الہان عمر: ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس کا اسلاموفوبیا کے خلاف بل منظور، وائٹ ہاؤس نے حمایت کر دی
امریکی ایوانِ نمائندگان کی مسلمان ڈیموکریٹ رکن الہان عمر اکثر و بیشتر دائیں بازو کے سیاست دانوں یہاں تک کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک کی بھی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں مگر حال ہی میں اُنھیں ایوانِ نمائندگان کے فلور پر ہی ایسے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ایوان کو وہ الفاظ حذف کرنے پڑے۔
14 دسمبر کو جس وقت الہان عمر کے اسلامو فوبیا کے خلاف پیش کیے گئے ایک بل پر بحث ہو رہی تھی تو رپبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس سکاٹ پیری نے غلط طور پر یہ دعویٰ کیا کہ الہان عمر کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے۔
سکاٹ پیری نے اس بل پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عوام کا پیسہ اُن دہشت گرد تنظیموں کو نہیں جانا چاہیے جن سے اس بل کے معمار منسلک ہیں۔
بعد میں کانگریس نے الہان عمر کا پیش کردہ یہ بل منظور کر لیا جس کے حق میں تمام ڈیموکریٹس اور مخالفت میں تمام رپبلکنز نے ووٹ دیا اور سکاٹ پیری کے الفاظ کو ایوان کی کارروائی سے حذف کر دیا گیا۔
الہان عمر کے پیش کردہ بل میں کیا کہا گیا ہے؟
الہان عمر کے اس بل کا نام ‘بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ’ ہے جس کا مقصد ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندے کا تعین کیا جائے جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو رپورٹ کر کے امریکی محکمہ خارجہ کے علم میں لائے۔
اس نمائندے کی تعیناتی صدر کے ذریعے ہو گی اور واضح رہے کہ ایسا ہی ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمہ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔
ویسے تو یہ بل گذشتہ کئی مہینوں سے ایوانِ نمائندگان کی اُمورِ خارجہ کمیٹی میں موجود تھا مگر گذشتہ چند دنوں کے واقعات نے اس بل میں نئی روح پھونک دی ہے جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا ہے۔
لورین بوبرٹ کے تبصروں کے بعد ڈیموکریٹ ارکان نے ایک قرارداد پیش کی کہ اُن سے سزا کے طور پر کمیٹیوں کی رکنیت واپس لے لی جائے۔ اس تصویر میں ڈیموکریٹ ارکان قرارداد متعارف کروانے کے بعد نیوز کانفرنس سے بات کر رہے ہیں
نومبر کے اختتام میں رپبلکن نمائندہ لورین بوبرٹ کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں اُنھوں نے الہان عمر کو ‘جہاد سکواڈ’ کا حصہ کہتے ہوئے مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیا تھا۔
اُن کا یہ کہنا تھا کہ وہ کانگریس کی ایک لفٹ میں الہان عمر کے قریب اس لیے محفوظ محسوس کر رہی تھیں کیونکہ مؤخر الذکر اپنا بیک پیک زمین پر رکھ کر کہیں بھاگ نہیں رہی تھیں۔ اس کے کچھ دن بعد رپبلکن نمائندہ مارجوری ٹیلر گرین نے الہان عمر کو ’جہادی‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے
چنانچہ گذشتہ دو ہفتوں کے واقعات کے تناظر میں اس بل کی منظوری کو اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ بعدازاں الہان عمر نے ٹوئٹر پر کہا کہ ایوانِ نمائندگان میں اس بل کی منظوری دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل ہے اور ایک مضبوط اشارہ ہے کہ اسلاموفوبیا کو کہیں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’نفرت کے خلاف کھڑے ہونے سے آپ حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں مگر ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ مضبوطی سے کھڑے رہیں۔‘
وائٹ ہاؤس کی بل کی حمایت
علاوہ ازیں وائٹ ہاؤس نے بھی اس بل کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ آزادی مذہب بنیادی انسانی حق ہے۔
چنانچہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن اس بل کی حمایت کریں گے مگر اُن تک پہنچنے کے لیے ابھی بھی اس بل کو سینیٹ سے منظور ہونا ہو گا جہاں سو نشستوں میں سے 50 رپبلکنز کے پاس، 48 ڈیموکریٹس کے پاس اور دو نشستیں آزاد اُمیدواروں کے پاس ہیں۔
اگر منگل کے روز امریکی ایوانِ نمائندگان میں ہونے والی ووٹنگ کو مدِنظر رکھا جائے تو ڈیموکریٹس کے لیے اس بل کو سینیٹ سے منظور کروانا تب تک ممکن نہیں ہوگا جب تک کہ اُنھیں رپبلکن جماعت میں سے کچھ حد تک حمایت حاصل نہ ہو۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق الہان عمر نے کہا کہ ’ہم مسلم مخالف تشدد میں بے انتہا اضافے میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسلاموفوبیا اپنی نوعیت میں عالمی ہے اور ہمیں اس کے خلاف عالمی کوششیں کرنی ہوں گی۔‘
روئٹرز نے سینیٹ میں ڈیموکریٹ رہنما چک شومر سے رابطہ کیا تا کہ یہ جانا جا سکے کہ اُن کی جماعت اس بل کو سینیٹ سے منظور کروانے کے لیے کیا کر رہی ہے، تاہم اُنھوں نے اس درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ڈیموکریٹ رکن الہان عمر کا تعلق صومالیہ سے ہے اور اُنھیں فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی عوام کے حق میں بات کرنے پر دائیں بازو کے سیاست دانوں اور مبصرین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس تنقید میں اُن کے ساتھ ایک اور ڈیموکریٹ نمائندہ راشدہ طلیب بھی نشانہ بنتی رہی ہیں۔
Comments are closed.