الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے ججز سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے کیسے حکم پہلے دے دیا کہ الیکشن ہم نے کرانے ہیں؟
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التوا سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عرفان قادر نے کہا کہ پہلےمجھے سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتادیا ہے؟
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔
اپنے دلائل میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی۔
اس پر چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ وہ وجوہات بتائیں کیوں جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات پر آپ کو جوابدہ نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفاق قادر نے کہا کہ چیف جسٹس انہیں نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کے کیس سننے سے معذرت کا کیا کوئی دستخط شدہ آرڈر ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا ججز کو آپس میں ملنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جلد فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پرسوں جسٹس فائز عیسیٰ سے ملاقات ہوئی، یہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ سے ملاقات میں فل کورٹ پر بات ہوئی۔
وہ ملاقات میں یہ سمجھے کہ شاید جسٹس فائز اپنے فیصلے کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہ بن سکیں۔
عرفان قادر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کے دلائل بہت خوبصورت اور جامع تھے، جس پر چیف جسٹس نے لقمہ دیا کہ بہت شکریہ آپ کے دلائل تو تفریحی تھے۔
Comments are closed.