمانڈ کر رہا تھا۔ ہم نے ان تمام سوویت لڑاکا طیاروں کے نام لیے جو ہم جانتے تھے اور اس نے کہا کہ اس نے ان سب کو اڑایا ہے۔‘اسلام آباد میں رٹسکوئی سے باقاعدہ پوچھ گچھ کی گئی اور آخرکار تقریباً آٹھ دن کی قید کے بعد، 16 اگست 1988 کو اسلام آباد میں سوویت سفارت خانے کے حوالے کر دیا گیا۔گرو لکھتے ہیں: ’ان دنوں سوویت یونین بار بار یہ الزام لگا رہا تھا کہ پاکستانی پائلٹ افغانستان کے اندر سے افغان پائلٹوں کے ساتھ مل کر جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ دنیا کو صرف یہ بتانے کے لیے کہ حقیقت میں یہ سوویت پائلٹ تھے جو پاکستانی حدود میں اہداف پر حملہ کر رہے تھے، حکومت پاکستان نے پائلٹ کی حوالگی کو یقینی بنایا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے شام کی خبر نامہ میں سوویت سفارت خانے کو مناسب کوریج دی گئی۔‘
سوویت یونین کے ہیرو جنھوں نے بطور نائب صدر پاکستان کا دورہ بھی کیا
سٹیو کول نے اپنی کتاب ’گوسٹ وار‘ میں لکھا ہے کہ امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی نے رٹسکوئی کو بچانے کے لیے مداخلت کی تاکہ جنیوا معاہدے اور افغانستان سے سوویت انخلا میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ایئرکموڈور قیصر طفیل نے اپنی کتاب ’گریٹ بیٹلز آف پاکستان ایئرفورس‘ میں افغان جنگ کے دوران پاکستانی حدود میں گرائے جانے والے سوویت یا سوویت ساختہ افغان لڑاکا طیاروں کی تعداد پانچ لکھی ہے جن میں رٹسکوئی کا ایس یو 25 طیارہ شامل ہے۔واپسی پر، رٹسکوئی کو سوویت یونین کا ہیرو گردانا گیا اور 1993 میں بغاوت کی کوشش کی قیادت کرنے سے پہلے وہ بورس یلسن کے ماتحت روس کے نائب صدر بن گئے۔اُس عہدے پر وہ 10جولائی1991 سے چار اکتوبر 1993 تک فائز رہے۔ اِس کے بعد وہ روس کے صوبے کرسک ابلاسٹکا کے گورنر اور روس میں آئینی بحران کے دوران مختصر عرصے کے لیے روس کے قائم مقام صدر بھی بنے۔خالد ایچ لودھی کی تحقیق ہے کہ روسی پائلٹ کا جہاز گرانے والے سکواڈرن لیڈر اطہر بخاری ایئر مارشل بنے۔ وہ پاک فضائیہ میں وائس چیف آف ایئر سٹاف کے عہدے تک پہنچے جبکہ سکواڈرن لیڈر توفیق راجہ ایئرکموڈور کے عہدے پر ترقی پا کر ملیر ایئر بیس کے سٹیشن کمانڈر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔حالات بدلے اور سوویت یونین ٹوٹ کر روس کی شکل میں سمٹ گیا۔ روس کا پاکستان کے ساتھ سکیورٹی تعاون شروع ہو گیا۔تجزیہ کار کمال عالم نے لکھا کہ پاکستان نے روس کے ساتھ سکیورٹی تعاون کو تیز کرنا شروع کر دیا۔ پاکستانی اور روسی افواج کے درمیان پہلی فوجی مشقیں ہوئیں۔’یہ ان دو ملکوں کے لیے ایک قابل ذکر اور تاریخی تبدیلی ہے جو کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کو حریف سمجھتے رہے ہیں۔‘رٹسکوئی نے دسمبر 1991 میں روس کے نائب صدر کے طور پر پاکستان کا دورہ بھی کیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.