چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا کہنا ہے کہ حکومت الیکشن کے لیے پیسے نہیں دے رہی۔
سپریم کورٹ میں سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی ٹرانسفر کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف الیکشن کمشنر کو سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے ٹرانسفر کیس میں طلب کیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کیا کہ آئین میں واضح درج ہے نگراں حکومت تقررو تبادلے نہیں کر سکتی، نگراں حکومت کو تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دے گی، الیکشن کمیشن وجوہات کا جائزہ لے کر مناسب حکم جاری کرنے کا پابند ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ 90 دن میں انتخابات سے متعلق آئین میں کوئی ابہام نہیں، شفاف انتخابات کرانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر راجہ نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو صوبے کی بات پر من وعن عمل نہیں کرنا ہوتا، الیکشن کمیشن نے تقرری تبادلے میں دیکھنا ہوتا ہے ٹھوس وجوہات ہیں یا نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ تفصیلی اجلاس میں صوبوں کو تقرری و تبادلے کی گائیڈ لائنز جاری کیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت گائیڈ لائنز بنائیں؟
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ کہنا چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن نے یکساں پالیسی کے تحت پورے صوبے میں تقرری و تبادلوں کی اجازت نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ کچھ کمشنر، ڈی سی، آر پی او وغیرہ کی ٹرانسفر ضروری تھی، الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، آرمی کو سکیورٹی کا کہتے ہیں تو وہ نہیں دے رہے۔
سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ حکومت الیکشن کے لیے پیسے نہیں دے رہی، ماتحت عدلیہ نے 2018 میں اسٹاف دیا، اب دینے کو تیار نہیں، الیکشن کمیشن کے اختیارات روک دیے گئے، صاف شفاف انتخابات کیسے کرائیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کیا کہ آپ نے اس مسئلے پر حکومت سے رابطہ کیا ہے؟
چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اپنے تمام ترمسائل سے آگاہ کیا ہے۔
سکندر سلطان راجہ نے یہ بھی کہا کہ اگر چند کمشنر، ڈی سی، آر پی او، ڈی پی اوز کے تبادلے نہ ہوئے تو انتخابات شفاف نہیں ہوں گے، عدالت حکم دے گی تو تبادلے نہیں کرنے دیں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ایسا کوئی حکم نہیں دے رہی، آئین کا ایک ایک لفظ ہمیں پابند کرتا ہے۔
سپریم کورٹ نے غلام محمد ڈوگر کے تبادلے سمیت پنجاب میں تمام افسران کا ریکارڈ طلب کر لیا اور کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو کل پھر طلب کر لیا۔
واضح رہے کہ وقفے سے جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی کو تبدیل کیوں کیا گیا، غلام محمود ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے غلام محمود ڈوگر کو دوسری بار تبدیل کیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ افسران کی تبدیلی میں الیکشن کمیشن کا کیا کردار ہے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان کے بعد ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے ٹرانسفر پر حکمِ امتناع میں 16 فروری تک توسیع کی تھی۔
سپریم کورٹ نے غلام محمود ڈوگر کے ٹرانسفر پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی۔
غلام محمود ڈوگر کو سروس ٹریبونل کے ایک بینچ نے بحال جبکہ دوسرے نے معطل کیا تھا۔
غلام محمود ڈوگر نے سروس ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
Comments are closed.