جیل کے محکمے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ناوالنی تقریباً فوراً ہی ہوش کھو چکے تھے۔ ایمرجنسی میڈیکل ٹیم کو فوری طور پر طلب کیا گیا۔ طبی ٹیم نے ان کی حالت بہتر بنانے کی پوری کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔وہ روسی صدر کے خلاف ایک ایسی جدوجہد کر رہے تھے جو انھیں سوشل نیٹ ورکس اور روسی سڑکوں پر لاکھوں پیروکاروں سے لے کر ملک کی جیلوں میں مختلف سزاؤں تک لے گئی۔ اس کے علاوہ ان پر کئی حملے بھی کیے گئے۔ناوالنی نے پوتن پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایک ’جاگیردارانہ ریاست‘ کے ذریعے ’روس کا خون چوس رہا ہے‘ جو کہ کریملن میں طاقت کا مرکز ہے۔روسی خبر رساں ایجنسی ٹاس کی رپورٹ کے مطابق الیکسی ناوالنی کی موت کی وجوہات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ الیکسی ناوالنی کے وکیل لیونیڈ سولوویو نے روسی میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔آئیے جانتے ہیں کہ روسی صدر کے وہ کون سے مخالفین تھے جن کی موت ماضی ایسے ہی پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’انتقام کی ٹھنڈی ڈش‘
یوگینی پریگوِژن ’طیارے کے حادثے میں ہلاک‘ ہو گئے تھے۔روسی حکام کے مطابق مسلح گروہ ویگنر کے بانی وگینی پریگوژن کی مبینہ ہلاکت بدھ کے دن ماسکو کے شمال مشرق میں ایک طیارے کے حادثے میں ہوئی تاہم اس حادثے کی وجوہات اب تک سامنے نہیں آ سکیں۔ وگینی پریگوژن نے صرف دو ماہ قبل ہی صدر پوتن کے اقتدار کو سب سے بڑا چیلنج دیا تھا جس کے بعد ان کی پراسرار حالات میں ہلاکت کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے اور اس حادثے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔امریکہ، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ اس حادثے کے پیچھے روسی حکام کا ہاتھ ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ کسی ہالی وڈ فلم کا سکرپٹ لگتا ہے۔تاہم یہ شکوک مکمل طور پر بے بنیاد بھی نہیں ہیں کیوںکہ ماضی میں صدر پوتن کے متعدد مخالفین اور ناقدین کی موت پراسرار حالات میں ہو چکی ہے۔ ان کی ہلاکت سے چند ماہ پہلے تک وگینی پریگوژن روسی صدر کے انتہائی قریبی ساتھی اور معتمد سمجھے جاتے تھے اور ان کا تعلق اس زمانے میں شروع ہوا تھا جب پوتن سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی ’کے جی بی‘ میں کام کرتے تھے۔ تاہم اس قربت کا اختتام 23 جون کو ہوا جب کئی ماہ تک یوکرین کی جنگ میں روسی فوجی قیادت پر تنقید کرنے کے بعد وگینی پریگوژن نے ویگنر کے جنگجوؤں کو حکم دیا کہ وہ یوکرین کی سرحد کے قریب روسٹو شہر پر قبضہ کر لیں۔معاملہ یہی نہیں رُکا بلکہ انھوں نے ویگنر کے جنگجوؤں کو ماسکو کی جانب پیش قدمی کا حکم دے دیا جس کا مقصد بظاہر روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور ان کے قریبی حکام کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھا۔تاہم یہ بغاوت کامیاب ہونے سے قبل ہی بیلاروس کے صدر کی مداخلت کے بعد مذاکرات کے نتیجے میں اختتام پذیر ہوئی۔ لیکن یہ بغاوت روس پر صدر پوتن کے کنٹرول کو ایک زوردار جھٹکا دینے میں ضرور کامیاب رہی تھی۔ صدر پوتن کی جانب سے اس بغاوت کو ’تختہ الٹنے کی سازش‘ قرار دیا گیا اور اس سازش کے مرکزی کرداروں کو ’غدار‘ اور ’روس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والے‘ قرار دیتے ہوئے سزا دینے کا اعلان بھی کیا۔لیکن وگینی پریگوژن حالیہ ہفتوں کے دوران روس میں باآسانی گھومتے پھرتے رہے جو شاید اس بات کا ثبوت تھا کہ صدر پوتن ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کا ماننا ہے کہ ’انتقام ایک ایسی ڈش ہے جو ٹھنڈی کر کے کھانی چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
پوتن کے ناقد جو پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے
صدر پوتن کے دور اقتدار کے دوران ان کے کم از کم 20 مخالفین یا ناقد جن کو ’غدار‘ کا خطاب ملا، روس یا بیرون ملک پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے۔ان میں سے پہلی شخصیت ولادیمیر گولوویلوو تھے جن کو ماسکو میں اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ اپنے کتے کے ہمراہ چہل قدمی کر رہے تھے۔ولادیمیر گولوویلوو بھی پہلے پوتن کے حامی ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں انھوں نے صدر پر تنقید شروع کر دی تھی۔ان کی ہلاکت سے قبل روس کی برسراقتدار جماعت نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد انھوں نے نجکاری کے عمل سے غیر قانونی طور پر پیسہ بنایا۔ولادیمیر گولوویلوو کی ہلاکت کے ایک سال بعد سرگئی یوشینکو نامی رکن پارلیمنٹ کو بھی ماسکو کی گلیوں میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔سرگئی یوشینکو اس پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ تھے جس نے ستمبر 1999 میں اپارٹمنٹ بلڈنگ پر ہونے والے اُن حملوں کی تحقیقات کی تھیں جن کے لیے چیچن باغیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ اس حملے کو جواز بناتے ہوئے روس نے چیچنیا کے خلاف دوسری جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔سرگئی یوشینکو کو شک تھا کہ یہ حملے دراصل روسی خفیہ ایجنسیوں نے کروائے تھے۔ سات اکتوبر 2006 کو ایک اور کیس سامنے آیا جب روسی اخبار نوایا گزیٹا کی صحافی اینا پولیٹ کووسکایا کا قتل ہوا۔ انھوں نے چیچنیا میں روسی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتے ہوئے تنقید کی تھی۔سنہ 2014 میں اس قتل کے الزام میں پانچ ملزمان کو سزا سنائی گئی تاہم حکام یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ ان ملزمان کو اینا کے قتل پر کس نے اُکسایا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ملک سے فرار بھی کافی نہیں
صدر پوتن کے مخالفین اور ناقدین صرف روس میں ہی ہلاک نہیں ہوئے۔ چند ایسے افراد جنھوں نے یہ سوچ کر ملک چھوڑ دیا کہ وہ شاید بیرون ملک محفوظ رہیں گے، وہ بھی پراسرار حالات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور کیس سابق جاسوس الیگزینڈر لٹوینینکو کا ہے جن کی موت نومبر 2006 میں لندن کے ایک ہسپتال میں اچانک بیمار ہو جانے کے بعد ہوئی۔بعد میں تفتیش میں معلوم ہوا کہ ان کی موت پولونیئم 210 نامی تابکاری مواد کی وجہ سے ہوئی جو کافی زہریلا ہوتا ہے۔انھوں نے برطانیہ میں پناہ لیتے ہوئے روسی حکام پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کو روسی اولیگارک بورس برزوسکی کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔بورس برزوسکی مارچ 2013 میں برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔کچھ افراد کا ماننا ہے کہ انھوں نے اپنے معاشی مسائل سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔ تاہم جلا وطنی کے دوران ان پر متعدد حملے ہو چکے تھے۔،تصویر کا ذریعہEPA/YULIA SKRIPAL/FACEBOOK
اس فہرست میں تقریبا نصف درجن ایسے اولیگارکس (روس کے امیر ترین افراد) اور سابق روسی حکام کا نام بھی شامل ہے جن کی پراسرار حالات میں موت یوکرین پر روسی حملے کے بعد ہوئی۔روسی تیل کمپنی ’لک آئل‘ کے صدر ریول میگانو ستمبر 2022 میں مبینہ طور پر ماسکو کے ایک ہسپتال کی کھڑکی سے گر کر ہلاک ہوئے تھے جہاں وہ علاج کے لیے داخل تھے۔برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن وولف نے ایک مضمون میں خبردار کیا ہے کہ ’دو دہائیوں سے پوتن کا پیغام واضح رہا ہے کہ وہ مخالفت برداشت نہیں کریں گے اور اس کے جان لیوا نتائج ہوں گے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ ’یہ حکمت عملی کارگر رہی ہے کیوں کی پوتن نے ہر قسم کے اندرونی چیلنج سے بچتے ہوئے تنقید کو مٹا دیا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.